پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ
1۔ اللہ تعالیٰ نے مُلک عزیز پاکستان کو بے پناہ قدرتی خزانوں سے نوازا ہے۔ ان خزانوں میں جہاں دُنیا کے عظیم پہاڑی سلسلے قراقرام ، ہندوکش اور ہمالیہ شامل ہیں وہاں دُنیا کے عظیم مُنجمد پانی کے ذخائر یعنی گلیشیئرز بھی عطا کی گئے ہیں ۔دریائوں اور نہروں کی اس سر زمین کو اللہ تعالیٰ نے چار موسموں یعنی سردی،گرمی، خزاں اور بہار سے نوازا ہے۔ اور اس کے ساتھ کوہستانی سلسلوں سے لے کر صحرائی رنگوں سے بھی مالا مال کیا ہے۔ یہاں کے کوہساروں میں نباتات ،معدنیات، حیوانات اور حشرات موجود ہیں جو اپنی نوعیت اور خاصیات کے اعتبار سے یکتا اور بے نظیر ہیں۔
2۔ پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ دریائے سندھ کے ذریعے شمالی علاقہ جات کے منجمد پانی اور گلیشیئرز کے پگھلائو سے فراہم ہوتا ہے جو پورے مُلک کے 60 سے 70 فیصد پانی کی ضرورت کو پورا کر رہا ہے ۔ یہ پانی مُلک کے نہری نظام کے ایک بڑے حصے کا بھی ذریعہ ہے جو دُنیا میں ایک منفرد آب رسانی اور نہری نظام سمجھا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس آبی نظام میں پن بجلی کی پیداوار کی بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان پانیوں میں کم و بیش ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن بدقسمتی سے ان مواقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ایک مربُوط منصوبہ بندی کا فقدان رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہم صرف دس ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے میں کامیاب رہے ۔ آج بدقسمتی سے ہماری توانائی کا انحصار زیادہ تر تھرمل پاور یعنی گیس اور روشنی کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی پر ہے۔ اور تقریباً ہماری بجلی یعنی پاور کی ضروریات اسی تھرمل پاور سے پوری کی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔جو حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بھی ہے کیونکہ بجلی کی قیمت بڑھنے سے تمام چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مُلک میں پن بجلی کی پیداوار بڑھایا جائے۔ اُس کے ساتھ ساتھ مُلک میں پانی کا ذخیرہ بڑھانے کے لئے بھی نئے ڈیمز کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت تقریباً 90 فیصد پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔
3۔موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہئے کہ اس نے تقریباً 30 سال کے بعد مُلک عزیز میں نئے ڈیمز اور پن بجلی کے عظیم منصوبوں کا آغاز کیا ہے ۔ اور اس دہائی 2018سے2028 کے دوران دس عظیم منصوبوں کی تعمیر کا پروگرام بنایا۔اوراس کو ڈیمز کی دہائی کانام دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں کے اختتام پر مُلک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 13.6 ملین ایکڑفٹ سے بڑھ کر 80 فیصد اضافے کے ساتھ 25.3 ملین ایکڑمنٹ ہو جائے گی ۔ جس سے تقریباً 30لاکھ ایکڑ اضافی زمین سیراب کی جاسکے گی جو مُلک میں زرعی انقلاب کا بیش خیمہ ثابت ہو گا۔ اگلے چار سالوں میں ساڑھے چار ہزار میگاواٹ کی اضافی سستی بجلی مُلک کے نیشنل انرجی گِرڈ کو فراہم کی جائے گی اور 2009 تک اس میں تقریباً سات ہزار میگاواٹ کا مزید اضافہ ہو گا ۔گویا اگلے 8 سالوں میں پن بجلی کی پیداوار دُگنا ہوجائے گی اور مجموعی طورپر ملکی ہائیڈروپاور انرجی 9400 میگاواٹ سے تقریباً20ہزار میگاواٹ ہوجائے گی۔ ان منصوبوں سے تقریباً35000 مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔ جس سے علاقے کی سماجی اور معاشی ترقی میں انقلاب برپا ہوگا۔ پانی کے ان ذخائر سے شہری پانی کے لئے روزانہ 95کروڑ گیلن پانی مہیا کیا جائے گا جو ملک کی بڑھتی آب رسانی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مثالی ثابت ہوگا۔ ان پراجیکٹ میں دیامر بھاشا ڈیم ، مہمند ڈیم داسوہا ئیڈرو پاور پراجیکٹ ،تا کرم تنگی ڈیم ،نائی گاج ڈیم ، تربیلا ڈیم کی توسیع، ہارپو پاور پراجیکٹ ،شدھ بیراج کی بہتری ، کچی کنال کی توسیع اور کراچی نیو کلیئر پاور 4شامل ہیں
١۔ دیامر بھاشہ ڈیم : یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑ اکنکریٹ رولر ڈیم سمجھاجاتا ہے یہ ڈیم دریا ئے سندھ کے اوپر چلاس سے 7کلومیٹر کے فاصلے پر بھاشا کے مقام پر تعمیر ہورہاہے جس میں تقریباً 80لاکھ ایکڑمنٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے تقریباً 4800 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ اسکی تعمیر سے تربیلاڈیم میں ریت جمع ہونے کے عمل میں کمی کی وجہ سے اس کی کار آمد زندگی میں بھی 35سال کا اضافہ ہوجائیگا ۔اس ڈیم کی اونچائی 272میٹر ہوگی ۔اس میں 8بڑے سپل وے ہوں گے۔ جو ڈیم مکمل ہونے کی صورت میں کھولے جائیں گے کہ یہ ڈیم چائنہ پاور اور ایف ڈبلیو او مل کر بنا رہے ہیں ۔ تاہم اس کی تکمیل کے لئے مزید دس سال اور سرمایہ کاری درکار ہے۔
٢: داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ : یہ عظیم پراجیکٹ داسو سے چلاس کی طرف 7کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ دیامر پراجیکٹ سے تقریباً 345کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ پر بنایا جارہاہے ۔جس سے تقریباً 4320 میگاواٹ پن بجلی پیدا ہوگی۔ اس کے پہلے مرحلے میں 6یونٹس کے ذریعے 2160میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی ، جبکہ اگلے مرحلے میں اسکی گنجائش دوگنی کی جائیگی ، یہ بھی آر سی سی ڈیم ہے ۔یہ ڈیم اگلے چار سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔ اسکا تخمینہ لاگت تقریباً 510 ارب روپے ہے۔ جسمیں 218 بلین کا زرمبادلہ بھی شامل ہے۔ اس کی تعمیر کے دوران 37 کلومیٹر سٹرک کو ڈیم کی دوسری جانب منتقل کیا جائے گا ۔اس ڈیم کی تعمیر کے لئے تقریباً 10 ہزار ایکڑ اراضی درکار ہے۔ جسمیں تقریباً نصف زمین حاصل کی گئی ہے۔
٣۔ مہمند ڈیم : اس ڈیم کا پُرانا نام مُنڈا ڈیم ہے ۔ جو دریائے سوات کے اُوپر پشاور سے شمال کے جانب 37 کلو میڑ کے فاصلے پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کی تعمیر سے 740 میگاواٹ پن بجلی کے علاوہ 15000 اراضی سیراب ہو گی۔اس کی تعمیر سے مجموعی طور پر 5 ارب کیوسک پانی ذخیرہ ہوگا۔ تقریباً 20 ارب بجلی کی پیداوار اور تقریباً 8 کروڑ روپے سیلاب سے بچائو کی مد میںحاصل ہوں گے۔ یہ پتھراور کنکریٹ سے بنایا جائے گا اور اس کی تعمیر کے بعد خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگااور تفریح کے مواقع فراہم ہوں گے۔
٤۔ ہارپو پاور پراجیکٹ : یہ پراجیکٹ دریائے سندھ کے بائیں حصے سکردو سے شمال مغرب کی طرف 75 کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر ہو رہا ہے۔ جس سے تقریباً 34 میگاواٹ بجلی فراہم ہو گی۔ یہ منصوبہ اگلے تین سالوں میں مکمل ہو گا ۔ اس کا تخمینہ لاگت ساڑھے نو ارب روپے ہے۔ جسمیں تقریباً 6 ارب روپے کا زرمبادلہ بھی شامل ہے۔
