سید بہادر علی سالک
کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار ایک صحت مند معاشرے پر ہوتا ہے کیونکہ اگر معاشرے میں بیماری نہ ہو اور لوگ صحت مند ہوں توایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ اور مملکت کا تصور یقینی ہوتا ہے اس طرح نہ صرف ایک فرد ، ایک خاندان، ایک محلہ، ایک شہر اور ایک ملک خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے بلکہ پوری قوم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔اور اگر خدانخواستہ معاشرے میں بیماری اور معذوری سے لوگ متاثر ہوں تو پورا نظام مفلوج ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیابھر میں صحت پر اولین ترجیح دی جاتی ہے ترقی پذیر ممالک میں سرکاری ہسپتال موجود ہوتے ہیں جہاں سے مفت علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میںبچے کی پیدائش پر ہی ہیلتھ انشورنش کا عمل شروع کیا جاتا ہے اور خاندان سے ہیلتھ انشورنس کیلئے رقم کی کٹوتی ہوتی رہتی ہے بعد میں اُسی ہیلتھ انشورنش کے جمع شدہ فنڈ سے خاندان کا علاج ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں (ترقی پزیر ممالک پاکستان جیسے ملک) میں ابتداء سے ہی سرکار ی ہسپتال موجود ہیں اور وہاں سرکاری ادویات فراہم کی جاتی رہی ہیں اور ایک طرح سے مفت علاج کا سلسلہ جاری ہے۔لیکن گذشتہ کئی عشروں سے پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینیکس کا ایک جال بچھ گیا ہے جہاں سرکاری ڈاکٹر صاحبان مل کر ہسپتالوں میں چھٹیوں کے بعد لوگوں کاپرائیویٹ کا علاج کرتے ہیں اور بھاری فیس وصول کرتے ہیں اور سرکاری ہسپتال میں ہی اُن سے کہا جاتا ہے کہ فلاں کلینک پر آنا ہے او ر مریضوں کو اُن کمپنیوں کی ادوایات جبری دی جاتی ہے جہاں سے ڈاکٹروں کو قیمتی تحائف ملتے ہیں۔جی بی میں تو یہ سلسلہ تیزی سے بڑھ چکا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کم اور آپریشن کیلئے لمبی تاریخیں دینا معمول بن چکا ہے اس لئے مریض کو مجبوراََ باری فیسیں ادا کر کے اُن کلینکس کی طرف رُخ کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر مریض کو موت کو گلے لگانا پڑتا ہے ۔ صاحب ثروت لوگ یا تو اندورن ملک مریض کا علاج کرواتے ہیں یا مقامی پرائیویٹ کلینیکس پر علاج کرواتے ہیںجن کے پاس پیسے نہ ہوئے تو علاج کیلئے مہنگے آپریشن کے لئے یا جن امراض کی جی بی میں آپریشن کی سہولت نہیں وہ زندگی کی با زی ہار جاتے ہیں۔ایک ٹرینڈ عا م ہو چکا ہے جی بی کی حد تک کہ حاملہ عورتوں کو نارمل حالات میں بچہ پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے پورا زور آپریشن پر لگایا جاتا ہے اور آج کل نارمل حالات میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہی نہیں بلکہ آپریشن کرنا ہی واحد حل ہے۔ حالانکہ اس جدید دور میں ترقی یافتہ ممالک میں نارمل طریقے سے بچوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی ہے پاکستان کے ان دگرگوں اور مخدوش حالات ، غریب اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی بہتر صحت کیلئے در پیش مسائیل کا جائیزہ لینے کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حکومت نے ایک نیا تجربہ سوچا اور ایسا قومی پروگرام لے آئے جن کاوجود آج تک دُنیا کے کسی ملک میں موجود نہیں۔ وزیر اعظم کے وژن کے مطابق پہلے صحت انصاف کارڈ کا نظام تجرباتی طور پر KPK میں شروع کیا گیا اور جب یہ کامیاب ہوا تو اس کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بہترین اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آنے لگے۔ اب اس کانام تبدیل کر کے پاکستان قومی صحت کارڈ کا نام دیا گیا ہے تاکہ کسی ایک پارٹی، شخصیت یا حکومت کا تاثرنہ اُبھرے۔ اب تقریباََ پورے پاکستان کو اس قومی صحت کے نظام میں شامل کیا گیا ہے صرف بلوچستان اورسندھ میں شروع کرنا باقی ہے۔ جی بی کی پوری آبادی کو قومی صحت کارڈ نظام میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس پروگرام کو جی بی میں لانے میں ہمارے وژنری وزیر اعلیٰ بیرسٹر خالد خورشید کا کردار لائق تحسین ہے ۔ جی بی کے لئے اس قومی صحت کارڈ کا افتتاح سکردو میں کیا گیا ۔ اس سلسلے میں منعقدہ تقریب میں وزیر اعلیٰ نے بذات خود شرکت کرنا تھی لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے فلائٹ منسوح ہونے پر وہ نہ آسکے ۔ قومی صحت کارڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر محمد ارشد نے وزیر اعلیٰ کی نمائندگی کی جبکہ صوبائی سیکرٹری صحت حاجی ثناء اللہ نے جی بی صوبائی حکومت کی نمائیدگی کی اس طرح وزیر اعلیٰ کے کوارڈینٹر محمد تقی اخون زادہ اور PTIبلتستان ریجن کے صدر وزیر ولایت علی ایڈوکیٹ نے اس افتتاحی تقریب میں پارٹی کی نمائیندگی کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے CEOقومی صحت کارڈ پر وگرام محمد ارشد نے کہا کہ محدود وسائیل کے باجودو وفاقی حکومت نے دو ارب روپے جی بی کو فراہم کئے ہیں اورجی بی کے تمام افراد کو اس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔باقی صوبوں میں اس مقصد کیلئے متعلقہ صوبائی حکومتیں خودفنڈز فراہم کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کی خواہش تھی کہ جی بی جیسے دور دارز کے پسماندہ علاقے کے لوگوں کو اولین فرصت میں اس پروگرام میں شامل کیا جائے کیونکہ صحت انسان کی زندگی کا سب سے بڑا اور پہلا مسلہ ہو تا ہے۔ علاج معالجے پر گھر بار، بھیڑ بکریاں، گاڑیاں ، جائیدادیں بک جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوںمیں قومی صحت کارڈ پروگرام کو شروع کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ خالد خورشید کے عزائم بڑے نیک اور عوام دوستانہ تھے اور اُن کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ انہوں نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس پروگرا م کے تحت صحت کے شعبے میں 100%سہولتیں فراہم کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ انہوں نے ایسی خوبصورت اور دل کو چھو نے والی باتیں کیں کے تقریب میں موجود لوگ محمد ارشد CEOسے انتہائی متاثر ہوئے۔ اُن کی باتیں پاکستان کے ایک محب وطن اور دل جلے کی باتیں لگ رہی تھیں۔ اُن کی باتوں سے گلگت بلتستان کے عوام کیلئے انہتائی خلوص اور محبت کے جذبات کی جھلک نظر آرہی تھی اور اُن کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ علاقے ایک دم ہی ترقی یافتہ اور خوشحال ہوجائیں۔ انہوں نے کہاکہ کورونا کی وبا ء کے دوران بھی پاکستان میں کئے گئے اقدامات کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی اعتراف کیا گیا کیونکہ ہم نے جس موثر طریقے سے اس وباء کا مقابلہ کیا دنیا دنگ رہ گئی اور بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کے اقدامات کی برملا تعریف کی ۔انہوں نے کہا کہ آئیندہ پروگرام گانگ چھے میں ہو گااور مرحلہ وار دوسرے اضلاع میں بھی شروع کئے جائیں گے ۔ CEO قومی صحت کارڈ پروگرام نے نوجوانوں پر زوردیتے ہوئے کہا کہ شادی کے بعد ہنی مون پر جانے سے قبل نادرامیں اپنی رجسٹریشن ضرور کروائیں تاکہ آپ کسی بھی جگے پر علاج کی سہولت حاصل کرسیکں ۔قومی شناختی کارڈ (جو آپ کا صحت کارڈ ہے) دکھا کر ملک کے کسی بھی حصے میں اپنا ضروری علاج کروا سکتے ہیں اور سال میں دس لاکھ روپے ایک خاندان کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔اس مقصد کے لئے 70 فیصد پرائیوٹ ہسپتال اور 30 فیصد سرکاری ہسپتال مختص کئے گئے ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ جی بی کے کوآرڈینٹر محمد تقی اخون زادہ نے کہا کے علاج کا ایسا مربوط اور قابل عمل نظام آ ج کے دور میں دنیا کے کسی کونے میں موجود نہیں اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے جی بی کے 100 فیصد عوام کو علاج معالجے کے لئے اس پروگرام میں شامل کر کے ان پسماندہ علاقوں پر عظیم احسان کیا ہے کیونکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں وژنری اور مخلص شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 35کروڑ روپے صحت کے شعبے کو دئیے گئے ہیں اور انفراسٹرکچر کے ساتھ افرادی قوت بھی فراہم کی جا رہی ہے تا کہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میںمدد گار ثابت ہو ۔ انہوں نے کہا کے جگر کے ٹرنسپلانٹ کے اخراجات بھی حکومت برداشت کر رہی ہے۔PTIکے صدر اور سابق ڈپٹی سپیکر وزیر ولایت علی ایڈوکیٹ نے بھی اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے لائق تحسین کر دار کی تعریف کی اور اس پروگرام کو عوام دوست اور غریب پرور پروگرام قرار دیا۔ انہوں نے جی بھی کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی قربانی کے جذبے کی بھی تعریف کی جو اپنے پانچ سالہ مینڈیٹ کا نصف حصہ عوام پر قربان کر رہے ہیں۔ کیونکہ آج کے دور میں ایسے فراخ دل لوگ بہت کم ہیں۔ اس موقع پر صوبائی سیکرٹری صحت حاجی ثناء اللہ نے اس پروگرام کے اغراض و مقاصدبیان کئے اور اس کی مزید اصلاح کے لئے تعمیری تنقید کا خیر مقدم کر تے ہوئے زور دیا کہ سوشل میڈیا پر ناجائز اور غیر ضروری تنقید سے گریز کیا جائے تا کہ یہ پروگرام کامیابی سے ہم کنار ہو۔اس تقریب میں کچھ لوگوں میں قومی صحت کارڈ تقسیم کئے گئے۔ جن میں علماء کرام ، خواتین، طلبہ، صحافی اور سر کاری ملازمین کے علاوہ معذور افراد بھی شامل تھے۔ یہاں میں جی بی کے اپنے تعلیم یافتہ ، مخلص ، وژنری اور تمام قسم کے گروہی ، سیاسی ، نسلی اور علاقائی تعصبات اور جذبات سے پاک وزیر اعلیٰ بیرسٹر خالد خورشید کی پورے علاقے کی خدمت کے جذبے خصوصا َ بلتستان جیسے علاقے سے پیا رمحبت اور خلوص کے جذبے کو سراہنا ضروری سمجھتا ہوں۔یہ واحد وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے PTIکی حکومت قائم ہونے کے بعد قلیل عرصے میں کئی مرتبہ بلتستان کے دورے کئے ۔لوگوں کے مسائیل اُن کے گھروں کے دہلیز پر جا کر سُنے ۔ سکردو شہر کے کھنڈرات کا منظر پیش کرنے والی سڑکوں کیئے فوری طور پر 33کروڑ روپے فراہم کر کے صرف آٹھ ماہ کے قلیل عرصے میں سکردو شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ جگلوٹ سکردو رڈ مکمل کرنے کیلئے وفاق سے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا اور JSRکو پایہ تکمیل تک پہچایا۔جی بی کے لئے270ارب روپے کا خصوصی اقتصادی پیکج حاصل کرنے ، جی بی میں میگا پراجیکٹس کی منظوری حاصل کرنے اورسکردو ایر پورٹ کو انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا درجہ دلوانے میں بھی وزیر اعلیٰ کی خصوصی دلچسپی شامل ہے۔ اس مقصد کے لئے شدید سردی کے دوران 16دسمبر 2021کو وزیر اعظم پاکستان کو سکردو انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور JSRکے افتتاح کے لئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو سکردو لے آئے ۔ انہوں نے جس قلیل عرصے میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ دو سابقہ وزرائے اعلیٰ اپنے پانچ پانچ سالوں میں نہ کرسکے ۔ بلتستان کے چاروں اضلاع اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرزسکردو کے مسائل حل کرنے میں وزیر اعلیٰ کو قائیل کرنے اورمخلصانہINPUTدینے میں ڈویژنل کمشنر شجاع عالم اور ڈی سی سکردو حافظ کریم داد چغتائی کا کردار بھی کسی سے ڈھکی چپھی بات نہیں ۔لوگوں کو سوشل میڈیا پر انتظامیہ کے ذمہ داروں پر بے مقصد اور غیر ضروری تنقید کرنے کے بجائے حقیقت پسندانہ تبصرے کرنے چاہیں۔ دونوں سرکاری پروٹوکول کا بے تحاشہ استعمال کرنے اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزارنے والے عوامی نمائندے کہلائے گئے ۔جی بی کے پہلے وزیر اعلی ٰ آفیسروں کودھمکانے تڑی لگانے میں اور ڈرانے میں لگے رہے جبکہ دوسرے وزیر اعلیٰ تمام تراختیارات اپنے ہاتھ میں رکھ کر(ورزاء اور ممبران کو بے کھاتہ کر کے ) متکبر بنے رہے۔ ہمیں اپنے موجودہ عوام دوست، لوگوں سے آسانی سے ملنے اور باتیں سننے والے وزیر اعلیٰ کی قدر کرنی چاہیے اس خوبصورت اور متاثر کن تقریب میں سکردو شہر کے منتخب عوام دوست نمائندے سینئیر وزیر راجہ ذکریا خان مقپون کی کمی کو لوگوں نے شدت سے محسوس کیا۔