پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں بر صغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر انوار عقیدت کے پھو ل نچھا ور کر نے آیا ہوا تھا ۔ ہمیشہ کی طرح عقیدت مندوں کا سیلاب آیاہوا تھا وطن عزیز کے کو نے کو نے سے زائرین اپنی بے نور روحوں کو ایمان کے نور میں رنگنے آئے ہو ئے تھے یہ تو وہ لوگ تھے جو یہاں آسانی سے آسکتے ہیں۔ مجھے یورپ بر طانیہ کے وہ بے شمار تا رکین وطن یاد آگئے جب ان کے سامنے شہنشاہِ لا ہور کا ذکر ہو تا تو ان کی آنکھوں میں عقیدت کے چراغ روشن ہو جا تے اوروہ ایک ہی درخواست کرتے کہ لاہور جاتے ہی ہمارا سلام داتا حضور کو ضرور پہنچائیے گا اور پھر بہت سارے ایسے لو گ بھی ملے جو کہتے کہ جب یاد بہت آتی ہے تو ہم ٹکٹ لے کر لاہور ائر پو رٹ پر اترتے ہیں سیدھے سید علی ہجویری کے مزار پر جاتے ہیں سلام کر کے واپس آجاتے ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر میں سید علی ہجویری کے دوسرے بزرگوں کے پر وانے ایسے ہیں جو اپنی زندگی کا ہر کام یہاں دعا کے بعد کر تے ہیں شہر لا ہور میں اکثریت ایسے عقیدت مندوں کی ہے جو روزانہ کام یا نو کر ی پر جانے سے پہلے یہاں سلام کر کے جاتے ہیں جنہیں کوئی بھی آزمائش آئے تو وہ یہاں کا رخ کر تے ہیں عقیدت اور عشق کا یہ رنگ دیکھ کر عقل حیران ہو جاتی ہے کہ اِن عظیم بزرگوں نے ایسا کو ن سا کام کیا ہے کہ صدیوں سے یہ دلوں پر راج کر رہے ہیں عقیدت و احترا م کا جنون تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی عقیدت اور شہرت میں اضا فہ ہی ہو تا جا رہا ہے عبادت ریا ضت سخا وت تو بہت سارے لو گ کر تے ہیں لیکن آخر پروانوں کی طرح لو گ اِن کے مزارات کا رخ ہی کیوں کر تے ہیں صدیاں گزر گئیں لیکن یہ خاک نشین شہرت کے آسمان پر روشن چاند کی طرح چمک رہے ہیں صدیوں کا غبار اِ ن کی شہرت کو دھندلا کر نے کی بجا ئے اور نکھا رتا جا رہا ہے با دشاہوں کی قبروں پر چمگادڑوں اندھیروں کا راج ہے جبکہ یہاں لوگ ہزاروں چراغ روشن کر تے ہیں میں اپنی سوچوں میں غرق تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہا تھ رکھا میں نے اس کی طرف دیکھا تو مٹھائی کا ٹکڑا میرے ہا تھ میں پکڑا کر وہ آگے چلا گیا اِسی طرح کچھ لوگ بریا نی کے پیکٹ دال نان بانٹتے ہوئے نظر آئے تو اچانک میرے دماغ میں روشنی کا کوندا لپکا اور با ت سمجھ میں آگئی کہ یہ فرش نشین آخر کیوں کیسے شہرت کے آسمان پر قیامت تک کے لیے امر ہو گئے صدیوں پہلے جب یہ بزرگانِ دین بر صغیر پاک و ہند میں تشریف لا ئے تو انہوں نے اذیت ناک منظر دیکھا کہ ذا ت پات میں منقسم یہ کیا مذہب ہے جہاں نیچی ذات کے انسان جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ہندو مذہب میں شودر تین بڑی ذاتوں کی خدمت پر مامور تھا اس کی زندگی کی بقا ہی اونچی ذات کے ہندو کی خدمت تھی ۔اگر غلطی سے شودر کسی اونچی ذات کے ہندو سے ہا تھ ملا لیتا تو وہ نا پا ک ہو جاتا موجو دہ تر قی یا فتہ مہذب دور میں بھی اگر اونچی ذات کا براہمن اگر کسی سیا سی مجبو ری کے تحت کسی شودر سے ہا تھ ملا لیتا ہے تو فوری طور پر جا کر اپنے ہا تھ دھوتا ہے شودر جو دن رات اِن کی خدمت کر تے ہیں اگر ایسی مذہب کے اشلو ک اِن کے کانوں میں پڑ جائیں تو اِن غریبوں کے کانوں میں سیسہ پگلا کر ڈال دیا جاتا تھا اِن کے ساتھ ہاتھ نہ ملا نے کے لیے ہا تھ جو ڑ کر پرنا م کا طریقہ اپنایا گیا ہزاروں سالوں سے نیچی ذات کے ہندو ذلت کے سمندر میں گم کیڑے مکو ڑوں کی طرح زمین پر رینگتے ہوئے زندگی گزا رنے پرمجبور تھے اور پھر خدا ئے بزرگ و بر تر کو اِن بے کسوں مجبو روں پر رحم آیا غزنی سے ایک گو را چٹا نو جوان دراز قد دیو تا ں کی طرح خوبصورت سید زادہ شہر لا ہو رمیں آتا ہے یہاں کے کلچر کا بغور مطالعہ کر تا ہے اور پھر دستر خوان بچھاتا ہے لنگر کا آغا زکر تا ہے اپنے ساتھ شودر کو بٹھاتا ہے اپنی پلیٹ سے نوالا بنا کر اس کے منہ میں ڈالتا ہے اپنی پلیٹ میں اس کو کھا نے میں شریک کر تا ہے وہ شودر جو زندگی بھر مردار اور لوگوں کے بچے ہو ئے باسی ٹکڑوں پر زندہ تھا