جمہوریت زندہ باد

ڈاکٹر شجاعت میثم

ملک میں کچھ دن آئینی بحران کی صورت ضرور رہی لیکن اس سارے معاملے میں میرے لئے یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ کون جیتا اور کون ہارا مگر یہ یقینی بات ہے کہ جمہوریت کو تقویت ملی۔ بچے بچے کو جمہوری اور آئینی اصولوں سے آگاہی ملی۔ اس تبدیلی کے کچھ دور رس نتائج ہوںگے۔

 اس سارے معاملے میں عوام کی بے پناہ سیاسی تربیت ہوئی ہے۔ جسکا یقینی نتیجہ یہ نظر آرہا ہے کہ عوام اپنی پارٹی اور سیاسی قائدین سے کارکردگی کا نہ صرف مطالبہ کرے گی بلکہ کوتاہیوں پر جواب بھی مانگے گی۔ لہذا تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے معیاری سیاست کی طرف آنا مجبوری بن جائے گی جسکے لئے اہل اور ایماندار سیاست دانوں کو آگے لانا لازم ہو جائے گا۔ کیونکہ جسطرح خان صاحب سے لوگوں نے امیدیں لگائی تھیں اور وہ پورے نہ ہونے پر انکا جو انجام ہوا وہ باقی تمام پارٹیوں کو اس بات کا واضح پیغام ہے۔

جن اداروں پر سیاست میں عمل دخل کا الزام لگتا رہا اب مزید وہ اس الزام کے متحمل نہیں ہو سکتے، یہی وجہ ہے کہ اس بار جو حالات پیدا ہو چکے تھے ماضی میں اس سے کئی گنا کم شدت کے سیاسی بحرانوں پر جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تھی لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا، ریاستی اداروں نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی اور جو کچھ ہوا وہ جمہوری طریقے سے انجام کو پہنچا۔  یوں ملک میں شفاف جمہوری اصولوں کو پنپنے کا موقع ملنا یقینی ہو گیا ہے  اور یہی ملکی ترقی کا واحد حل ہے۔

جس پارلیمنٹ کو تجزیہ نگار اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے کمزور ادارہ سمجھتے تھے جو کہ ملکی مشکلات کی ایک بڑی سبب تھی اب اسی پارلیمنٹ کی طاقت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی کی بھرپور حوصلہ شکنی ہوئی ہے، قوم موقع پرستوں کو مسترد ہوتا ہوا دیکھ رہی ہے اور بھرپور مثبت سیاسی روایات نے جنم لیا ہے۔ جس سے مستقبل میں ہر سیاست دان کو پارٹیاں بدلنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا اور عوامی رائے کی قدر کرنا پڑے گی۔

اس میں یہ بھی ثابت ہوا کہ مختلف نظریات اور مختلف اصولوں پر گامزن پارٹیاں بھی کسی مقصد کے لئے ایک ساتھ چل کر کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ روایتی حریف اور سیاسی دشمن سمجھے جانے والی پارٹیاں بھی ایک ساتھ بیٹھ سکتی ہیں، یعنی قائدین میں قوت برداشت کا پروان چڑھنا ایک بیش بہا سیاسی اور جمہوری پیش رفت ہے۔آج جو بھی ہوا اس میں کیا اچھا کیا برا وہ ایک الگ بحث ہے البتہ مستقبل میں ملکی ترقی اور مفاد کی خاطر یہ مثبت جمہوری عمل دہرایا جا سکتا ہے جو پہلے ممکن نہ تھا۔

سیاست میں انتقامی کارروائی، مخالفین سے دشمنی، ہٹ دھرمی، ضد اور انا سے کہیں زیادہ عوامی خدمت، عوامی مفاد، مفاہمت، دوستی کا ہاتھ اور لچک دکھانے کی ضرورت زیادہ اہم اور موثر ثابت ہوئی۔ اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ سیاست میں عدم برداشت، گندی زبان اور غیر مہذب باتیں اچھی بھلی چلتی حکومت کے لئے خود کشی کا مرتکب کر دیتی ہے۔ پاکستان پائندہ باد