چین کے 2022 کے ترقیاتی اہداف

شاہد افراز خان

چین کے سیاسی کیلنڈر کی اہم ترین سرگرمی قومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے دو اجلاس اس وقت بیجنگ میں جاری ہیں ۔ چینی صدر شی جن پنگ اور دیگر پارٹی و ریاستی رہنمائوں سمیت این پی سی کے تقریبا تین ہزارنمائندوں نے ہفتے کے روز شروع ہونے والی تیرھویں قومی عوامی کانگریس کے پانچویں اجلاس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔اس موقع پر چینی وزیر اعظم لی کھہ چھیانگ نے حکومتی ورک رپورٹ پیش کرتے ہوئے جہاں حکومتی کامیابیوں کا ذکر کیا وہاں مستقبل کے اہم ترقیاتی اہداف بھی واضح کیے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال چین کی ترقی کو درپیش خطرات اور چیلنجز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اسے رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے ، تاہم چین کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کا بنیادی رجحان تبدیل نہیں ہو گا اور چین معاشی گراوٹ کے دبائو کو برداشت کر پائے گا۔انہوں نے ورک رپورٹ میں چین کی ترقی کے حوالے سے اہم متوقع اہداف کا بھی ذکر کیا، جن کے مطابق ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو تقریبا 5.5 فیصد رہے گی۔چینی وزیراعظم نے کہا کہ اقتصادی ترقیاتی اہداف کے تعین میں بنیادی طور پر روزگار کے استحکام، لوگوں کے معاش کے تحفظ اور خطرات سے بچائو کے تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے ، مذکورہ اہداف گزشتہ دو سالوں میں اوسط اقتصادی ترقیاتی شرح اور  14ویں پانچ سالہ منصوبے  کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔حکومتی ورک رپورٹ کے مطابق رواں سال چین کے اہم ترقیاتی اہداف میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد شہری ملازمتیں پیدا کرنا، شہری بے روزگاری کی شرح کو 5.5 فیصد کے اندر برقرار رکھنا، اور سی پی آئی کی شرح کو تقریبا تین فیصد رکھنا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چین لوگوں کی فکری اور ثقافتی زندگیوں کو تقویت دینے کے لیے بیجنگ 2022 کے سرمائی اولمپکس کی میراث سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ قومی سلامتی کے نظام اور صلاحیت کی تعمیر کو آگے بڑھائے گا، سائبر سیکیورٹی، ڈیٹا اور ذاتی معلومات کے تحفظ کو مضبوط بنائے گا۔ ملک میں تعلیمی نظام میں شفافیت اور معیار میں بہتری کا تسلسل جاری رہے گا۔ لازمی تعلیم کے اعلی معیار، متوازن ترقی اور شہری اور دیہی انضمام کو فروغ دیا جائے گا اور لازمی تعلیم میں طلبا پر بوجھ کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین متعدد چینلز کے ذریعے عوامی مفاد میں پری اسکول کی تعلیم کے وسائل میں اضافہ کرے گا اور اعلی تعلیم کو اپنی بھرپور صلاحیت کے مطابق ترقی دے گا۔اسکولوں اور جامعات میں زیر تعلیم 290 ملین طلبا لاکھوں خاندانوں اور قوم کا مستقبل ہیں، جنہیں بہترین تعلیم فراہم کی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق چین ماحول کی بہتری اور سبز اور کم کاربن ترقی کا فروغ جاری رکھے گا۔ کاربن پیک اور کاربن نیو ٹرل کے حصول کے لیے منظم اقدامات کرے گا اور تخفیف کاربن کے لیے ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ورک رپورٹ میں 2022 میں حکومتی امور کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غیر ملکی سرمائے کا فعال طور پر استعمال نہایت ضروری ہے ، چین کی بڑی منڈی کے کھلے پن سے یقینا دنیا بھر کی کمپنیوں کو ترقی کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے دائرہ کار کو وسعت دینا اور درمیانے سے اعلی درجے کی مینوفیکچرنگ، تحقیق و ترقی، جدید خدمات اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حمایت ضروری ہے۔اس ضمن میں وسطی مغربی اور شمال مشرقی علاقے غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے خدمات کو بہتر بنائیں، پائلٹ فری ٹریڈ زون اور ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ کی تعمیر کو مضبوطی سے فروغ دیں اور ترقیاتی زونز کی اصلاحات اور اختراع کو فروغ دیں۔ ورک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ چین مشترکہ اور ہمہ جہت مفاد کے حصول کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ باہمی سود مند تعاون کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت اعلی معیار کے تعاون کو فروغ دے گا، مشاورت اور تعاون کے ذریعے مشترکہ ترقی کے حصول کے اصول پر قائم رہے گا۔ورک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ خواتین اور بچوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے خواتین اور بچوں کے استحصال میں ملوث مجرموں پر کاری ضرب لگائی جائے گی ۔