عورت مارچ اور پاکستان

ڈاکٹر اقبال 

گزشتہ سال 8 مارچ کو اسلام آباد میں ڈی چوک کی طرف جا رہا تھا دیکھا تو روڈ بلاک تھا اور پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی  نزدیک گیا تو پتہ چلا کہ عورت مارچ ہے  200 کے قریب خواتین تھیں جو نعرے لگا رہی تھیں سہمی ہوئی اور خوفزدہ لگ رہی تھیں آور ارد گرد لوگ اور پولیس والے ایسے دیکھ رھے تھے جیسے کوئی خلائی مخلوق اتری ھو۔۔۔۔ایسا ھی ایک مارچ بارسلونا میں بھی دیکھنے کا موقع ملا۔۔ فرق یہ تھا کہ وہ بے خوف ،پر اعتماد، بغیر کسی پولیس حصار کے اور پھر ھمارے ھاں جو حقوق خواتین مانگ رھی ھیں جیسے تعلیم ،جائیداد میں حصہ وغیرہ وہ انکو پہلے سے ہی حاصل ہیں وہاں پر عورت کو عورت کی نگاہ سے نھیں دیکھا جاتا بلکہ ایک انسان کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی عورت اپنی مرضی سے عورت پیدا نھیں ھوتی اور جب اس دنیا میں آتی ہے تو اپنے ساتھ وہ تمام حقوق لے کر آتی ہے جو ایک انسان کو حاصل ہیں آج مسلمان دنیا میں جس جہالت اور پسماندگی کا شکار ہیں اسکی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ عورت کو بحیثیت انسان برابر حقوق نہیں دیتے ماسوائے چند اسلامی ممالک جیسے ملیشیا ،ترکی اور اب بنگلہ دیش جس نے آئین کو تبدیل کر کے سیکولر بنایا اور خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور دوسری طرف تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک بھی خواتین کے استحصال کی وجہ سے جاھل آور پسماندہ ہی کہلاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کا المیہ یہ ہے کہ ھنزہ جہاں خواتین کو تعلیم دی جاتی ھے لیکن جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا اور گلگت میں جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے مگر اکثر علاقوں  میں تعلیم سے محروم کر دیا جاتا ہے جبکہ  دیامر کے زیادہ تر علاقوں میں تعلیم، جائیداد حتیٰ کہ ووٹ کے حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے،غذر میں تعلیم دی جاتی ہے مگر انکا معاشرہ تعلیم یافتہ خواتین کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں جسکی وجہ سے وہاں خود کشیوں کا رجحان ہے اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ صرف گلگت شہر اور مضافات میں سنہ ء 2000 سے اب تک 200 خواتین غیرت کے نام پر قتل ھو چکی ہیں اور کسی بھی قاتل کو آج تک کوئی سزا نہیں ھوئی کیونکہ قاتل اکثر شوھر یا بھائی ھوتا ہے جسے والدین معاف کر دیتے ہیں اور وہ مولوی حضرات جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں مجال ہے کہ اس موضوع پر لب کشائی فرمائیں۔ ھم یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ مذھب نے خواتین کو تمام حقوق دیئے ہیں اور دوسری سانس میں ہی مذھب کے نام پر خواتین پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں درحقیقت اس کا مذھب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مشرقی معاشرے نے عورت کے اوپر مرد کو جو بالادستی عطا کی ہے وہ اسے کھونا نہیں چاہتا اور اسی لیے کبھی مذھب تو کبھی ثقافت کا نام لے کر خواتین کو حقوق سے محروم اور غلام رکھنا چاھتا ہے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں صرف ان اقوام نے ترقی کی ہے جنہوں نے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر ھم نے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونا ہے تو خواتین کو تعلیم ، جائیداد میں حصہ دینے کے ساتھ  معاشرے میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو بحیثیت ایک انسان قبول کرے حکومت کو چاہیے کہ دیامر اور کھرمنگ جیسے پسماندہ علاقوں میں خواتین کی تعلیم کیلئے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے تاکہ وہ بھی دوسرے علاقوں کے برابر ترقی کر سکیں جبکہ جائیداد میں حصہ دینے کا قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔۔۔ بقول علامہ اقبال۔۔۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں