غلام قادر بیگ
پاکستان کا شمار افغانستان اور وسطی ایشیاء کی مسلم اقوام سمیت نوروز منانے والے اُن ملکوں میں ہوتاہے جنہوں نے نوّے کی دہائی میں یونیسکو کی قرارداد پر د ستخط کر کے اس عزم کا ا ظہار کیا ہے کہ وہ انسانیت کی اس قدیم خوش رنگ تہذیبی روایت کو مسرتوں کے تہوار کے طور پر ہر سال سرکاری اور عوامی سطح پر مناتے رہیں گے ، کرونا اوردھشت گردی کی آفت اور ہوشربامہنگائی نے عوام کوپریشان کر کے گھروں میں قید کر رکھا ہے ایسے میں نوروز یا دیگرتہوار وں کی خوشیاں، شدید گرمی میں ہَوا کا تازہ جھونکا کی مثال ہیں ، یونیسکو سے عہدِ وفا نباہنے اوراس قومی عزم کی انجام دہی کے لئے نیشنل کونسل آف آرٹس نے گزشتہ دنوں بروشسکی ر یسرچ اکیڈمی کے اشتراک سے جمال و کمال سے آراستہ اپنے کشادہ آڈیٹوریم ( اسلام آباد) میں جشنِ نوروز کی بے مثال تہذیبی محفل سجائی ،گلگت بلتستان کے لوک فنکاروں نے اپنی مدھر آوازوں، موسیقی کے خوش رنگ سُروں اور روایتی لباس کی گونا گونی سے آڈیٹوریم میں بھرے ہوئے خواتین و حضرات کو سرشار کیا ، فنونِ لطیفہ کے اس قومی ادارے ( PNCA) کے جوان فنکاروں نے کمالِ ہنرکے ساتھ لوک رقص اور لوک گیت کا ایسا جادوئے حلال برپا کیا کہ اس سے یہ جشن ملکی ثقافتوں کی گونا گونی اور ملّی یک جہتی کے سانچے میں ڈھل گیا ،مسکراتے حسین چہروں کے ساتھ ان فنکاروں میں خواتین و حضرات دونوں شامل تھے انہوں نے معروف موسیقار جناب خرّم لطیفی کے مد ھر سروں پر مبنی مسحور کن گیت پیش کئے ، یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں پاکستان کوآسمان کو چھونے والی بلند چوٹیوں، دور دور تک پھیلے گلیشیئروں،ہرے بھرے کھلیانوں، گوادر جیسے بار آور سمندری کناروں، گھوم گھوم کر آنے والے حسین چار موسموں اور محنت کش ہنر مندوں کی افرادی قوّت سے نوازا ہے وہاں اس ملک کو فنونِ لطیفہ اورعلم و حکمت کی دولتِ لازوال ،تہذیب و ثقافت کے منفرد وِرثہ اور فہم و فراست کی پائیدار اقدارسے بھی فیضیاب فرمایا ہے، اس لطیف دولت کی ایک جھلک اس جشن میں دیکھنے کو ملی تو ناظرین نے ساز اور آواز کے ان دل نشین مظاہروںسے پھوٹنے والی خوشیوں سے اپنے دامن کو خوب بھر دیا، فنکاروں نے اس موقع پر پاکستانیت کی عکاسی کرنے والے ملی نغمے، دلوں کو مسرور کرنے والے لوک گیت اور نوروز سے متعلق موسمِ بہارکے رسیلے نغمے پیش کر کے حاضرین کو سرشار کیا ۔ PNCA کے ڈائریکٹر جنرل جناب ظاہر شاہ اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے مشیر غلام قادر بیگ نے اس موقع پر محفل کے اغراض و مقاصد بیان کئے جشن میں نوروز کے موقع پر مہمانوں کا خیر مقدم کرنے والی گلگت بلتستان کی رسم( دَغونگ تِھل ، تھومل) کا مظاہرہ کیا گیا،شاہین خان، ڈاکٹر پروین اشرف اور جمیلہ اظہار نے اس رسم کا حسین نمونہ پیش کیا ،نیک عالم نے دو تلواروں پر شمشیر بازی کا ایسابے مثال روایتی مظاہرہ کیا کہ ناظرین کو قدیم زمانے کی تیز تلواریں یاد آ گئیں جوحاکمیت، شجاعت اور عزّت و فضیلت کی نشان ہوا کرتی تھیں ،شکر ہے کہ انسان نے تاریخ کے ماتھے پر موجود تلوار کے زخموں پر فکر و قلم کی روشنی سے مرحم کرنے ،نفرتوں پر محبت اور امن کو ترجیح د ینے اور جذبات کے شعلے بھڑکانے کی بجائے عفو و درگزر، صبر و استقامت اور حکمت و دانائی اپنانے کا سلیقہ اور قرینہ سیکھ لیا، دنیا میںآج وہی قومیں عزّت و تکریم کے حقدار ہیں جہاں جذبات کی بجائے عقل و دانائی کو ترجیح دینے کی روایت پختہ اورغالب ہے، صرف جذبات پر یقین رکھنے والی قومیں انتشار کے طوفانوں میں باہمی دست و گریبان ہو کر اپنے نام و نشان کے ساتھ مٹ جاتی ہیں ، بلتستان کے عوامی فنکار منظور بلتستانی نے بلتی اور اردو میں ملّی نغمہ پیش کر کے حاضرین کو سرشارکیا ،معروف فنکار افتخار الدّین گلگتی نے شنا نغمہ اس قدر موثر انداز میںپیش کیا کہ شرکائے محفل جھو متے ہوئے واہ واہ کرتے رہے ، مبارک علی نے نگر کی نمائندگی کرتے ہوئے کانوں میں رَس گھولنے والی شنا غزل کا گلدستہ پیش کیا ،ناظرین نے افتخار، منظور اور مبارک کی فنّی سحر انگیزی پر تالیاں بجا بجا کر اُن کو داد دی ، گلگت بلتستان کے معروف مدح خوان عابد کریم اور گل باز نے دوسرے موسیقاروں کی سنگت پر صوفیانہ صداکاری کے روایتی فن کا شاندارمظاہرہ کیا، انہوں نے دیوانِ نصیری کی نظم ''یہی ہے مژدۂ نورو ز''کے عنوان سے بڑی عمدگی کے ساتھ نغمہ خوانی کی، برکت علی عابد کریم، گل باز، گُل بہار، ہمّت علی، میر امان ،خوش دِل اور یاسر گلگت ہونزا کی صوفیانہ محفلوں کو گرمانے اور دلوں کوسرشار کرنے والے خوش سُر ''میون۔Oriol'' کی مثال ہیں ،نوجوان صوفی سنگر'' فہیم'' عمر میںنو جوان مگرصداکاری کی دنیا میںتیزی سے بزرگی کی منزلوں کو چھوتا نظر آ رہا ہے ، وہ عشق و فنا کے عنوان سے نغمہ سرا ہوئے تو اہلِ محفل سراپا شادمان ہوئے ، پر سوز آواز کی ملکہ رضیہ شاہین اور سفینہ بیگ نے سا تھیوں کے ساتھ موسمِ بہار کے مشہور بروشسکی گیت '' شِنی بہار'' بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ایسے میںحاضرین نے انہیں داد کے ساتھ صدا کاری کی کامیابی کے لئے دعا بھی دی ،ابھرتی صوفی سنگر سِدرہ نے ساتھیوں کی سنگت پر فارسی اور اردو کلام پر مبنی دل نشین نغمہ پیش کر کے اہلِ محفل کو یہ تاثر دیا کہ وہ صوفیانہ صداکاری کی شیرین سُر پرندہ ( اوریول۔ میون)بننے کی جانب رواں دواں ہیں ۔