رحمان و رحیم نے جن چار عناصر سے کائنات خلق کی وہ آگ، پانی، مٹی اور ہوا ہیں۔یہ قدرت کے وہ انمول شاہکار ہیں جن سے بنی آ دم فیضیاب ہوتی آرہی ہے۔ مشاہدہ کرنے سے ادراک ہوتا ہے کہ یہ چیزیں ہمارے آس پاس ہر جگہ موجود ہیں بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کے ہم ان کے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں لیکن مادیت نے ہم پر اپنی گرفت اتنی مضبوط جمارکھی ہے کہ اس کے حصار سے نکلنا آسان نہیں۔ کائنات کے ساتھ ساتھ فطرت انسانی بھی ان چار عناصر پر مشتمل ہے'آگ کی روشنی سب کی نظروں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ آگ جلاتے وقت خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں آگ پھیل نہ جائے ورنہ یہ تباہی اور بربادی بپا کرسکتی ہے۔ آگ گرمائش پہنچا کر احساسِ راحت و سکون چراغ کی لو کو جلتا دیکھ کر انسان دوسری چیزوں سے بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنے تفکرات کی دنیامیں غرق ہوکر زندگی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جیسے جیسے چراغ کی لو ٹمٹمانے لگتی ہے وہ سوچتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح وہ بھی اس دارِ فانی سے ایک دن کوچ کر جائے گا۔ موسمِ سرما میں آگ کے گرد بیٹھنے سے وقت کے تھمنے کا گمان ہوتا ہے۔ آگ کی گرمی ہمیں اپنے کام کی طرف راغب کرتی ہے اور یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنے اندرونی نور کی معرفت سے اس دنیاکو روشن کرکے آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموارکرنا ہے۔آگ گر انسان کے قابومیں رہے تواسکے بیش بہا فائدے ہیں اور اگر انسان کے قابو میں نا رہے تو ہلاکت کا موجب بنتی ہے۔آگ کی تمازت کے سامنے عاجز ہوکر انسان اس کی پرستش کرنے لگا لیکن آگ کے خلق تک نا جا سکا۔ نمرود مردود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلانے کے لیے جب آ گ کے حوالے کیا تھاتو خدا کے حکم سے وہ آگ ایک گلستان میں تبدیل ہوگئی اور ابراہیم خلیل اللہ کو آ گ سے آزادی ملی۔آگ بجھانے کے لیے پانی کام آتا ہے۔ اس کے بغیر تمام کائنات ختم ہوجائے گی۔ چرند و پرند اور حیوانات اسی سے راحت پاتے ہیں۔ پودوں کو بھی پانی ہی زندہ اور ہرا بھرا اور پھلا پھولارکھتا ہے۔ انسان کو مستقل چند روز کے لیے پانی سے محروم رکھا جائے تو اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ شروع زمانے سے انسان پانی کا ہی محتاج رہاہے محد سے لحد تک پانی کا ہی کام آتا ہے۔ مرنے والے کو آخری وقت میں پانی پلا کر دنیا سے رخصت کیا جاتا ہے۔ زم زم کے مقدس پانی کو حاجی حج کے دوران پیتے ہیں اور واپس اپنے ساتھ بھی لاتے ہیں۔ خدا کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور بڑی مرادوں سے ملنے والے فرزند اسماعیل کو عرب کے چٹیل تپتے ریگزاروں میں چھوڑا پیاس کی شدت سے تلملاتے بچے کو راحت پہنچانے کے لیے ہاجرہ صفا اورمرہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی تلاش کرتی رہی اور بلاآخر اسماعیل کے پاس پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا اور آبِ زم زم ایک زندہ جاوید معجزہ بن گیا۔ آب زم زم کے چشمہ کے پھوٹنے کے بعد قرب و جوار کے لوگ مکہ میں آ بسے۔ ہرطرح سے پانی زندگی دیتا ہے۔ پانی تازگی بخشتا ہے۔جہاں پانی کا چشمہ یا ندی ہو وہیں پر انسانی تہذیب نشونما پاتی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے موہنجوداڑو کی اتنی عظیم الشان سلطنت کو دنیا آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے پانی کا گھونٹ ہی مسافتوں کے مارے مسافر کو تازگی بخش کر راحت دیتا ہے۔ پانی کا دلفریب منظر ہمیشہ آنکھوں کو بھاتا ہے۔ جھیل، ندی، جھرنے، آبشار اورسمندروں کی کشش لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ پانی کی آواز مضطرب موجوں اور لہروں سے ذھنوں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ کرہ ارض کا بیشتر حصّہ پانی سے بھرا ہے انسانی جسم ستر فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ بدلتے ہوئے موسم نے قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی کے برف کو پگھلا کر پانی کی سطح کو بڑھایا ہے۔ اس موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب اور سونامی کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ مسلسل بارشوں سے آبادیاں زیر آب اجاتی ہیں اور تباہی ہوتی ہے پانی زندگی دینے کے ساتھ جان بھی لے سکتا ہے۔