راجہ نورالامین
گزشتہ دہائی میں ایک چیز دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگی و معاشرتی رویوں اور سماج پر جو سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی وہ ٹیلی کمیونیکیشن ہے۔جیسے روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح موجودہ دور میں ٹیلی کام اور خاص کر انٹرنیٹ تک رسائی دنیا کے تقریبا ہر فرد کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ حکومت،افواج، کاروباری ادارے،صنعتی ادارے،میڈیا اور تعلیمی ادارے غرض کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جو ٹیلی کام (انٹرنیٹ) پر انحصار نہ کرتا ہو۔ لیکن ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کی فراہمی بجلی،پانی، گیس اور دیگر یوٹیلٹیز کی فراہمی کے برعکس ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔غرض یہ کہ موجودہ دور میں ٹیلیکام اور ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ اسی تناظر میں گلگت بلتستان کی سطح پر وفاق کی جانب سے ایک سرکاری ادارے SCO کو کئی دہائیوں پہلے سے یہاں پر ٹیلی کام کی سروسز کی فراہمی کی ذمہ داری دی گئی تھی جو کہ اس ادارے نے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے ممکن حد تک عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔یہ ادارہ خطے کے مشکل حالات، مخصوص جغرافیائی ساخت اور محدود وسائل کے باوجود گلگت بلتستان کے کونے کونے تک بنیادی اور جدید ٹیلی کام سروسز مہیا کرنے کے لیے عرصہ دراز سے برسر پیکار ہے۔ اس دوران SCO کے کئی کارکنان نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے. برسہا برس کی محنت اور جدوجہد کی بدولت آج گلگت بلتستان میں SCO ٹیلی کام کی تمام سروسز یعنی لینڈ لائن براڈبینڈ انٹرنیٹ تھری جی فور جی جیسے سروسز مہیا کرنے والا واحد اور سب سے بڑا ٹیلی کام آپریٹر بن چکا ہے۔اور خاص کر حال ہی میں فائبر ٹو ہوم(FTH) جیسی جدید اور تیز ترین انٹرنیٹ اور سمارٹ ٹی وی پر مشتمل سروس جو کہ ملک میں چند گنے چنے شہروں میں ایک ہائی پروفائل سروس کی شکل میں مہیا ہےSCO نے GBمیں عام صارف کے لیے یہ سروس متعارف کروا کر ایک مثال قائم کی ہے۔نیزاس ادارے نے جدید ٹیکنالوجی اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جی بی کے طول و عرض میں صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور جدید ٹیلی کام سروسز تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے جس کی وجہ سے خطے میں صارفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ SCO نے گزشتہ چند سالوں کے دوران GB کے طول و عرض میں 4800 کلومیٹر سے زائد OFC نیٹ ورک بچھانے سمیت ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بڑا انفراسٹرکچر قائم کیا ہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر تمام پرائیویٹ ٹیلی کام نیٹ ورکس کی سروسز خطے میں نہ صرف محدود ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن خطے میں SCO کی ایک طویل عرصے سے ٹیلی کام کے شعبے کو وسعت اور فروغ دینے نیز GB کے عوام اور صارفین کو ٹیلی کام کی جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہمہ وقت کام کرنے کے باوجود پچھلے کئی عرصے سے کچھ مخصوص حلقوں اور غیر حقیقت پسند سوچ کے حامل افراد کی جانب سے اکثر و بیشتر اور مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے کہ SCO دیگر تمام نیٹ ورکس کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ان کو یہاں آکر کام کرنے نہیں دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے اس منفی پروپیگنڈہ کا اثر یہ ہوا کہ عام پبلک اورحکومتی اداروں میں یہ تاثر پھیل گیا کہ کہیں واقعی ایسا تو نہیں۔ لہذا انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اور عجلت میں کچھ اقدامات اٹھائے۔ جیسا کہ سال 2021-22 کے لیے GB میں ٹیلی کام کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے SCO کو مہیا ہونے والے فنڈز کو حکومت نے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ دیگر نیٹ ورکس کو یہاں آنے کے لئے آمادہ کریں گے۔