رپورٹ کے مطابق لوگوں کی پرامن زندگی اور سماجی استحکام کو فروغ دینا ضروری ہے۔بنیادی سطح پر سماجی گورننس کے نظام اور انتظامی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا ۔ سماجی سرگرمیوں ، سماجی تنظیموں ، انسانی ہمدردی کی امداد، رضاکاروں کی خدمت اور عوامی فلاح و بہبود سمیت دیگر شعبوں کی صحت مند ترقی میں معاونت فراہم کی جائے گی ۔رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مختلف سطحوں کی حکومتوں کو عوام سے وابستہ امور کو ہمیشہ اہمیت دینی چاہیئے اور لوگوں کے معاش سے متعلق خدشات کا بر وقت جواب دینا چاہیئے ۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ عوام کے جائز حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچانے والے سنگین غیر ذمہ دارانہ افعال کی سختی سے مخالفت کی جائے گی ۔ چین 2022 میں خوراک اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ ملک میں قابل کاشت زرعی رقبے کی ریڈ لائن تقریبا 120 ملین ہیکٹر کو برقرار رکھا جائے گا۔اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور عام معمولات زندگی رواں رکھنے سمیت پیداواری سرگرمیوں کی خاطر بجلی کی مناسب فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔چینی حکومت کی ورک رپورٹ میں آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے تعلقات کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ تائیوان کی علیحدگی کی سرگرمیوں اور اس حوالے سے بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نئے عہد میں امور تائیوان کے حوالے سے سی پی سی کی مجموعی حکمت عملی پر عمل درآمد کیا جائے گا، ایک چین کے اصول اور  1992 کے اتفاقِ رائے پر عمل کیا جائے گا اور آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے تعلقات کی پرامن ترقی اور مادر وطن کی وحدت کو فروغ دیا جائے گا۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے ہم وطنوں کو مل کر قومی نشا الثانیہ کا شاندار مقصد تخلیق کرنا چاہیے۔حکومتی ورک رپورٹ میں ایک مرتبہ پھر واضح کیا گیا ہے کہ چین عالمی امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے مزید نئی شراکتیں قائم کرنے کی خاطر بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔

چین کی اعلی مقننہ قومی عوامی کانگریس اور سیاسی مشاورتی ادارے چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے رواں ہفتے سے شروع ہونے والے سالانہ اجلاسوں کو چینی قوم کی عظیم نشاتہ الثانیہ کی جانب نئے سفر کے ایک اہم سال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔13ویں قومی عوامی کانگریس کا پانچواں اجلاس ہفتہ کو شروع ہو رہا ہے جبکہ چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس 13ویں قومی کمیٹی کا پانچواں اجلاس جمعہ سے شروع ہو چکا ہے۔عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی تاریخ میں ان دو اجلاسوں کے انعقاد کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ان اجلاسوں میں گزشتہ ایک برس کے دوران حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کمیو نسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت میں حاصل کردہ کامیابیوں کے جائزے سمیت مستقبل کے اہم اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ عالمی و علاقائی صورتحال کے تناظر میں ملکی ترقی کے حوالے سے نمایاں ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے۔دونوں اجلاسوں کے دوران چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم نظام کے تحت معاشی ، سیاسی ، ثقافتی ، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کا عزم بھی دوہرایا جاتا ہے۔اگرچہ سالانہ اجلاسوں کے دوران فیصلے تو چین سے متعلق کیے جاتے ہیں ، قانون سازی چین کے لیے کی جاتی ہے ، پالیسیاں چینی عوام کی فلاح کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا چین کے سالانہ اجلاسوں میں گہری دلچسپی لیتی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ان دو اجلاسوں کے ایجنڈے کی بات کی جائے تو کچھ ایسے موضوعات شامل ہیں جن پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی۔ان میں سرفہرست موضوع اقتصادی اہداف ہیں۔ہر سال دو اجلاسوں میں، دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے سالانہ اقتصادی ترقیاتی اہداف عالمی سطح پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے موضوعات میں شامل ہیں۔