آذربائیجان :ڈرون کا استعمال


آذربائیجان اور آرمینیا 1920 میں روس کے قیام کے وقت اس کا حصہ تھے۔ اس وقت نگورنو کاراباخ کا کنٹرول روس نے آدربائیجان کو دیا تھا۔ جب روس ٹوٹا تو ناگورنوکاراباخ کی پارلیمنٹ نے آرمینیا کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور ناگورنو کاراباخ اوراس سے ملحقہ کے دوسرے علاقوں کا کنٹرول کا آرمینیا کے ہاتھ میں آ گیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان آخری جھڑپ رواں سال27 ستمبرمیں ہوئی  اور9 نومبر تک جاری رہی، جب تک روس نے امن معاہدے کے لئے ثالث کا کردار ادا نہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت 2000روسی فوجی جنگ بندی کے علاقوں کی نگہداری کریں گے۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ آذربائیجان جن علاقوں پر قابض ہے وہ اسی کے پاس رہیں گے، جبکہ20نومبر سے یکم دسبر 2020تک آرمینیا اور کاراباخ کو اغدم، کلبجر اور لچن  کے علاقے آذربائیجان کو دینا ہوں گے۔ اس معاہدے کے تحت 7اضلاع اور کاراباخ کا ایک حصہ جس میں شوشا شہر شامل ہے آذربائیجان کو ملیں گے۔ کاراباخ کے ساتھ ہونے والی پچھلی جنگوں سے موازنہ کیا جائے تو6ہفتوں پر مشتمل اس جنگ میں آذربائیجان کی جنگی کارکردگی اور پیشہ وارانہ مہارت مثالی رہی۔ آذربائیجان کی تیزی سے حاصل ہونے والی جنگی فتوحات پر ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ ڈرون کے کثرت سے اورموثر استعمال نے جنگ کی بازی پلٹ دی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ''ناگورنو کاراباخ ایک مثال بن چکا ہے کہ کس طرح چھوٹے اور کم قیمت ڈرون حملے کسی ایسی جنگ کا رخ پلٹ سکتے ہیں جس میں ہمیشہ فضائی طاقت کا کردار غالب رہا ہو۔'' تاریخی اعتبار سے پہلی پائلٹ کے بغیر فضائی سواری برطانیہ اور امریکہ نے پہلی جنگ ِعظیم میں تیار کی تھی، مگر اسے جنگ میں استعمال نہیں کیا گیاتھا۔ویتنام جنگ کے دوران ان ڈرونز کو فضائی جائزہ لینے، فضائیہ کے ٹھکانوں پر نظر رکھنے اور لیف لٹ پھینکنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ نائن الیون کے بعد سے امریکہ نے دہشت گردوں کے خلاف افغانستان اور فاٹا میں ڈرون کا بہت زیادہ استعمال کیااورطالبان اور القاعدہ کے ہزاروں اہم دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔2002میں صد ر بش کے دورِحکومت میں بھی یمن کے خلاف ڈرون استعمال کئے گئے جس کا سلسلہ اوباما دور تک جاری رہا۔ امریکہ کاپوری دنیا میں دہشت گردو ں کے خلاف ڈرون پر انحصار بہت زیادہ رہا ہے۔جنوری 2020میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بھی بغداد ائیر پورٹ کے قریب ڈرون کے ذریعے مارا گیاتھا۔ 6ہفتوں تک چلنے والی اس جنگ میں آذری فوج نے ڈرون کا بہترین استعمال کیا اور آرمینیا کی فوج کوتباہ کر کے رکھ دیا۔ آذربائیجان نے یہ شاہکار طیارے ترکی اور اسرائیل سے خریدے جن کا نام ترکش بیرکتار TB2اور اسرائیلی کامیکیز ہیں۔ ترکی کا ڈرون 55کلو وزنی جبکہ کے اسرائیلی ڈرون 15کلو وزنی بمب لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ترکی نے سب سے پہلے جنگی ڈرون بنائے اور بر آمد کرناشروع کئے۔آج ترک ڈرون انڈسٹری دنیا میں سب سے آگے ہے۔ ترکی نے اپنے ڈرون کے پہلے تجربات اور استعمال ادلیب، شام اور لیبیا میںخلیفہ ہفتار کے خلاف کئے۔ اسرائیلی کامیکیز بھی آرمینیا کے خلاف بے حد خطرناک ثابت ہوئے، جو کہ اتنے چھوٹے ہیںکہ زمین میں نصب ریڈاروںپر ظاہر نہیں ہوتے۔ کامیکیز کاتصور ان جاپانی طیاروں سے لیا گیا تھاجنہیں دوسری جنگِ عظیم میں دھماکا خیز مواد سے بھر کر ٹارگٹ پر گرا کر تباہ کر دیا گیا تھا۔ان حملوں میں 3800کامیکیز پائلٹ اور 7000نیوی اہلکار مارے گئے۔ آذری فوج نے روسی AN2Tکثیر المقاصد طیاروں میں تبدیلیا ں کر کے انہیں آرمینیا کی فوج کی دفاعی پوزیشنوں کا جائزہ لینے کے لئے استعمال کیا۔ ان طیاروں سے آرمینیا کی فضائیہ آرٹلری کی دفاعی پوزیشنوں کا سراغ لگایا گیا۔ ان ڈرونز نے آرمینیا فوج کے ٹینکوں، آرٹلری اور فضائیہ کے دفاعی نظام کو تباہ کر کے اور مورچوں میں چھپے فوجیوں کو نشانہ بنا کر آرمینیاکی فوج کے حوصلے پست کر دیئے۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق آرمینیا کے 185 ٹینک، 90اسلحہ بردار گاڑیاں ،182آرٹلری گنز ،73مختلف راکٹ لانچرز،26زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائیل،14ریڈار ۔451فوجی گاڑیاںاور ایک SU-25جنگی طیارہ تباہ کئے گئے۔  ترکی اور اسرائیلی ڈرونز نے آذربائیجان کو آرمینیا کے خلاف ایک فیصلہ کن فتح دلائی اور آرمینیا کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ آرمینیا کو بھارت سے 40 ملین ڈالر میںخریدے گئے سواتھی ریڈار کی مایوس کن کارکردگی سے بھی بہت نقصان پہنچا۔ بھارت نے آرمینیا کو ایسے چار ریڈار دیتے ہوئی دعویٰ کیا تھا کہ یہ ریڈار پاکستان کی نیندیں اڑا دے گا۔ ایشیا میں چین جائزہ لینے والے اورجنگی ڈرون بنانے میں سب سے آگے ہے۔ چین نے حال ہی میں ننچنگ ہوائی مظاہروں میں wing loong-10 نامی ڈرون متعارف کیا۔ اس ڈرون کی حد 2500میل تک ہے اور یہ 20گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے۔چین کے پاس Anti Drone ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو ڈرون کے سگنل جام کر سکتی ہے، اور الیکٹرومیگنیٹک حوالے سے بہترین قرار دی جاتی ہے۔بھارت اپنا فضائی جائزہ لینے والا ڈرون رستم 2بھی تیار کر رہا ہے۔اس کا تجربہ اکتوبر 2020میں کیا گیا، جو 18گھنٹے تک ہوا میں رہ سکتا ہے اور 2600فٹ کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ بھارت نے 2018میں اسرائیلی ہیرون بھی خریداجس کا مقصد کراس بارڈر سٹرائیک تھا۔فضائی جائزہ لینے والے ڈرون کو لداخ میں ایک پروجیکٹ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ہیں جسے آپریشن چیتا کا نام دیا گیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بہت سے بھارتی ڈرون پاک بھارت سرحد پر نظر آئے جنہیں پاک آرمی نے مار گرایا۔ اب بھارت میں یہ تشویش بھی پائی جار ہی ہے کہ پاکستان چین اور ترکی سے یہ ڈرون حاصل کر کے بھارت کے خلاف استعمال کر ے گا۔جنرل بپن راوت نے 28 نومبر2018کو دہلی میں انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالیسس میں تقریر کرتے ہوئے یہ بات ریکارڈ پر کہی کہ بھارتی فوج  جموں و کشمیرکے اندر اور بارڈر کے اس طرف ڈرون حملے کرسکتی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق CPECمعاہدے کے تحفظ کے لئے پاکستان کو چین کی طرف سے 4اسلحہ بردار ڈرون ملیں گے۔ پاکستان نے اپنی لوکل ٹیکنالوجی سے ایک ریموٹ سے چلنے والا طیارہ بنایا ہے جسے براق کا نام دیا ہے۔ اس ڈرون کو 2015میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اس ڈرون میں Motion Detectors  اور بڑے ریزولوشن کے کیمرے بھی نصب ہیں۔اور اس کا بنیادی خطرناک ہتھیار لیزر کے ذریعے فضا سے زمین پر مار کرنا ہے۔ پاکستان کے پاس ایک اور کثیرالمقاصد ڈرون موجود ہے جسے شہپر کہا جاتا ہے ۔جو 17000فٹ کی بلندی پر 7گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے۔ آذربائیجان نے آرمینیا کے خلاف ڈرون کا موثر استعمال کر کے جنگ کا مستقبل بدل کر رکھ دیا ہے۔اب ضرورت کے وقت فضائی مدد بلوانے کے بجائے ڈرونز کو کام سونپے جائیں گے جو گھنٹوں تک فضا میں اڑتے رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