نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز


قیادت عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ لفظ اپنی اصلی حالت میں عربی سے اردو میں منتقل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے ۔ لفظ قیادت کے لغوی معانی  راہنمائی ۔ رہبری کرنے کا عمل اور سربراہی کے ہیں ۔ اصطلاحی معنوں میں متعدد ماہرین سیاسیات نے قیادت Leadership کی مختلف زاویوں سے اپنے اپنے الفاظ میں توضیح تشریح اور تعریف بیان کی ہے ۔ میری نظر میں قیادت کی تعریف جو ویبسٹر ڈکشنری میں درج ہے وہ زیادہ معقول عام فہم اور جامع ہے ۔ جس کی روسے قیادت یا Leadership سے مراد راہنمائی کرنے کی اہلیت ہے ۔ Marine  Crops کے مطابق لیڈرشپ سے مراد  ذہانت انسانی تفہیم اور اعلی اخلاقی کردار کا مرکب ہے جو ایک فرد واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہے ۔اگرچہ یہ ایک ضخیم موضوع ہے لیکن یہاں اختصارا لیڈر شپ یا قیادت کیلئے راہنما اصول اور اوصاف کو بیان کرنا مقصود ہے ۔ علامہ محمد اقبال نے قائد کیلئے میرکارواں (قافلے کا ذمہ دار ،امیر یا سردار)کی اصطلاح وضع کرتے ہوئے قائد یا لیڈر کیلئے چار بنیادی اوصاف یا شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ 

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز 

یہی ہے رخت سفر میرکارواں کیلئے 

شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر مشرق نے میرکارواں کیلئے جن چار لوازمات شرائط اور اوصاف بیان فرمائے ہیں ان میں نگہ بلند سے مراد خیالات کی پاکیزگی، ماضی سے سبق حاصل کرکے مستقبل کیلئے موثر وقابل عمل منصوبہ بندی و پیش بندی ، کل کے چیلنجز ،حالات مشکلات مسائل و معاملات سمیٹنا ، دوراندیشی تعمیری انقلابی مثبت اور جاندار سوچ وعمل، فکر وعمل میں یکسانیت ہے ۔ اقبال قیادت کے اہل شخص کیلئے دوسرا وصف سخن  بیان کرتا ہے ۔سخن سے مراد انداز بیان میں جاذبیت،  تاثیر ، موضوع پر گرفت ، دل کو موہ لینے اور متاثر کرنیوالے نرم وکومل اور ذومعنی وبامعنی الفاظ کا استعمال، گفتار میں نرمی جامعیت اور تسلسل وغیرہ ہے ۔اقبال کی نظر میں قائد کیلئے تیسری شرط دلنوازی ہے ۔ دلنوازی کا مطلب اپنی کارواں میں شامل ہر فرد کے جذبات واحساسات کا خیال رکھنا، قول وفعل میں تضاد نہ ہو، ہر فرد کے دکھ درد تکلیف غم خوشی کو اپنا سمجھے ، ہرایک کا دل سے احترام اور ہرایک کی عزت نفس کا خیال رکھے ۔چوتھی شرط برائے قائد بقول اقبال جاں پرسوز ہے ۔ اس مرکب کا مطلب قائد رہبر میرکارواں یا امیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ منزل کی جانب سفر کی راہ میں پیش آنیوالی تکالیف مسائل مشکلات ومصائب کا جرات استقلال عزم ہمت اور بہادری سے نہ صرف مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ مشکلات ومصائب کو آسانیوں، چیلنجز کو مواقع میں بدلنے کے فن پر دسترس رکھتاہو ۔ ناامیدی کی گھٹاٹوپ اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن کرسکے، حالات سے سمجھوتہ کے بجائے مقابلے کی جرات کر سکتا ہو ۔ سختیوں کو جھیلنے اور نامساعد حالات میں جینے کا ہنر رکھتا ہو۔ عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ آج ہردوسرا شخص خود کو قائد یا لیڈر کہلوانے کے خبط میں مبتلا ہے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ درج بالا، اوصاف کے حامل شخص کے علاوہ کوئی بھی شخص اندھوں میں کانا راجا تو یوسکتا ہے لیکن لیڈر ہرگزنہیں ۔ درج بالا  اوصاف اوران کے علاوہ جملہ اوصاف حمیدہ جو ایک انسان میں بدرجہ اتم نہ صرف موجود ہوں بلکہ اس کی ذات صفات انسانی کا منبع وسرچشمہ ہو ۔ جس کی ذات سے زندگی کے ہرشعبے کیلئے راہنمائی اور سبق حاصل ہو ۔ جو اپنی ذات میں انسان کامل ہو اور تاابد اس کا ثانی وہمسر کوئی نہ ہو جس کی زندگی کا ایک ایک پل رہتی دنیا کیلئے باعث خیروبرکت اور کامیابی وکامرانی کا ضامن ہو وہ صرف اور صرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