گلگت بلتستان ایک معمہ بنتا جارہا ہے

 شیخ میرزا علی

گلگت  بلتستان نے تقسیم بر صغیر اور قیام پاکستان کے لگ بھگ تین مہینوں بعد از خود آزادی کی تحریک اٹھی مختصر ترین دورانیہ یکم نومبر 1947سے اگست 1948تک کسی زمانے میں صوبہ لداخ کہا جانے والے علاقوں میں چند آبادیوں کے علاوہ ڈوگروں سے آزاد کرواکر مہاراجہ کشمیر کی ریاست سے علیحدگی کے اعلان کے ساتھ الحاق بھارت جیسے گناہ سے پاک کرکے آزادی کو حقیقی روپ دیا جو گلگت اور  بلتستان کے نام سے جاننے جانے والے ریاستوں کی پیدائشی شناخت رہی ہے۔ اگر تاریخ کے گذشتہ اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو جن علاقوں میں بلتی ، شینا اور بروشسکی بولی جاتی ہے یہاں بھی دنیا کے بقیہ خطوں کے مانند مختلف جہتوں کے نشیب و فراز ، حکمرانی کی مست طوفانی لہروں اور اردگرد کی ریاستوں میں زبردستی شمولیت اور آزادی کے ادوار سے گزرتا رہا ہے ان ادوار میں فطرت کا عنصر غالب رہا اور طاقت کی حکمرانی رہی اندرونی طاقت کا غلبہ جب تک رہا استقلال و پائیداری مقدر بنی یامقبوضہ صورت سے آزادی کا پیش خیمہ بنتا رہا جب کبھی بیرونی طاقت کا غلبہ کارگر ہوابیرونی غالب طاقت نے مفتوحہ علاقوں کے مانند اپنے نقوش بکھیرنے کی بھر پور کوشش کی مگراس حوالے سے تاریخ میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملتے ہیںکہ بیرونی طاقتوں کی ان خطوں میں رسائی نے نقوش چھوڑے ہوں ماسوائے 1848کی یورش کے جب گلگت  بلتستان میں موجود ریاستوں میں بیشتر علاقوں میں ریاستوں کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ گلگت  بلتستان کی تاریخ میں کسی دراندازی کرنے والی بیرونی طاقتوں کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی مقامی لوگوں نے ایسی طاقتوں کو تسلیم کیا کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر حملہ کرنے اور تسلط حاصل کرنے کا نتیجہ فطری طور پرپوری انسانیت اور دنیا کی تاریخ میں بغاوت کی صورت میں ہی نکلا ہے۔ اگر گلگت  بلتستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک مرحلہ ایسا بھی ہے جس کو عوام نے دل و جان سے قبول بھی کیا اور سر تسلیم خم بھی کیا ہے وہ دو قومی نظریہ کا اصولی موقف ہے جب یہ نظریہ غیر منقسم ہندوستان میں ستم رسیدہ لوگوں میں مقبول ہونے لگا اور مسلمانوں میں پاکستان کے قیام کی جدوجہد تیز ہونے لگی جو بالآخر 14اگست 1947کو پاکستان کے قیام اور آزاد ریاست کے طور دنیا کے نقشہ پر جلو گر ہوا تو دو قومی نظریہ کے اثرات گلگت بلتستان تک بھی پہنچ چکے تھے ۔جذبہ اسلام سے سرشار خطہ کے مجاہدین (گلگت اسکائوٹس) نے عوام کی مدد سے آزادی حاصل کی اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی اور ریاست نے باقاعدہ طور پر قومی راہنمائوں کی سربراہی میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اسلامی ملک کا انتخاب کیا اور نو تشکیل شدہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے انتظام سنبھالنے کی دعوت دی جو 74سال گزر جانے کے باوجود اب تک صرف انتظام سنبھال رہی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اقوام متحدہ میں گلگت  بلتستان کی وکالت کی جاتی تمام رکاوٹوں کو دور کیا جاتا یا آئینی گنجائش نکالتے ہوئے ملک کا باقاعدہ آئینی حصہ قرار دیا جاتااور اہم ترین خطہ کو آئینی تحفظ دیا جاتا۔گلگت  بلتستان کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت اظہار وجوہ کے ایک کیس میں سابق چیف جج سپریم اپلیٹ کورٹ گلگت  بلتستان کی جانب سے جمع کردہ تحریری جواب پڑھنے کے بعد خطہ کے عوام پر سکتہ طاری ہے کیونکہ جی بی کے عوام کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم ایسے خطہ کے باسی ہیں جو نہ ملک کی آئینی حدود میں آتا ہے اور نہ ہی ملکی قانون یہاں نافذ ہے اگر چہ کسی وقت ایسی سوچ پائی بھی جاتی تھی لیکن وفاقی سطح کے گلگت  بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے حوالے سے اقدامات کا ذکر والے بیانات ، 2009 سے جاری اصلاحات ، پیکیج، آرڈرز اور صدور مملکت کی