٥۔ تربیلا ڈیم کی توسیع: اس ڈیم کی توسیع کا منصوبہ (پانچ اگست 2021 میں شروع کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ 82 ارب کی لاگت سے یہ منصوبہ اگلے چار سالوں میں مکمل ہو جائے گا۔ اس کی تکمیل سے 1410 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی ۔ پن بجلی کی پیداوار کے علاوہ یہاں روزگارکی فراہمی ، ماہی گیری اور علاقے کی ترقی کے مواقع فراہم ہوں گے ۔
٦۔ کُرم تنگی ڈیم: یہ کثیر المقاصد ڈیم کائیتھردریا شمالی وزیرستان میں تعمیر ہو رہا ہے۔ جس سے 83 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے علاوہ 16 ہزار اراضی کی سیرابی کا ذریعہ بنے گا۔
٧۔ نئی گاج ڈیم سندھ: یہ کھیرتر رینج میں دادو سے 65 کلو میٹر کے فاصلے پر صوبہ سندھ میں تعمیر کیا جارہا ہے۔ جس میں ڈیم کی بلندی 194 فٹ ہے ۔ جس سے 4.2 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی اور تین لاکھ ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ اس کی لاگت تقریباً 16 ارب روپے ہے۔ اور اگلے دو سالوں میں اس کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ اس سے تقریباً 28 ہزار ایکڑ زمین سیراب کی جائے گی۔
٨۔ سندھ بیراج کی بہتری : اس منصوبے کے ذریعے سکھر اور گدو بیراج کی کارکردگی سیفٹی کو بہتر بنایا جائے گا ۔ جس سے صوبہ سندھ کے آب پاشی کے نظام میں بہتری آئے گی ۔ سکھر بیراج کی بہتری اور بحالی سے اس سے منسلک 10 نہری نظام میں بھی بہتری آئے گی ۔ یہ عالمی بنک کے قرضے سے 140 ملین ڈالر کی لاگت سے عمل میں آرہا ہے۔
٩۔ کیجی کینال کی توسیع: یہ منصوبہ 20 ارب روپے کی لاگت سے اس سال کے آخر تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ جس سے موجودہ نہری نظام کو 40 کلو میٹر تک توسیع دی جائے گی ۔جس سے ڈیرہ بگٹی کی تقریباً 30 ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جائے گا۔ یہ پراجیکٹ علاقے میں غربت کے خاتمے کے لئے انتہائی اہم اور اس سے بلوچستان سے دور افتادہ پسماندہ علاقوں کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہو سکے گی۔ اس سے سوئی اور ڈیرہ بگٹی کی ہزاروں ایکڑ بنجر زمین آباد ہوسکے گی ۔
١٠ ۔ کراچی گریٹر واٹر سپلائی سکیم: یہ منصوبہ تقریباً دو دھائیوں سے التواء کا شکار ہے موجودہ حکومت نے اس کے ڈیزائن کی نظر ثانی کرنے کے بعد 2023 کے آخر تک اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوششیں شروع کی ہیں ۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے کراچی کو 26 کروڑ گیلن اضافی پانی روزانہ مہیاکیا جائے گا۔ سندھ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت مل کر اس پراجیکٹ کو مکمل کریں گی ۔ یہ پراجیکٹ کراچی کے لئے وزیراعظم پاکستان پیکج کا حصہ ہے۔پاکستان میں ہائیڈر وپاور کے ان میگا پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ مُلک کے اندر معاشی اور سیاسی استحکام ہو۔ امن وامان کی صورت حال بہتر ہو اور مُلکی خزانے میں ان کی ادائیگی کے لئے بروقت زرمبادلہ موجود ہو ۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کی تکمیل کے بعد برپا ہونے والے نئی صنعتی انقلاب کو ممکن بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں سستی ، صاف اور قابل اعتبار توانائی موجود ہو۔ ان میگا منصوبوں کی بروقت تکمیل اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے انتہائی اہم ہے ۔ ان منصوبوں کے اجراء اور تکمیل سے حکومت کے ساتھ واپڈا اور خصوصاً چیئرمین واپڈا جنرل مزمل حسین کا کرداربھی انتہائی قابل تحسین ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مُلک عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ان منصوبوں کی تکمیل کو جلداز جلد ممکن بنائے ۔ آمین ثم آمین۔