آدم مٹی سے خلق ہوئے۔ خالق نے زمین میں زندگی گزرانے کے لیے انسان کو مٹی کا پیراہن فراہم کیا۔ وہ اسی زمین پرچلتا ہے جس زمین سے لہلہاتے پودے اگتے ہیں۔ انہیں خزانوں سے انسان اور حیوانات کی خوراک کا انتظام ہوتا ہے۔ زمین کی تہہ سے ہیرے، جواہرات اور قیمتی پتھرنکلتے ہیں۔ مٹی سے کالا سونا (پٹرول) برآمد ہوتا ہے جس سے دنیاکا کاروبار چلتا ہے۔ زرخیز سرزمین سے قسم بہ قسم کے پھل پھول اوردرخت موسموں کے حساب سے زمین کو خوشنما بناتے ہیں جن کو دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے اور زبان سے بے اختیار سبحان اللہ نکلتا ہے اور ذہن سوچنے پرمجبورہوتا ہے کہ جس خدا نے اتنی خوبصورت چیزیں بنائیں وہ خود کتنا خوبصورت ہوگا۔ زمین سے انسان کی پہچان جڑی ہوتی ہے۔ ہر خطے کا رہن سہن اور بود و باش اس جگہ کے ماحول اور موسم سے کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ہجرت کرتے وقت روشن مستقبل کے سنہرے خواب پلکوں پرسجاتے ہوئے تارکینِ وطن نئی سرزمین اپناتے وقت کئی دشواریوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ الگ زبان، تہذیب اور ملبوسات کے آئین و آداب سیکھنے میں وقت لگتا ہے جس سے انسان میں تغیر آجاتا ہے۔ ہر سرزمین کے لوگوں کی رنگت الگ ہوتی ہے۔ زیادہ سرد ممالک میں قیام کرنے سے جلد زیادہ سفید ہوجاتی ہے اور جن ممالک میں زیادہ سورج کی روشنی پڑتی ہے ان کی جلد زیادہ جھلس جاتی ہے۔ یہ تفریق بلاآخر انسانیت کی یگانگت کا ہی ثبوت دیتی ہے اور اہلِ دنیا کے لیے امتحان کا باعث بھی بنتا ہے۔ لوگ زمین کے لیے جان تک دے دیتے ہیں، بڑی بڑی جنگیں لڑی جاتی ہیں اور آخرکار انسان کا جسدِ خاکی اسی زمین کے نیچے دو فٹ میں جا کر مٹی میں ہی مل جاتا ہے۔ اسی طرح مادہ پرست دنیا کی بے حسی برداشت کرتے کرتے زمین جواب دے دیتی ہے اور زلزلہ آجاتا ہے اور آنِ واحد میں فلک بوس عمارتیں خاک نشین ہوجاتی ہیں۔ہوا کے بغیر ارضی زندگی دوسرے سیاروں کی طرح بنجر و ویران نظر آتی۔ جب ٹھنڈی ہوائیں نتھنوں سے پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہیں تو گویا جسم میں نئی جان آجاتی ہے۔ ایک سانس چھوڑتے ہوئے انسان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ دوسری سانس دوبارہ لے پائے گا۔ جب تک کاتبِ تقدیر چاہے گا یہ سانس چلتی رہے گی۔ اس طرح اس کے مالک نے اس کی روزی روٹی کا تعین کیا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں گرمی میں راحت پہنچاتی ہیں۔ ایسا نہ ہو تو لو اور گرمی سے حالت خراب ہوجائے اور پنکھے اور ائیرکنڈیشنگ کا سہارا لینا پڑے گا۔ خلیجی ممالک میں جہاں شدید گرمی ہوتی ہے بس اڈے پر بھی ائیرکنڈیشنگ ہوتا ہے۔ ہوا کے بغیر انسان تلملا کرجان بحق ہوجائے۔ کارخانوں اور موٹروں سے خارج آلودہ ہوائووں سے فضا میں زہریلی گیسیں تحلیل ہوتی ہیں جس سے انسانی صحت اثر پذیر ہوتی ہے۔ گرم ہوائوں میں سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ انسان پسینے سے شرابور پریشان حال ٹھنڈک کی تلاش میں مارا پھرتا ہے۔ مزاج میں بھی چڑچڑاپن یا اضمحلال آجاتا ہے۔ بیماری کے وقت ڈاکٹر مریض کو ہوا پانی بدلنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ جلد افاقہ ہو سکے۔ جنت کی ہوا کے سب خواستگار ہیں۔ سرورِ دو عالم ۖ جب اہلِ عرب کوتپتی دھوپ میں جنت کی فرحت بخش ہوائوں کے بارے میں بتاتے تو مومنوں کے دلوں میں ایمان مستحکم ہوتا اور اسی ہوا کو پانے کی خواہش انہیں نیکی کی طرف رجوع کراتی۔ دنیامیں کسی کے کام آنا یا اس کی مشکل دور کرنا اسے ٹھنڈی ہوا مہیا کرنے کی اہمیت رکھتی ہے۔ ہوا میں بھی ایسی طاقت ہے کہ آگ کو بجھا سکتی ہے اور تیزہوائوں سے طوفان یا آندھی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے راستے میں تباہی و بربادی پھیلا سکتے ہیں۔قدرت کے یہ چار عناصر ہمارے حق میں کام کرتے ہیں۔ ان کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں۔ ان سے تباہی بھی پھیل سکتی ہیں۔ انسان کو محتاط رہنا ہے کہ ان قدرتی سرمایوں کا تحفظ اور احترام کرے کیونکہ اگر یہ نہ ہوں تو ارضی زندگی کا توازن خطرے میں پڑسکتا ہے۔ یہ چار عناصر ہمیں اپنی طاقت سے زندگی کے سخت اور نرم پہلو دکھاتے ہیں اور اعتدال اور میانہ روی کا درس بھی دیتے ہیں۔کسی بھی چیز کو جائز مقام نہ دینا ، کسی بھی چیز کی زیادتی اور حق سے کم رتبہ دینا بھی ظلم ہے اور خدا ظالم کو کبھی پسند نہیں کرتا۔