رواں سال 2022 کے ترقیاتی اہداف ہفتہ کو حکومتی ورک رپورٹ میں سامنے آئیں گے، جس میں عام طور پر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی نمو، افراط زر، روزگار، کھپت اور بیرونی تجارت کے اہداف شامل ہوتے ہیں۔گزشتہ سال، چین کی معیشت نے دنیا میں وبا کی مختلف لہروں کے باعث ایک پیچیدہ بیرونی ماحول کے باوجود ایک مضبوط بحالی دیکھی اور اس کی جی ڈی پی 8.1 فیصد اضافے سے بڑھ کر 114.37 ٹریلین یوآن وتقریبا اٹھارہ ٹریلین امریکی ڈالرتک پہنچ چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہی معاشی کامیابیوں کے ثمرات کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومتی ورک رپورٹ میں رواں سال کے لیے اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے، اعلی سطح کے کھلے پن کو آگے بڑھانے، دیہی زندگی کو فروغ دینے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے کلیدی امور کا خاکہ پیش کرنے کی توقع ہے۔ملک کی مالیاتی اور مانیٹری پالیسیاں بھی ایجنڈے میں نمایاں ہوں گی، کیونکہ بڑی عالمی تنظیموں نے اس سال کی عالمی نمو کے لیے پیش گوئیوں کو گھٹا دیا ہے اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا ہے۔اسی طرح ملک کے اعلی ترین طاقتور ادارے کے طور پر، این پی سی مختلف افعال اور اختیارات کا استعمال کرتی ہے جس میں قوانین کا نفاذ اور ان میں ترامیم وغیرہ بھی شامل ہیں۔اس اجلاس کے دوران قانون ساز مقامی عوامی کانگریسوں اور مقامی عوامی حکومتوں کے نامیاتی قانون میں ترمیم کے مسودے کا جائزہ لیں گے۔1979 میں اپنایا گیا یہ قانون اپنی چھٹی ترمیم سے گزرے گا، جس میں عوام پر مبنی ترقی کے فلسفے اور ہمہ گیر عوامی جمہوری عمل کو اجاگر کیا گیا ہے۔اسی طرح یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ قانون ساز اور سیاسی مشیر ، بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ شخصیات سائنس ٹیک کے شعبے میں چین کی طاقت اور اس کی اختراعی صلاحیت کو تقویت دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے، جو ملک کی اعلی معیار کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق، 2021 میں ملک میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مجموعی سرمایہ کاری 2.79 ٹریلین یوآن تک پہنچ چکی ہے جس میں سالانہ بنیادوں پر اضافے کا تناسب 14.2 فیصد ہے۔دریں اثنا، چین کی مجموعی اختراعی صلاحیت عالمی درجہ بندی میں 12ویں نمبر پر آ چکی ہے، جس نے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ (2021-2025) کے لیے بہترین آغاز فراہم کیا ہے۔مذکورہ دو سالانہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ چین نے2030 سے قبل کاربن پیک اور اور 2060 سے قبل کاربن نیو ٹرل کے اہداف طے کیے ہیں لہذا اس اہم سیاسی سرگرمی کے دوران ایسے اقدامات کا تعین متوقع ہے جن کی بدولت ترقی اور تخفیف کاربن کے درمیان ربط سے مناسب طور پر نمٹا جائے گا۔تخفیف کاربن کو یقینی بناتے ہوئے توانائی کا تحفظ، صنعتی اور سپلائی چین کی حفاظت اور فوڈ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی معمول کی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔چین ویسے بھی کوشاں ہے کہ ہائی ٹیک سیکٹر کو وسعت دینے اور صنعت کی ڈیجیٹل اور سمارٹ تبدیلی کو فروغ دیتے ہوئے اعلی معیار کی ترقی کی جانب بڑھا جائے۔دو اجلاسوں کے دوران یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ چین رواں سال فیسوں اور ٹیکسوں میں کمی کے لیے مزید درست اور پائیدار اقدامات کرے گا تاکہ مارکیٹ اداروں کی مدد کی جا سکے اور کاروباری ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ چین نے اپنے 13ویں پانچ سالہ منصوبے (2016-2020) کے دوران 7.6 ٹریلین یوآن ٹیکس اور فیس میں کٹوتیوں کی بنیاد پر، 2021 میں ٹیکسوں اور فیسوں میں مزید 01 ٹریلین یوآن کی کمی کی تھی، جس سے مارکیٹ پر کووڈ۔19کے منفی اثرات کو کم کرنے میں نمایاں مدد ملی۔چین رواں سال بھی 11 ترجیحی ٹیکس اور فیس پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے گا، جن میں سائنس اور ٹیکنالوجی، روزگار اور کاروبار کے آغاز، طبی دیکھ بھال اور تعلیم وغیرہ شامل ہیں جبکہ مالیات، مالیاتی اور صنعتی پالیسیوں کے ساتھ ٹیکس اور فیس میں کمی کو مربوط کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ دوسری جانب چین کے حالیہ دو اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہے ہیں جب دنیا کووڈ انیس سمیت روس۔یوکرین تنازعہ اور دیگر مسائل کے سبب ایک ہنگامہ خیز تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ایسے میں چین کی اس سب سے بڑی سیاسی سرگرمی کی عالمی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور دنیا کی توقعات بھی چین سے وابستہ ہیں۔