جشن کے مہمانِ خصوصی فیڈرل سیکرٹری آرٹ اینڈ کلچر جناب ارشد محمود نے محفل کے کامیاب انعقاد کے لئے PNCA اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے مابین اشتراکِ عمل کو سراہا اور کہا کہ اس تعاون سے فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ روایتی لباس میں ملبوس اورموسیقی کے ہنر اور جوش و جذبہ سے لیس گلگت بلتستان کے فنکاروں نے بڑی عمدگی کے ساتھ جس صداکاری کے جوہر دکھائے وہ قابل رشک ہے، انھوں نے دونوں اداروں کے مابین اشتراکِ عمل کو آئندہ بھی جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا، محفل کے انعقاد کے لئے PNCA کے ڈائریکٹر جنرل جناب ظاہر شاہ کی سرپرستی ، ڈائریکٹر پرفارمنگ آرٹس خرّم لطیفی اور ڈپٹی ڈائریکٹر عطابلوچ کی رہنمائی کے علاوہ بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کی مشیران ڈاکٹر پروین اشرف اورجمیلہ اظہار، نیزقربان علی، فضل کریم ، عمران قادر، نصیر مسگری، رحمت کریم اور شعیب سمیت فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے متعدد سماجی کارکنوں نے تعاون کیا ۔ نوروز کے تاریخی پس منظر سے متعلق یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تصوّرِ نوروز اپنے اندر تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اورروحانی پہلو رکھتا ہے ، اس جشن کا مقصد تہذیبی ورثہ کی حفاظت اور ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ تھا ، اہلِ فکر و نظر کہتے ہیں کہ نوروز ظاہر میں ایک مثال ہے اور اس کا ممثول انسان کے باطن میں ہے، انسان کی بزرگی کا سبب مٹی سے بنا جسم نہیں عالمِ علوی سے آئی ہوئی روح اور عقل ہے اس لئے ابنِ آدم کا باطن( عالمِ شخصی ) ظاہر کی نسبت ہزار گونہ اہم اور برتر ہے، چنانچہ دانشمندوںکی نظر میں اس کی نگہداشت اور ترقی پہلی ترجیح ہونی چاہئے ، خزان اور سرما کی آمد سے نباتات پر مردگی چھا جاتی ہے ایسے میں بہار اپنے دامن میں زندگی کی نئی روح لے کر آتی ہے چنانچہ ظاہری نوروز کی طرز پر انسان کے لئے قلبی نوروز ناگزیر ضرورت ہے ، تا کہ من کی دنیا میں روشنی، آثار ِزندگی اور مسرت وشادمانی آئے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قلبی نوروز کی آمد کے لئے انسان کو علم و عبادت اور تقویٰ کا سہارا لینا پڑتا ہے ورنہ وہ بظاہر زندہ مگر قلبی طور پر روحانی خزان کے زیرِ اثر مردہ رہتا ہے ، یہ ظاہری نوروز ہمیں باطنی بہار اور قلبی نوروز کو پانے کی طرف رغبت دلاتا ہے، سوچنے کا مقام ہے کہ جس سورج نے اس جہان کو اپنی روشنی اور تمازت سے جگمگا کرنباتی، حیوانی اور انسانی زند گی کو رواں دواں رکھا ہے، اگراسی طرز پر علم و معرفت کا آفتاب(سورج) نوروز کی مثال پردل میں طلوع ہو کر باطنی بہارآ جائے تو زندگی کس قدر حسین، مطمئن اور اللہ کی نعمتوںکی برکات کس قدر عجیب و غریب ہوںگی ، یقیناً خوشیوں کا طوفان ہو گا ، ایسے میں نوروز کا فلسفہ اعلیٰ و ارفع اور قانونِ قدرت وفطرت سے ہم آہنگ نظر آتا ہے ۔