کے ٹوموٹل سکردو ایڈونچر ٹوارزم کا میوزیم

عاشق فراز

دریائے سندھ کے بائیں کنارے سکردو کے ایک ٹیلے میں واقع کے ٹو موٹل میں ویرانی کا ڈیرہ ہے ، در و دیوار حسرت سے کسی چاپ کے منتظر ہیں، علاقے میں سیاحت کے موسم نے انگڑائی لی ہے اور اپنی جوبن دکھانے جا رہا ہے لیکن یہاں گہری خاموشی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں کے مکینوں نے منہ پھیر لیا ہو تو پھر قصہ کیا ہے؟ صدر دروازے پر تالے کیوں پڑے ہیں؟ کس کو یہاں کی چہل پہل ناگوار گزری؟اس کا جواب بعد میں ، آئے پہلے اس موٹل سے جڑی تابناک تاریخ اور اس کے در و دیوار پر ٹھہری ان کوہ نوردوں کی سانسوں کا تذکرہ چھیڑتے ہیں جنہوں نے قراقرم اور ہمالیہ کے سرکش پہاڑوں کو عالم جذب کی کیفیت میں جاکر کمند ڈالی اور ان پہاڑوں کا غرور پاﺅں تلے ریزہ ریزہ کر دیا۔یوں تو معلوم تاریخ کے مطابق بلتستان میں پہلا سیاح G.T.Vigne جس کا تعلق۔۔۔۔ سے تھا پہنچا اور اس نے کشمیر اور بلتستان کی سیاحت پر دو جلدوں میں کتاب لکھی۔ اس کے بعد Thomson Thomson آیا اور اس نے بھی کتاب لکھ ڈالی۔1840 کے بعد جب یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر گلاب سنگھ کی عملداری میں گیا تو پھر کشمیر دربار کی خصوصی اجازت لے کر مغربی ممالک کے کوہ نورد سیاحوں ، ارضیات اور تمدن و معاشرت پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے یہاں کا رخ کیا۔ 1856 میں کشمیر دربار کی اجازت سے ہی سروے آف انڈیا نے T.G.Montgomerie کی سرپرستی میں بلتستان کا ارضیاتی سروے کیا اور قراقرم اور مغربی ہمالیہ کے اونچی چوٹیوں اور پہاڑوں کی درجہ بندی کی اور نامیکلی چر مرتب کیا۔ 1861 میں Godwin Austen آئے اور انہوں نے کے ٹو اور بالتورو کے دیگر پہاڑوں اور گلیشےئرز کے نقشے اور تصاویر بنائی۔1887 میں Younghusbang نے پرانا مستغ درہ پار کرکے اسکولی پہنچا۔یہ تو چند نام ہیں غرض ایک طویل فہرست ہے کہ کس کس نے یہاں قدم رکھا اور نئی داستان رقم کی جس کا تذکرہ کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ اب ہم صرف ایڈونچر ٹوارزم یعنی کوہ پیماﺅں کی آمد اور ان کے کارناموں کی طرف رخ موڑتے ہیں۔بلتستان میں ایڈونچر ٹوارزم کا باقاعدہ آغاز 1902 سے ہوا جب Oscar Eckenstein ٹیم کے ہمراہ K2 آئے اور اہم معلومات اکٹھی کیں۔ پھر 1909 میں Luigi Amadeo جو کہ ڈیوک آف ابروزی تھے اپنی ایک بڑی ٹیم کے ساتھ یہاں وارد ہوئے۔ ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ وہ K2 پہاڑ سر کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی سائٹیفک ریسرچ بھی کریں۔ گو کہ انہیں K2 سر کرنے میں کامیابی تو نہیں ہوئی تاہم ٹیم نے یہاں کی ارضیاتی و سماجی پہلوں پر بڑی ریسرچ کیا اور شائع بھی ہوئیں۔1914 میں فلیپو ڈی فلیپی آئے اور یہاں کی سماجی اور ارضیاتی تاریخ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیا۔1954میں Ardito Desio کی قیادت میں اٹلی کی ایک مہم جو پارٹی K2 کو سر کرنے آئی اور اسی ٹیم کے دو ممبران Lino Laccdelliاور Achille Compagnoni نے پہلی دفعہ K2 سر کرنے کا ریکارڈ بنایا۔غرض اس کے بعد تو کوہ پیمائی، سماجی و تہذیبی تحقیق ،ریسرچ اور دیگر غرض و غایت کے حوالے سے ایک تانتا بندھا رہا جو ابھی تک جاری ہے۔