جی ایم شجاع
بلتستان ڈویژن کے مرکزی شہر سکردو میں برق رفتارتیزی سے آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے بنیادی وجہ تو بلتستان کے سرحدی علاقوں سے مختلف جنگوں میں متاثر ہو کر ہجرت کرکے یہاں آباد ہونا اور بلتستان ہی کے دیہی علاقوں سے جدیدوسائل کے کمی کے باعث اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر سکردو میں رہائش پذیر ہونا ہے ۔ چونکہ گلگت بلتستان خاص طورپر بلتستان کو قدرتی حسن اور مناظر فطرت کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی اور ملکی سیاحوں کا رش سال بہ سال بڑھتا جارہاہے ۔ اب چونکہ خستہ حال شاہراہ بلتستان بھی کا فی بہتر ہوچکا ہے دوسری طرف سکردو ائیر پورٹ کو انٹر نیشنل ائیرپورٹ کا درجہ دیا جاچکا ہے جہاں کراچی، لاہور اور دیگر شہروں سے پروازیں ہورہی ہیں جبکہ بین الاقوامی پروازیں بھی مستقبل قریب میں متوقع ہیں جس کے بعد بلتستان کے چاروں اضلاع خاص طور پر سکردو شہر میں چہل پہل اس قدر ہوگی کہ انتظامیہ کو سنبھالنے میں بہت مشکلات درپیش آئیں گی ۔ بہت تیزی کے ساتھ ہوٹلز، گیسٹ ہاوسز، اور دیگر طرح کے کاروباری مراکزبنائے جارہے ہیں جبکہ زمینوں کی خرید و فروخت بھی بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے ایسے میں ایک چیز کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے وہ سڑکوں کی تنگدامنی ہے ۔ ماضی میں چونکہ بغیر منصوبہ بندی کے تحت مارکیٹیں ، بازار اور مکانات تعمیر کئے گئے ہیں جس کے باعث اج بے پناہ مسائل سامنے آرہے ہیں خاص طور پر ٹریفک کے مسائل سے آئے روز قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور اِن مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو انے والے وقتوں میں ٹریفک حادثات کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوجائے گا ۔ چونکہ پولیس کے پاس بھی وسائل اور افرادی قوت کی کمی ہے اس کے باوجود پولیس اپنی بساط کے مطابق کوشاں ہے بلتستان کے چاروں اضلاع میں موسم سرما سے ہی ٹریفک آگاہی مہم جاری ہے مگر معاشرہ اس طرف توجہ دینے کے لئے تیار ہی نہیں ۔ تسلسل کے ساتھ ٹریفک حادثات میں نوجوانوں کی اموات کے باوجود والدین کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل اور گاڑی دینے باز نہیں آ رہے کالجوں اور سکولوں میں کم عمر بائیکرز دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ بازار میں بھی کم عمر بائیکرز تیز رفتاری کے ساتھ الٹی سیدھی حرکتیں کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں جو خود ان کے لئے بھی نقصان دہ اور دوسروں کے لئے بھی ۔ عموما گاڑی اور موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ڈرائیورز موبائل پر بات کر رہے ہوتے ہیں جو اکثر و پیشتر ٹریفک حادثات کا پیش خیمہ بن رہے ہیں جبکہ موٹر سائیکل پر تین سے چار منچلے سوار ہوکر سڑکوں پر اوور ٹیک بھی کرتے ہیں اس کی مثال حال ہی میں ریڈیو پاکستان چوک کے نزدیک نیورنگاہ میں موٹر سائیکل پر سوار تین نوجوان اوورٹیک کے چکر میں دس وہیلر ٹرک کے نیچے جا گھسے جس کے نتیجے میں گیارہ سالہ اور دس سالہ دو کم عمر بچے بری طرح کچل گئے یہ حادثہ سکردو کی تاریخ کا انتہائی دلسوز حادثہ سمجھا جاتا ہے اس حادثے کے بعد پے درپے کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں ۔ بحیثیت مسلمان امر بالمعروف نہی عن المنکر یعنی برے کاموں سے اجتناب اور اچھے کاموں کی طرف رغبت کی تلقین کا کام فقط علمائے دین کا نہیں بلکہ ہر باشعور انسان پر فرض ہے یہ صرف نماز، روزہ اورحج جیسی عباد ات ہی نہیں بلکہ قوانین کا احترام معاشرتی برائیوں سے روک تھام کے لئے کردار ادا کرنا بھی بہت بڑی عبادت ہے ۔ ایمرجنسی ایمبولنس یقینا کسی زندگی اور موت سے کشمش مریض کو ہسپتال کی طرف لے جارہی ہوتی ہے، ریسکیو کی ایمبولینس کسی خطرناک حادثے میں لوگوں کی مدد کے لئے جا رہی ہوتی ہے یا پھر فائر بریگیڈ کی گاڑی کسی جگہ لگی آگ بجھانے کے لئے جارہی ہوتی ہے ایسے میں راستہ نہ دینے سے کتنا بڑا نقصان ہوتا ہے باشعور معاشرے کے باشعور لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے ۔ ٹر یفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو روک کر اخلاقی طریقے سے سمجھانا صرف ٹریفک پولیس ہی کا نہیں بلکہ ہر باشعور شخص پر فرض ہے ۔ ڈڑائیونگ لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ قانون جرم ہے اسی طرح گاڑیوں پر کالے شیشے بھی اکثرجرائم پیشہ افراد ہی لگاتے وگرنہ ہمارے معاشرے میں کسی کو بھی الحمداللہ کوئی خطرہ نہیں اور ایسے ہیں لوگ پرائیویٹ گاڑیوں پر روٹر اور سرکاری کلر کے نمبر پلیٹس لگاتے ہیں تاکہ اس کی آڑ میں غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ان تمام غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی اور ان کے تدارک کے لئے کردار ادا کرنا بھی باشعور قوم کے فرد کی حیثیت ہر باشعور فرد کی ذمہ داری ہے ۔ سوشل میڈیا پرفلاسفر اور دانشور بن کر قانون پرعملداری کرانے والے اداروں کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت الزامات لگانا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ نفسیاتی مریض ہونے کی دلیل ہے ۔ باشعور قو میں اپنے معاشرے کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں اور دنیا میں خود کو مہذب ثابت کرتی ہیں ۔ بلتستان خاص طور پر سکردوشہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے تدارک کے لئے ہر طبقہ فکر کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ زمین پر اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے کل ہم سب سے پوچھا جائے گاسو اپنے حصے کا کام اج سے شروع کیجئے گا ۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے