قدرت نے پاکستان کو قدرتی وسائل ہے شمار نعمتوں اور خوبصورتی سے نوازا ہے بحثیت ایک قوم ہم بہت ناشکرے اور نا قدرے ہیں۔بجائے ان قدرتی وسائل اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے اگر حکومت کوئی اچھا قدم اٹھائے تو ہم حکومت پر بے جا تنقید کرتے اور مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے اور ہمیشہ ایسے مواقع ضائع کرتے جو علاقے کے مفاد میں ہوتے ۔نیشنل پارک کے حوالے سے گلگت بلتستان کی عوام غلط فہمی کا شکار ہے۔ لوگprotacted area کا ترجمہ ممنوعہ علاقہ کرتے اور سمجھتے بھی ہیں حالانکہ یہ وہ ایریا ہوتا جہاں پر ہر قسم کی ماحول دشمن کارروائیاں ممنوع ہوتی۔ نایاب جانوروں کا شکار اور قیمتی جڑ ی بوٹیوں کی اسمگلنگ ممنوع ہوتی۔نایاب اور معدوم جانوروں کو قدرتی ماحول میں رکھ کر ان کی افزائش کی جاتی۔اور تعلیمی تحقیق کے اعلی مقاصد کے لیے یہ پارکس استعمال میں لاتے۔ نیشنل پارکس کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے۔ایک پھلتا پھولتا ماحول ایک مستحکم معیشت کی بنیاد بن سکتا ہے۔نیشنل پارک کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے protected area initiative program کا آغاز کیا جس کے تحت ملک میں نئے 15 پارکس بنائے جائیںگے جن میں سے 6 کا باقاعدہ اعلان ہو چکا ہے اور 9 نئے پارکس پاکستان کے مختلف صوبوں میں بنائے جائیں گے۔۔ایسے محفوظ علاقے قائم کیے جائیںگے جہاں جنگلی حیات پروان چڑھ سکے اور قدرتی نایاب جڑ ی بوٹیوں کی بھی حکومتی سطح پر تحفظ فراہم کیا جائے گااور جلد ہی ترجیحی بنیادوں پر نیشنل پارکس کا مینیجمنٹ پلین تیار کیا جائے گا۔اس پروگرام کا دوسرا مقصد نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ پانچ ہزار افراد کو روزگار فراہم کیا جائے گا جس سے مقامی لوگ استفادہ حاصل کرینگے اور مقامی لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کا ایک نیا باب کھلے گا۔دیوسائی منی مرگ نیشنل پارک سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہے۔پارک کی وجہ سے سیاحوں میں اضافہ ہوگا جس سے روایتی کھانے پینے کی اشیا کی شہرت ہوگی اور ثقافتی ہاتھ کی بنی ہوئی سلائی کڑھائی کی اشیا کو سیاح سوونیر کے طور پر اپنے ساتھ لے جائیںگے۔ہر نیشنل پارک کے ارد گرد معاشی انجن گھومتا ہے اور سیاح کو کبھی بھی قدرتی ماحول کھینچ کے لاتا ہے دھول اڑاتے میدانوں کو دیکھنے کوئی نہیں آتا ہے۔۔مجھے حیرت ان لوگوں پر ہورہی جو آج نیشنل پارکس کی مخالفت میں بے جا بولے جا رہے جو 1975 میں بننے والے خنجراب نیشنل پارک بننے پر واہ وا ہ کرتے نہیں تھکتے تھے ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون سی حکومت نیشنل پارک بنا رہی ہمیں غرض ہے تو علاقے کے مفاد سے چاہے کوئی بھی حکومت علاقے کے مفاد کے لیے کام کرے گی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں نیشنل پارکس بنے ہیں ۔سکردو میں سینٹرل قراقرم نیشنل پارک دس ہزار کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے اور دنیا بھر کے کو ہ پیما کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔2015 میں اٹلی کے تعاون سے گلگت بلتستان کی حکومت نے باضابطہ سینٹرل قراقرم نیشنل پارک کی منظورِ دی جس کے ارد گرد 220 کے لگ بھگ چھوٹے چھوٹے گائوں موجود ہیں۔ ۔۔ ۔ہندراب شندور نیشنل پارک ضلع غذر میں واقع ہے جس کی شہرت شندور کا میلہ اور روایتی پولو ٹورنامنٹ ہے اور پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔کرو میہ نیشنل پارک (2011) یہ گلگت بلتستان کا پانچواں پارک ہے اور غذر میں واقع ہے۔دیوسائی منی مرگ نیشنل پارک جنگلی نایاب اور قیمتی جڑ ی بوٹیوں کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اور غریب علاقے کی عوام کے لیے روزگار کی ایک نئی شمع ہے۔مختلف ادوار میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے نیشنل پارکس بنائے ہیں وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وزیر اعلی خالد خورشید کی بہترین علاقائی مفاد کی کاوشوں کی بدولت منی مرگ ۔قمری۔کالا پانی دیوسائی نیشنل پارک جو 1989 مربع کلو میٹر پر محیط ہے جس کا باضابطہ نوٹیفکیشن ہمالین نیشنل پارک کے نام سے ہوا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان تحریک انصاف رولر ایریاز کو وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق غربت کی لکیر سے عوام کو باہر نکالیں گے اور پارک کا قیام ایک نیک شگون ہے۔ یہاں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے سراہنے کے قابل ہے۔پارک کے ارد گرد کے مقامی لوگوں کو بھی نیشنل پارکس سے فائدہ بھی حاصل ہوگا اور لوگوں کی زندگی بھی بہتر ہوگی۔
