بریگیڈئر مسعود احمد
کسی ملک کی سلامتی پالیسی کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اس کے شہریوں کا تحفظ اور دفاع کس طرح کیا جاتا ہے۔ جنگیں کسی ملک کی خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لئے ہوتی ہیں۔ قومی سلامتی میں ملک کی معیشت، خوراک، صحت، پانی ، سائبر ، ماحولیات، دفاع، سیاست اور توانائی کے شعبے آتے ہیں۔ قومی سلامتی قومی مفادات کو مدِ نظر رکھ کے بنائی جاتی ہے۔اپنی کتاب The New Arathshastraمیں نورمن پیڈلفورڈ اور جارج لنکن لکھتے ہیں''قومی سلامتی کا مظہر معاشرے کی بنیادی اقدار ہوتی ہیں جس میں اس کی فلاح،اس کے سیاسی نظریات کا تحفظ، معمول زندگی ،قومی اطوار، علاقائی سالمیت اور اسے قائم رکھنے والے محرکات شامل ہیں''۔ اسی کتاب میں ملکی حفاظت کے لئے چینی قائدین کی ترجیحات کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے۔چیئر میں ماؤ کی اولین ترجیح چین کا تحفظ اور مفادات تھے۔ جبکہ ڈنگ زیاؤ پنگ نے اپنا رخ چین کی معاشی ترقی کی طرف رکھا۔ جیانگ زمن کی ترججیح ٹیکنالوجی کا فروغ اور ماحولیاتی تحفظ تھا۔ ہو جنتاؤ کا تصور پر امن ترقی تھا۔ قومی سلامتی کا بھارتی تصورایک فلسفی چانکیہ کے فلسفے کے گرد گھومتا ہے جسے بھارتی میکیاولی بھی کہا جاتا ہے جو چندر گپت کو سیاست سکھایا کرتا تھا۔ اس نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ارتھ شاسترا تھا جس کا موضوع سیاست اور قومی سلامتی کے فلسفے تھے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ ریاست کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو اس کے مفاد میں ہو، اور اس میں کسی قانون، اصول یا اخلاقیات کوپیشِ نظر نہیں رکھنا چاہئے۔اس نے کہا کہ ریاست کو اپنے علاقائی حدود کی توسیع کا سوچتے رہنا چاہئے اسی لئے اسے اپنے ہمسایہ ممالک کو اپنا دشمن سمجھنا چاہئے اور ان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ بھارت چانکیہ کے فلسفوں پر اتنا عمل کرتا ہے کہ اس نے اپنے قومی دفاعی جریدے کا نام ہی The Chanakya Defence Journal رکھا ہے۔بھارت اپنے رقبے، جغرافیائی مقام، صنعتی ترقی اور فوجی قوت کی بنا پر خود کو جنوبی ایشیاء کی سپر پاور سمجھتا ہے۔ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اپنے تحفظ، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی ذمہ دار ہے ۔بھارت ہندوستان پر مسلمانوں کے طویل دورِ حکومت،پاکستان کی کشمیر کی حمایت اور بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت کوقبول نہیں کرتا۔ پاکستان کو قیام کے فوراََ بعد ہی سے بھارت کی جانب سے خطرہ لاحق رہا اورآغاز ہی سے اپنے تحفظ کی کوششٰیں شروع کر دیں۔اپنے تحفظ کو مضبوط تر بنانے اور اسے دنیا کی نظر میں ثابت کرنے کے لئے پاکستان نے مئی1998میں جوہری ہتھیاروں کے تجرنے کئے۔ آج کل پاکستان کو جو خطرہ لاحق ہے وہ بھارتی جوہری ہتھیاروں، اس کے روایتی جنگ کے طریقوں اور اس کے میزائل سسٹم سے ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کے پاس کوئی تحریری قومی سلامتی پالیسی نہیں تھی جس کے تحت وہ اپنی تحفظ کے مسائل پر عملدرآمد کر سکے۔ہر ملک اپنی قومی سلامتی کو ایک تحریری قومی سلامتی پالیسی کے ذریعے یقینی بناتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لئے قومی تحفظ کا مقصد اس کے تمام خارجی اور داخلی خطرات کا تدارک اور اس کے شہریوں کا تحفظ ہے۔ انہیں خارجی اور داخلی خطرات کے پیشِ نظر قومی اتفاقِ رائے سے ایک قومی سلامتی پالیسی ترتیب دینے کی اشد ضرورت تھی۔ دسمبر 2021میں قومی سلامتی کمیٹی نے وزیرِاعظم عمران خان کے زیرِ قیادت اپنے 36ویں اجلاس میں پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی منظور کی۔ قومی سلامتی کمیٹی قومی تحفظ سے جڑے مسائل کے حل کے حوالے سے مشاورت اور فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہوتی ہے۔ 20دسمبر 2021کو وفاقی کابینہ نے پاکستان کی سب سے پہلی دستاویزی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی۔ قومی سلامتی پالیسی کا مقصد اپنے قومی مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے ایک لائحۂ عمل اور تصور پیش کرنا تھا ۔قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے مطابق یہ پالیسی صوبائی حکومتوں(جن میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر بھی شامل ہیں) ، مفکرین اور طالبِ علموں کی مشاورت سے بنائی گئی ہے۔ یہ پانچ سالہ پالیسی 2022سے 2026تک کے لئے بنائی گئی ہے۔ یہ پالیسی حکومت کو خارجی اور دفاعی امور اور معیشت کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے اور دیگر پالیسیاں اور لائحہ عمل مرتب کرنے میں مدد دے گی۔ معید یوسف کے مطابق یہ ایک مربوط اور عوام دوست پالیسی جس کا اولین مقصد معاشی تحفظ ہے۔ یہ قومی سلامتی پالیسی معیشت، خوراک، پانی ، توانائی، ماحولیات، دہشت گردی ، آبادی میں اضافے اور ہمسایہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات جیسے چیلنجز کا احاطہ کر رہی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی تحفظ یعنی پاکستان کے شہریوں کے تحفظ کو دی گئی ہے۔ایک مضبوط معیشت ہی انسانی اور دفاعی تحفظ کی ضامن ہے۔دوسری جنگِ عظیم اور سرد جنگ کے بعد انسانی تحفظ کے تصور کو بہت اہمیت ملی۔ ہٹلر کا''تصوررہنے کی جگہ'' یہ بھی انسانی تحفظ کا تصور تھا۔ ہٹلر کے مطابق جرمن ایک اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یہ زیادہ گنجائش کے حقدار ہیں۔ پاکستان نے بھارتی مقبوضہ کشمیرکے لئے جو جنگیں لڑیں وہ وہاں کی عوام کے تحفظ کے پیشِ نظر لڑیں۔ DG ISPRنے قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے کہا ہے کہ''اس پالیسی کے دیئے گئے منشور کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج اپنا کردار بطریقِ احسن ادا کریں گی''۔قومی سلامتی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے منصوبہ بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ اس پالیسی کا ایک عوامی متن بھی جلد منظر عام پر لایا جائے گا۔ یہ نئی پالیسی ملک کے قومی سلامتی کے مقاصد کے حصول کو یقینی بنائے گی ۔ یہ قدم پاکستان کی قومی سلامتی کو تقویت دینے کے لئے اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