لہذا اسی تناظر میں دیگر پرائیویٹ ٹیلی کام نیٹ ورکس کو گلگت بلتستان میں تھری جی فور جی سروس شروع کرنے کے لئے سپیکٹرم اور لائسنس بھی فراہم کیاگیاجس کی عدم موجودگی کو جواز بنا کر باقی ٹیلی کام کمپنیز جی بی میں فورجی سروس فراہم نہیں کر رہی تھیں لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی مہینے گزرنے کے باوجود دیگر تمام پرائیویٹ نیٹ ورکس ابھی تک یہاں کے عوام کو 4G 3G کی سہولیات فراہم کرنے میں بالکل بھی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان ٹیلی کام نیٹ ورکس کا بنیادی مقصد بزنس اور منافع کمانا ہوتا ہے نہ کہ سروس مہیا کرنا۔اور اس بات کو یہاں کے عوام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دیگر پرائیویٹ ٹیلی کام نیٹ ورکس گلگت بلتستان میں آکر اپنا سرمایہ تھری جی فور جی سروس مہیا کرنے کے لیے کیوں استعمال کریں گے جہاں سے ان کو منافع کی کوئی امید نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لائسنس حاصل کرنے کے بعد اس بات کے پابند ہے کہ وہ اپنی سروسز یہاں کے عوام کو مہیا کریں۔اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے اور یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے کہ SCO نے کبھی بھی کسی بھی پرائیویٹ نیٹ ورک کو یہاں آکر 4G 3G جیسی جدید سروس مہیا کرنے سے نہیں روکا ہے۔اس صورتحال میں صوبائی وزیر اعلی بھی خاصے مایوس اور ناامید نظر آ رہے ہیں۔اور انہوں نے گزشتہ دنوں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کے شعبے کو مستحکم کرنے اور فروغ دینے والا واحد ادارہ SCO ہی ہے۔ البتہ SCO کے حوالے سے منفی سوچ اور پروپیگنڈہ پھیلانے والے ان تمام عناصر اور حلقوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ادارے کے حوالے سے ان کی منفی سوچ قطعی طور پر غلط ہے۔کیونکہ SCO وفاقی حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا واحد مقصد ٹیلی مواصلاتی سہولیات مہیا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔او ر یہ ادارہ اسی مقصد کے تحت خطے میں ایک طویل عرصے سے ٹیلی کام کی ترقی کے لئے مصروف عمل ہے۔البتہ SCO کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈہ اور غلط تاثر کی وجہ سے براہ راست نقصان یہاں کے عوام اور صارفین کو پہنچا۔کیونکہ ٹیلی کام کی مد میں سالانہ ترقیاتی فنڈز جو سال2021-22 کیلئے SCO کو جاری کیا جانا تھا وہ نہ کیا گیا۔اور اس کی وجہ سے خطے کے مزید علاقوں تک موبائل ٹاورز نصب کرنے سمیت ٹیلی کام کے حوالے سے جاری کیی اہم منصوبے مکمل طور پر رک گئے۔لہذا حکومت کو موجودہ صورتحال اور تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مدبرانہ اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور خاص کر گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے مختص کیے جانے والے تمام فنڈز کو ریلیز کروانے اور SCO کو اپنے جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے موجود تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے اس پیش رفت سے براہ راست فائدہ یہاں کے عوام اور ٹیلی کام کے صارفین کو ہی حاصل ہو گا۔ خدا نخاستہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں خطے میں عرصہ دراز سے ٹیلی کام سروسز مہیا کرنے والے حکومتی ادارے SCO کے جاری منصوبے کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں بلکہ مختلف علاقوں کے لیے نئے شروع کیے جانے والے پروجیکٹس بھی تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف یہاں کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ موجودہ دور جو کہ ڈیجیٹلائزیشن کا زمانہ ہے اس دور سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں بھی کمی آ سکتی ہے۔لہذا وقت کا تقاضا بھی ہے اور موجودہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری بھی ہے کہ عوام کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوچنے اور ذمہ داری سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ GB میں ٹیلی کام کی ترقی کے لئے وفاق کی جانب سے جو بھی فنڈز مختص ہے وہ ہر صورت میں بروقت یہاں کے متعلقہ اداروں کو فراہم کرنے کے لئے حکومت کو آمادہ کیا جائے ورنہ ایسا نہ ہوا تو یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ پانے کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