Skip to content
غلام قادر بیگ
اولاد والدین کے لئے جہاں ترقی،نیک نامی اور مسرت و شادمانی کی نوید لے کر دنیا میں آتی ہے وہاں ان کی جوانی میں وفات زندگی کا سب سے بڑا امتحان بھی ہوتا ہے ، میجر محمد عرفان کی شہادت کی دردناک خبر ملتے ہی نہایت درد کے ساتھ افسوس ہوا،اور دل ہی دل میں اُن کے والدِ گرامی جناب شیر باز خان برچہ سے پوچھا اے شیر ِقلم آپ کا جرّی فرزند جنہیں آپ نے وطن کی دفاع کے لئے 2006 میں دنیا کی نہایت بہادر پاک آرمی کے حوالہ کیا تھا وہ پائلٹ بن کرہر پرواز کے بعد واپس آتے تھے اس دفعہ وہ اس جہانِ فانی سے کہاں پرواز کر گئے ، اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے علمی معجزات و کرامات سے معمور قرآنِ حکیم سے جواب مل گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون اور لوٹ کر اُس ذاتِ احد و صمد کی جانب رجوع کرنے والے ہیں۔ سورہ بقرہ،جانی قربانی کی خبر لے کر فرشتہ اجل جناب شیر باز خان برچہ کے گھر پہنچا تو اُن کے اکلوتے فرزند میجر محمد عرفان برچہ نے اس امر الٰہی کے سامنے سر تسلیمِ خَم کرتے ہوئے لبیک کہا اور یوں انہوں نے گزشتہ دنوں وطنِ عزیز کے د فاع کا فرض انجام دیتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے حادثہ میں جام ِشہادت نوش کیا ۔یہ دو اشعار شہادت کی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں :
یہ موت نہیں،موت یہاں زندہ ہوئی ہے
ہر موت اسی موت سے شرمندہ ہوئی ہے
اللہ رے یہ مردِ مجاہد کی دلیری
خائف نہیں کرتے اِسے شمشیرو اسیری
( از نظم شہیدانِ کارگل۔دیوانِ نصیری)
اللہ تعالیٰ عالی ہمّت لوگوں کو پانچ قسم کی آزمائشوں سے آزماتاہے ( قرآنی حوالہ۔ بقرہ :١٥٥) ان میں جان کی قربانی کی آزمائش بھی شامل ہے ، اگرچہ جوانی کی موت بڑی تلخ ہوتی ہے مگر ایسی آزمائشوں میں صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنے والے خوش نصیبوں کے باطنی درجات بلند کئے جاتے ہیں۔ فرزندانِ توحید کی نظر میں منشائے الٰہی کے تحت حصولِ شہادت بہت بڑی نعمت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان میں سے عالی ہمت جانوں اور خاندانوں کا انتخاب فرماتا ہے، شہیدانِ جنگِ بدر،جنگِ اُحد، جنگِ آزادی گلگت بلتستان نیز١٩٧١، ١٩٦٥ء کی جنگیں اور دھشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے شہید اس کی تابندہ مثالیں ہیں، شہادت مرحلہ امن میں ہو یا گرم جنگ کے دوران، عزّت و حرمت کے لحاظ سے قرآنِ حکیم میں اس کی بڑی قدر ہے، ارشاد ِ ربّی ہے کہ: جو لوگ اللہ کی راہ ( سرکاری حکم پر جہاد ) میں جان کی قربانی دے چکے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں(قرآنی حوالہ۔ آلِ عمران:١٦٩) اِس ارشاد سے یقینا بہشت کی زندگی مراد ہے جو جسمانی زندگی کی نسبت نہایت اعلیٰ و ارفع ہے اس لئے کہ وہ نورانی اور ابدی زندگی ہے، وہاں مادی جسم نہیں جسمِ کوکبی ( Astral Body )ہے اس لئے وہاں رزق جسمانی نہیں روحانی ہے، چنانچہ رزق سے علم و حکمت اور معرفت کے بھید مراد ہیں جن میں نہایت شیرینی ،حلاوت اور مسرت و شادمانی ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ شہیدِ جسمانی کی اتنی عزّت و فضیلت ہے تو جہادِ اکبر کے فاتحین ( انبیائ و آئمۂ کرام اورعارفین و کاملین ) کی شان کس قدر بلند ہو گی کہ انہوں نے مجاہدہ نفس کے ذریعے نفسِ فرعون کوشکست دے کر شہیدباطن ہو گئے یہ شہادت عظیم اس معنی میں کہ ایسی خوش نصیب ہستیاں جیتے جی شہید اورغازی بھی ہو گئیں ، یہی وجہ ہے کہ سردارِ انبیاء ۖ نے جہادِ اکبر کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔میجر محمد عرفان ( پائلٹ) اخلاق وکردار کے لحاظ سے صاف گو ، اصول پسند، سادہ طبیعت کے مالک،جونیئرساتھیوں کی فلاح و بہبود میں بھر پور دلچسپی لینے والا اور اُن کے غم وخوشی میں برابر کے شریک رہتے تھے وہ افسر ہونے کے ناتے سے قیادت کی مہارت سے لیس اور شخصیت کے لحاظ سے حلیم ا لطبع اور سنجیدہ انسان تھے ، آپ کے سینئر آفیسرز نے آپ کے والد کو بتایا کہ وہ آرمی ایوی یشن کے دس بہترین پائلٹوں اور شہبازوں میں شمار ہوتے تھے،خطرناک اور دشوار عسکری مشنوں اور ہرچیلنج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کامیابی کو اپنے ادارے کے نام کرنے کے عادی تھے ۔ آپ نے اپنے کیریئر کے دوران کچھ عرصہ وانا اور جنوبی وزیرستان کے دیگر مقامات پر بھی بڑی دلاوری کے ساتھ فرائض انجام دئے ، ملک و ملّت کے وہ تمام بہادر سپوت جو دھشت گردی کے چنگیزی طوفان کو روک کر انسانی جانوں کی حفاطت کرتے ہوئے پاکستان اور اسلام کے روشن چہرے کو داغدار ہونے سے بچانے میں مدد د ے رہے ہیںتاجِ عزّت و فضیلت کے حقدار ہیں۔
تعلیمی و عسکری پس منظر:۔ آپ نے نرسری سے آٹھویں جماعت تک تعلیم فوجی فائونڈیش اسکول گلگت سے حاصل کی ،معروف تعلیمی ادارہ المصطفیٰ پبلک اسکول نے انہیں دو سال کا معیاری اور کلیدی تعلیمی ماحول فراہم کیا اور اسی اسکول سے 2002 میں میٹرک پاس کیا ،بعد میں آپ نے لیفٹننٹ کے رینک میں پاک آرمی (انفنٹری) میں شمولیت اختیار کی، کچھ عرصہ بعد آپ نے آرمی ایوی ایشن کا امتحان پاس کیا اور اس شعبہ میں پائلٹ کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کر کے میجر کے رینک تک پہنچے تھے کہ آپ سے جان ِ عزیز کی قربانی لے کر بہشت کے اُس ارفع مقام پر بلایا گیا جو شہیدوں کے لئے ازل سے مقرر ہے، آفرین ہے اُن کے والدین کے لئے ،جنہوں نے اپنے اکلوتے جوان اور نیک نام جگر گوشے کی جان نثاری پر صبرو استقامت کا مظاہرہ کر کے معاشرہ کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی ،شہید میجر عرفان کی اہلیہ میجر نورین برچہ نے بھی اس امتحان میں قابل تقلید برداشت کا مظاہرہ کیا ، وہ ایف ڈبلیو او( FWO) میں میجر کے رینک میں آفیسر ہیں، وہ استاد اسکندر مرحوم کی پوتی اور انگریزوں کے زمانے کے اولین پرائمری اسکول( بلتت) کے معروف استاد محمد نجات کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ درین اثنا گلگت بلتستان کے گورنر راجہ جلال حسین مقپون اور ٹین کور کے کمانڈر کے علاوہ جی او سی گلگت بلتستان میجر جنرل جواد احمد، صوبائی حکومت کے وزراء اورانتظامیہ کے سینئر افسران، فکرو دانش اور قلم و قرطاس سے وابستہ شخصیات اور سماجی و ثقافتی حلقوں کے نمائندوں نے گلگت میں جناب شیر باز برچہ کے گھر آ کر اُن کے فرزند کی شہادت پر تعزیت کی، فاتحہ خوانی اور دلجوئی کی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہیدکے درجات اور بھی بلند فرمائے اور والدین کے جگر میں جو گہرے زخم آئے ہیں اُن پر دونوں بیٹیوں کی فطری محبت ،خدمت اور فرمانبرداری سے مرہم ہوجائے ،آمین، شہیدعرفان کا والد جناب شیرباز برچہ کا پشتنی تعلق گنش ہونزا سے ہے، چند دہائی قبل آپ کا خاندان نومل میں آ کر آباد ہو گیا، آپ قبیلہ برچہ کے چشم و چراغ اور صاحبِ قلم و تحقیق ہیں ، قبیلہ برچہ تنگ کے بزرگوں نے جہاں ہونزا کی تعمیر و ترقی اور دفاعی جنگوں میں کارنامے انجام دئے ہیں ، وہاں اس کی موجودہ نسل نے بھی علم، تعلیم و ہنر،وطن عزیز کی عسکری خدمت وبہادری کے میدان میں نام کمایا ہے، ہونزا کے تین میجر جرنیلوں میںسے عنایت حسین ( قبیلہ کُیو کوژ)، گلگت اسکا ؤٹس اور جنگِ آزادی گلگت بلتستان کے پانچ مشاہیر میں سے صوبیدار میجر فدا علی،میجر غلام مرتضیٰ ( ستارۂ جرأت ) ، ڈاکٹر شیر زمان ( پی ایچ ڈی) ، جناب امان اللہ خان ( سول سرونٹ گریڈ 21) اور لندن میں مقیم معروف صاحبِ لسان و قلم جناب غلام عباس کا تعلق بھی برچہ خاندان سے ہے۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں