سعودی عرب اوراسرائیل


متحدہ عرب امارات،بحرین اورسوڈان کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعد اب مسلم دنیا یہ دیکھنے کیلئے بے تاب ہے کہ سعودی عرب کب اس راہ پرگامزن ہوتاہے۔ پاکستان میں بھی بعض حلقوں کی جانب سے اسرائیل کیلئے نرم گوشے کااظہارکیاجاتا ہے۔ایک بارپھرمخصوص لبرلزمغرب نوازذہنیت کے حامل بعض تجزیہ کارکام پرلگ گئے ہیں۔بات اسرائیل کے وجودکوتسلیم کرنے سے انکارکی صورت میں ملنے والے فوائد سے متعلق استفسارسے شروع ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات،بحرین اورسوڈان نے اسرائیل کوتسلیم کیاہے توڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ کہیں گاڑی چھوٹ نہ جائے۔سوال یہ ہے کہ اگرپاکستان نے اسرائیل کے وجودکو تسلیم نہ کرکے کچھ نہیں پایاتوجنہوں نے اس کے وجودکوتسلیم کررکھاہے اوراس سے دوستی و مفاہمت کیلئے بے تاب ہیں،انہوں نے کیاپالیاہے۔گزشتہ دنوں خبرآئی کہ سعودی عرب اوراسرائیل نے دوستی اورمفاہمت کی راہ پرگامزن ہوناشروع کردیاہے۔میں نے اپنے کالم میں اسرائیلی وزیر اعظم کے سعودی عرب کے خفیہ دورے کی اطلاع دی تودوستوں نے افواہ پھیلانے سے منع کیالیکن جب اسرائیل اورسعودی حکام نے تصدیق کردی تویہ ناصح پلٹ کرنہیں لوٹے۔یہ معاملہ اب تک بہت سے پردوں میں لپٹاہوا ہے۔ حقیقت جوکچھ بھی ہے دھیرے دھیرے بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔ برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کے مطابق اسرائیلی وزراکوآخری لمحات میں بتایاگیاکہ 22نومبرکااجلاس ملتوی کردیا گیاہے۔یہ نہیں بتایا گیاکہ وزیراعظم ایئرپورٹ جارہے ہیں،جہاں ان کی ملاقات اسرائیلی خفیہ ادارے موسادکے سربراہ یوسی کوہن سے ہوئی جوان ممالک کے معاملے میں وزیراعظم کے رابطہ کارکی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں،جن سے اسرائیل کے باضابطہ تعلقات نہیں۔رات ڈھلی تودونوں ایک کروڑپتی دوست کے طیارے میں بحیرہ احمرسے ہوتے ہوئے سعودی عرب روانہ ہوئے۔وہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد دونوں واپس آگئے۔تیزنظررکھنے والے صحافیوں نے پروازوں کا تعاقب کرنے والی ویب سائٹ پرغیر معمولی پروازکانوٹس لیااورجلد ہی دواوردوکوجمع کیا۔امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیوبھی سعودی عرب میں تھے جہاں شمالی حصے میں تعمیرکی جانے والی نئی ہائی ٹیک سٹینومیں ان کی ملاقات طاقتورسعودی ولی عہدمحمد بن سلمان سے ہوئی۔ایک اورغیرمعمولی بات یہ ہوئی کہ تینوں شخصیات کی ملاقات کی خبرکی تصدیق کیلئے نیتن یاہوکے دفترکی جانے والی فون کالزکا جواب تردیدمیں نہیں تھا۔اسرائیل کے ملٹری سینسرزکی طرف سے کسی ردِعمل کا نہ ہونابھی حیرت انگیزتھاجوسعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بات پربالعموم بپھرتے رہے ہیں۔نیتن یاہوکے ایک معاون نے ٹوئیٹ میں کہاکہ اپنے وزیر دفاع اور حریف بینی گینزکے مقابلے میں جوصرف سیاست کررہے ہیں نیتن یاہوامن کیلئے کوشاں ہیں امریکی اخباروال سٹریٹ جرنل کے مطابق سعودی حکام نے بھی اس امرکی تصدیق کردی ہے کہ نیتن یاہواورمحمدبن سلمان کی ملاقات ہوئی ہے۔ معلوم ہواہے کہ دونوں نے سفارتی تعلقات استوارکرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ مگرخیر،متحدہ عرب امارات اور بحرین کی مانند جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوارکیے ہیں سعودی عرب فی الحال یروشلم میں سفارت خانہ کھولنے کے موڈمیں نہیں۔سعودی فرماں رواسلمان بن عبدالعزیزنے عرب پیس انشئیٹوکی بنا پر 1967کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھ لگنے والے فلسطینی علاقوں میں خود مختارفلسطینی ریاست قائم کرنے کے حامی ہیں۔جب تک سلمان بن عبدالعزیزسعودی عرب کے فرماں رواں ہیں تب تک اسرائیل سے معمول کے سفارتی تعلقات قائم ہونے کاامکان نہیں۔اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے معاشرہ ہی نہیں،سعودی شاہی خاندان منقسم اورتنائوپیداہوگیا ہے۔اسی لئے سعودی وزیر خارجہ نے نیتن یاہواور محمدبن سلمان کی ملاقات کی تردیدکی ہے۔فریقین نے اب تک باضابطہ طورپراس ملاقات کی تصدیق نہیں کی تاہم دونوں کواس بات کی خوشی ہے کہ دو اہم پیغام چل گئے ہیں۔ پہلاپیغام یہ کہ ایران کوانتباہ ہے کہ اگراس نے اپناجوہری پروگرام آگے بڑھایا توعلاقائی اتحاداس سے نمٹنے کیلئے تیارہے۔ نومبر کے وسط میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے کہاتھاکہ ایران میں یورینیم کی نچلی سطح پرافزودہ سلاخوں کاذخیرہ 2015میں طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے کی طے کردہ حد سے 12گنا ہے۔ امریکا 2018میں اس معاہدے سے نکل گیاتھا۔اسرائیل نے ماضی میں کئی باردھمکی دی ہے کہ اگراسے یہ یقین ہوجائے کہ ایران جوہری بم بنانے کی طرف گامزن ہے توایران کی جوہری تنصیبات کوتباہ کردے گا ۔دوسراپیغام امریکااورنومنتخب صدر جوبائیڈن کی سربراہی میں بننے والی انتظامیہ کیلئے تھا۔جب ٹرمپ نے کم وبیش چار سال قبل امریکی صدرکامنصب سنبھالاتھاتب مشرق وسطی سے متعلق ان کی پالیسی کابنیادی مقصدپیش رواوباما کے اقدامات کوختم کرناتھا۔اوبامانے ایران اورکئی دوسری طاقتوں سے جوہری معاہدہ کیاتھا۔ٹرمپ نے معاہدے سے نکل کرایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اورفلسطین کے درمیان بات چیت کیلئے ثالث یاسہولت کارکا کردار ترک کرتے ہوئے1967 جنگ میں ان تمام فلسطینی علاقوں کواسرائیل کاحصہ ماننے کااعلان کیا،جن پراس نے قبضہ کیاتھا۔ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے سعودی عرب کو بھی خوش کیااورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورسعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کونظراندازبھی کیا۔اب یہ سب کچھ جوبائیڈن کے دورمیں بدل جائے گا کیونکہ انہوں نے سعودی عرب کوراندہ درگاہ قراردیتے ہوئے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈکی بنیاد پراسے ہتھیاروں کی فروخت روکنے کی دھمکی بھی دی ہے۔جوبائیڈن نے ایران سے سفارتکاری دوبارہ شروع کرنے اورجوہری معاہدے پربات چیت کابھی وعدہ کیاہے لیکن اسرائیل اور سعودی عرب نے مل کرجوبائیڈن کوجتا دیاہے کہ وہ سعودی عرب اوراسرائیل چاہتے ہیں کہ مشرق وسطی کی پالیسی میں کچھ زیادہ تبدیلی نہ کی جائے۔ جس ملاقات کی سرکاری سطح پراب تک تصدیق نہیں کی گئی،اس سے کم ازکم اتناتوحاصل کیاہی جا سکاہے۔تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اسرائیل کوتسلیم کرنے کی صورت میں سعودی عرب میں غیرمعمولی انتشارپیداہوسکتاہے۔پاکستان فلسطین کے ساتھ انتہائی جذباتی تعلق کی وجہ سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں۔بنگلادیش اورافغانستان بھی تسلیم کرنے کو تیارنہیں،ایسے میں اگر سعودی عرب نے اسرائیل کوتسلیم کیاتووہ مسلم امہ کی مرکزی قیادت سے محروم ہوجائے گا۔ امریکااور یورپ مل کرسعودی عرب اوراس کے ہم خیال علاقائی ممالک کواپنی طرف گھسیٹ رہے ہیں۔گویامسلم دنیاکوتقسیم کرکے مرکزی قیادت کی راہ مسدود کی جارہی ہے۔