چونکہ یہاں سیاحوں کو ٹھہرنے کے لئے کوئی قابل ذکر ہوٹل موجود نہیں تھا لہذا سیاح اپنے ساتھ لائے ہوئے خیموں کو مناسب جگہ پر نصب کر کے رہائشں پذیر ہوتے تھے۔ حکومت پاکستان نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور 1972 میں سکردو میں PTDC Motel کا ابتدائی حصہ تعمیر کیا اور بعد میں اس میں توسیع کی گئی، یوں کوہ پیماﺅں اور دیگر سیاحوں کو ایک مناسب سہولت فراہم ہوئی۔ یہیں سے کے ٹو موٹل کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ اس موٹل میں آنے والی ایکسیڈیشن ٹیموں اور مشہور کوہ پیماﺅں کی فہرست طویل ہے۔ بہت سے ایسے نام بھی ہیں جو یہاں سے آگے پہاڑوں میں گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ وہ نامور کوہ پیما جو اس موٹل میں ٹھہرے ان میں Rowell Galen Masatsugu Konishi, Reinhold Messner, Martino Morctti , Mantovani Rpberto وغیرہ شامل ہیں۔حتی کہ 1954میں پہلی دفعہ کے ٹو سر کرنے والے Lino Laccedilli بھی 2004 میں فتح کی گولڈن جوبلی منانے آئے اور اسی موٹل میں رہے۔ پاکستان کی معروف شخصیات میں سے سابقہ وزیراعظم عمران خان ، نذیر صابر، اشرف امان، حسن سدپارہ، صادق سدپارہ، لٹل کریم، مستنصر حسین تارڑ، رضا علی عابدی، سلمان رشید اور سب کو رلا کر کے ٹو کی آغوش میں جا بسنے والا محمد علی سدپارہ بھی یہاں قیام کر کے کئی بار اس موٹل کی زینت بڑھاتے رہے۔ غرض یہ موٹل کوہ پیمائی اور سیاحت کے قد آور شخصیات کی آماجگاہ رہا ہے اور میوزیم کا درجہ رکھتا ہے۔اب یہ موٹل 2018 سے بند پڑا ہوا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کی نیلامی ہونی ہے۔ کبھی یہ خبر بھی گردش کرتی رہی کہ سابق حکمران کے ایک قریبی دوست خریدنا چاہتے ہیں اس لئے اس کو بند کیا گیا ہے۔ کبھی کہا گیا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد ٹورازم کا محکمہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے اور اب اس موٹل سمیت دیگر PTDC موٹلز کی قسمت کا فیصلہ صوبائی حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ غرض جتنا منہ اتنی باتیں۔ مگر اب 22 اپریل کو پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی جانب سے 10 مئی 2022 کی تاریخ اس ہیرٹیج کی نیلامی کے لئے مقرر ہو چکی ہے جس کے لئے جمع کے گئے REPs کی کانٹ چھانٹ کے بعد چار پارٹیوں کو منتخب کیا گیا ہے۔اب جب کہ بلتستان میں سیاحت بہت بڑھ گئی ہے، اندرون ملک پروازوں کے علاہ بیرون ملک سے بھی پروازوں کی وعید ہے ایسے میں اس تاریخی موٹل کی بے یقینی کی حیثیت سیاحت کے حوالے سے بلند و بانگ دعووں کی نفی ہے۔ یہ ایک عام کمرشل ہوٹل نہیں بلکہ یہ ہیرٹیج کی حےثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کے در و دیواریں بلند و بالا کوہ پیماں اور دیگر سیاحوں کی انگنت کہانیوں کی آمین ہے۔ علاہ ازیں یہ دراصل Tourist Destination کی حثیت اختیار کرگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس موٹل میں ان نامور کوہ پیماﺅں کی تصاویر، ان کی مہمات کی تفاصیل اور ڈاکومنٹری فلموں کو بطور ایڈونچر ٹورازم کے میوزیم کے طور پر رکھی جاتی جو یہاں قیام کر چکے ہیں۔ ساتھ ساتھ اسے موٹل کے طور پر بھی چلا جائے تاکہ اس کے وقار میں اور اضافہ ہوتا جائے اور یہ تاریخی جگہ محفوظ رہے لیکن کیا کیا جائے ہمارے ملک میں تو ہر شے برائے فروخت دستیاب ہے خواہ وہ تاریخی طور پر کتنی اہم اور قیمتی شے بھی کیوں نہ ہو۔