کئی سالوں سے سالانہ بنیادوں پر غیر سرکاری دورے ، چیف جسٹس آف پاکستان سمیت عدلیہ کے اہم ترین فاضل ججوں کا جی بی کی عدالتوں کے دورے اور کانفرنسوں کے انعقاد ، وزرائے اعظم کی جانب سے حقوق دینے کی تسلیاں اور موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے عبوری کے لفظ کے اضافہ کے ساتھ یقین دہانی کرانے ، پاک چین راہداری کے آغاز اور حکومت پاکستان کی جانب سے قومی و بین الاقوامی فورمز پر عالمی اقتصادی منصوبہ کے دفاع میں تبصروں اور دعوئوں اور بالخصوص بھارت کی جانب سے گلگت  بلتستان کے حوالے سے کیے جانے والی زہریلے اور منفی پروپیگنڈوں کو حکومتی سطح پر دئے جانے والے جوابات سے یہ سوچ معدوم ہو چکی تھی کہ گلگت  بلتستان کے ملک کے آئین کے زمرے اور قومی دھارے میں شمولیت کے حوالے سے اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے لیکن عدالتی زبان میں ملک کی عدالت میں سابق چیف جج جی بی کی جانب سے جمع کیے جانے والے تحریری جواب نے ان تمام خوش فہمیوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں کہ جس کے بعد کسی بھی حکومتی یا جماعتی سطح پر دئے جانے والے بیانات اور دعوئوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ہے۔شاید اسی پہلو کا ادراک کرتے ہوئے موجودہ بر سر اقتدار جماعت وزیر اعظم کے ممکنہ دورہ سکردو کو کامیاب بنانے کیلئے تمام سرکاری وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور خالصتا جماعتی مقبولیت کے اظہار کیلئے پوری سرکاری مشینری متحرک ہو چکی ہے حالانکہ سابق چیف جج جی بی کے بیان کے منظر عام پر آنے پرموجودہ صوبائی کابینہ پر مکمل خاموشی طاری رہی جس کی امید اس لئے نہیں تھی کہ اسی جماعت کے آئینی حیثیت کے حوالے سے اب بھی بلند و بانگ دعوے ہیں۔اگر چہ ہرحکمران جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قائد کا پرتپاک استقبال کریں ان کے جلسہ کو کامیاب بنائیں لیکن بحیثیت چیف ایگزیکٹیو وزیر اعلیٰ جی بی بنیادی ذمہ داری تھی کہ سابق چیف جج کے بیان کے حوالے سے گلگت  بلتستان کے عوام کا موقف پیش کریں ۔ایسے حالات میں خطہ کے عوام کس طرح وزیر اعظم سے امیدیں وابستہ رکھ سکتے ہیں کہ خان صاحب اپنے دورہ گلگت  بلتستان 2019اور2020کے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکیں گے ۔گلگت  بلتستان کے حوالے سے سابق چیف جج سپریم اپیلیٹ کورٹ کے تحریری بیان نے جہاںگلگت  بلتستان کے محب وطن عوام جو گزشتہ 74سالوں سے قومی دھارے میں شامل ہونے کے انتظار میں ہیں کو سخت مایوس کیا ہے وہیں پر خطہ میں موجود بہت سے اداروں کے وجود اور حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھا دئے ہیںجن کا تسلی بخش جواب دینا وفاقی حکومت بالخصوص صوبائی حکومت کے کندھوں پر فرض اور قرض ہے لیکن سابقہ تجربات کی روشنی میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ اگر گلگت  بلتستان ملک کے آئینی دائرہ میں نہیں آتا اور قانون لاگو نہیں ہوتا ہے تو چین کے ساتھ 1962کے معاہدہ کی حیثیت کیا ہو گی 1972میں خطہ میں موجود ریاستوں کے خاتمہ کی حیثیت کیا ہو گی۔ جب 1977میں ملک میں مارشل لاء نافذ کیا گیا تو گلگت  بلتستان میں کس قانون کے تحت مارشل لاء کا ای زون قرار دیا گیا ملک میں نافذ تمام پلان ، قوانین ، دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بنائے گئے قوانین یا کورٹ کا دائرہ جی بی تک کس قانون کے تحت پھیلایا گیا ، خالصہ سرکار کا اطلاق کس قانون کے تحت کیا جارہا ہے۔ لینڈ ریفارمز کمیشن کی حیثیت کیا ہو گی ، پاک چین راہداری میں ہونے والے معاہدوں میں گلگت  بلتستان سے گزرنے والا سی پیک کس قانون کے تحت شامل کیا گیا اور ان جیسے کئی سوالات کا تسلی بخش جواب کون دے گا اور جواب کیا ہو گا؟ یا سابق چیف جج نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے گلگت  بلتستان کی بے آئینی کا سہارا لیا ہے جو خطہ ایک معمہ بنتا جا رہا ہے جس کا حل کسی جماعت اور کسی حکومت کے پاس نہیں ہے ریاست بھی خود کو اس معاملہ میں جواب دہ نہیں سمجھتی ہے۔(جاری ہے )