حیرت سے دیوتائوں جیسے خوبصورت نوجوان کو دیکھتا ہے جو ہزاروں سال سے غلامی اور ذلت کی زنجیروں میں جکڑا ہو ا تھا اس کو یقین نہیں آتا کہ میں کسی انسان کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتا ہو ں اور پھر جب نوجوان سید زادہ دلنواز تبسم کے ساتھ کہ تم بھی میرے جیسے ہی ہو میرے مذہب میں کسی گو رے کا کا لے پر کسی عربی کو عجمی پر کو ئی بر تر ی حاصل نہیں ہے تو صدیوں کا غلام شودرپکار اٹھتا ہے ہاں تم سچ کہہ رہے ہو تو تم نے مجھے کھانے میں ساتھ بٹھا کر شریک کر کے یہ ثابت کر دیا ہے اور پھر لنگر کی کرا مت کا آغا ز ہو تا ہے آج پاکستان میں تقریبا 8100دربارہیں اِن مزاروں پر دن رات لنگر جا ری ساری ہے لاکھوں غریب مزدور اور سفید پو ش اِن لنگروں سے مفت کھا نا کھا تے ہیں ایک غیر مرئی قوت اِن درباروں اور لنگروں کو خا موشی سے چلا رہی ہے یہاں پر آٹا چاول گھر دالیں گو شت چینی مصالحہ جات کیسے آتے ہیں عقل حیران ہے یہاں ملک میں آٹھ کروڑ سے زیادہ لو گ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ لو گ کس طرح زندہ ہیں ما ہرین اِس با ت پر حیران ہیں جب تک ہما رے ملک میں اِن خاک نشینو ں کے یہ لنگر قائم ہیں اِس ملک کو کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔دن رات یہاں پر ضرورت مندوں کا سیلاب آیا ہو تا ہے اِس ہجوم میں عزت دار عقیدت مند سفید پو ش سبھی ہو تے ہیں لنگر کے حصول میں کوئی گر جائے کسی کو چوٹ لگ جائے تو کوئی ناراض نہیں ہو تا یہاں پر لا ئن میں لگنا با عثِ شرمندگی نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ تو لنگر کو تبرک کے طور پر لیتے ہیں شفا کے طور پر لیتے ہیں ایک نوا لے کو ہی دنیا جہاں کے لذیذ کھا نوں پر سبقت دیتے ہیں یہاں پر کسی کی عزت نفس پامال نہیں ہو تی بے شمار کامیاب لوگوں کے تذکروں ہیں یہ شامل ہے کہ جب وہ پڑھنے یا مزدوری کے لیے لاہو ر شہر میں آئے تو نہ جیب میں کھا نے کو پیسے تھے اور نہ ہی رہنے کو ٹھکانہ تھا تو ماں کی آغو ش کی طرح شہنشا ہِ لا ہور نے دو وقت کی روٹی بھی دی اور رات کو مسجد میں سونے کی جگہ بھی یہاں پر کھانے اور رہنے کے لیے کسی کا رڈ واوچر کی ضرو رت نہیں ہے یہاں پر کسی کو واپس نہیں بھیجا جا تا کہ تم اِس کے حقدار نہیں ہو اگر گورنمنٹ کو اِس طرح لا کھوں لوگوں والوں کو کھانا دینا پڑ ے تو چند دن بعد ہی بھاگ جائے لیکن اِن مزارات پر محو خواب یہ عظیم اولیا کرام کا فیض صدیوں سے چلتا آرہا ہے اِن آستانوں پر خاک نشین یہ بزرگ ہی تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں خدمت خلق کے جذبے کے تحت جب یہ دستر خوان بچھائے تو اس دن کے بعد آج تک یہ دستر خوان جا ری و ساری ہیں اِن بزرگوں کے دنیا سے جا نے کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے اِس سلسلے کو جا ری رکھا گر دش لیل و نہار میں کئی رنگ آئے گزر گئے لیکن یہ لنگر خانے آج بھی غریبوں مسافروں مزدورں فاقہ کشوں کے پیٹ کی آگ کو بجھا رہے ہیں کسی کو لائن میں لنگر ملتا ہے تو کسی کو مراقبہ کی حالت میں کسی خاموش کو اس کے پاس جا کر لنگر دیا جاتا ہے یہاں لنگر بانٹنے والا کسی شہرت کا طالب نہیں ہو تا بلکہ وہ تو خود بھکا ری سمجھ کر اِس در پر آتا ہے یہاں نہ دینے والے کو شہرت غرور کا چسکا اور نہ لینے والے کو شرم ندا مت کا خیال یہاں تو تبرک تقسیم ہو تا ہے یہاں سب امیر غریب برابر ہیں آپ پو ری دنیا گھوم لیں یہ لنگر خانے آپ کو صرف یہاں ہی ملتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اولیا کرام نے اسلام کے نور کو پھیلا نے کے لیے یہ راستہ اختیا ر کیا۔ عشق الہی کے یہ عظیم مسافر اپنے گھر بار وطن رشتے دار چھو ڑ کر جب یہاں آئے تو ذات پات میں تقسیم اِس معاشرے کے سدھا ر کے لیے لنگر خا نے کا اہتمام کیا غیر مسلموں کے لیے سبزی والے لنگر کا اہتمام کیا جاتا اور پھر لنگر خا نوں کی برکت سے سارے انسان برابر ہو تے چلے گئے اور یہ لنگر کی ہی کرا مت تھی جو بر صغیر کے ذات پا ت میں تقسیم معاشرے کو جڑوں سے بلا کر رکھ دیا اورہندو مذہب پر زے پرزے ہو کر بکھر گیا ۔