ڈاکٹر سلیم خان
یعنی پلاننگ کمیشن کا نیا چہرہ نے اپنی تازہ رپورٹ میں چونکانے والے انکشافات کیے ہیں ۔ مذکورہ ادارے کی بنیادی ذمہ داری منصوبہ بنانا اور اس کا جائزہ پیش کرنا ہے۔ اپنے اس کام کو اس نے کیا لیکن ٹائمنگ وقت غلط ہوگیا ۔کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والے ٹائمنگ کی اہمیت سے خوب واقف ہیں ۔ اسی ٹائمنگ کی بدولت کوئی گیند پالے سے باہر جاکر سکسر بن جاتی ہے اور یہی کسی کھلاڑی کوآئوٹ کرکے میدان سے باہر پویلین میں بھی بھیج دیتی ہے۔ اس رپورٹ سے جو نقصان ہوا ہے اگر اس کا اندازہ مودی اور یوگی کو ہوجائے تو بعید نہیں کہ اس کا نائب چیرمین راجیو کمار ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ اتر پردیش کے انتخابات سے قبل وزیر اعظم ہر ہفتہ بلکہ کبھی تو ہفتے میں دوبار ریاست کا دورہ فرما کر کسی نہ کسی سرکاری پروجکٹ کا افتتاح کرتے ہیں یا سنگ بنیاد رکھ آتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یوپی میں وکاس کی گنگا بہہ رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یوپی نمبر ون کا غلغلہ ہے ۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ غریب مسکین لوگ اسی صوبے میں رہتے بستے ہیں۔ اس سچائی کی پردہ پوشی کے لیے اشتہار بازی کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ حکمراں جماعت کی مجبوری ہے۔اس تمہید کے بعد نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غربت انڈیکس پر ایک نگاہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے وکاس پوروش کہلانے والے نتیش کمار کے بہار میں غریبوں کی فیصدی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بہار سے الگ ہونے والے جھارکھنڈ اور پھر اترپردیش کا نمبر آتا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق بہار کی 51.91 فیصد آبادی غریب ہے، اس کے بعد جھارکھنڈ میں 42.16 فیصداور یوپی میں 37.79 فیصد لوگ غریب ہیں۔ چوتھا نمبر مدھیہ پردیش کا ہے جہاں غریبوں کا فیصد 36.65اور پھر میگھالیہ آتا جہاں 32.67فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ ان پانچ میں سے چار کے اندر بی جے پی یا اس کے حلیف برسرِ اقتدار ہیں یعنی کہیں بی جے پی کی واحد اکثریتی حکومت ہے یا کہیں مخلوط سرکارہے۔آبادی میں فیصد کے بجائے غریبوں کی تعداد کو دیکھیں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق یو پی کی آبادی 19.98 کروڑ ہے اور اس کی 37.79 فیصد یعنی 7.55 کروڑ لوگ غریب ہیں جبکہ بہار کی آبادی 10.4 کروڑ ہے اس لیے وہاں صرف 5.4 کروڑ آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس طرح اترپردیش پہلے نمبر پر آجاتا ہے اور اشتہار بازی سے بنا گیا مایا جال تہس نہس ہوجاتا ہے۔یہ رپورٹ تین مشترکہ جہت صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو پیش نظر رکھ کر تیار کی گئی ہے۔ اس میں غذائیت، بچوں اور نوعمر بچوں کی شرح اموات قبل از پیدائش زچہ کی دیکھ بھال، اسکول میں حاضری، گھریلو ایندھن، صفائی، پینے کا پانی، بجلی، رہائش، املاک اور بینک کھاتے جیسے 12 اشاریوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس کے مطابق غربت کا قومی اوسط25.01 فیصد بنتا ہے مگر ریاستوں کی صورتحال قدرے درست تصویر پیش کرتی ہے۔ اسی طرح اگر ضلعی سطح پر جائیں تو اترپردیش کے تین ضلعوں میں غربت 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ ضلع شراوستی میں یہ فیصد74.38 ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بہرائچ 71.88 فیصد پر ہے اورپھر بلرام پور آتا ہے جہاں یہ تناسب 69.45 فیصد ہے۔ راجدھانی لکھنئو میں غریب سب سے کم اور اس سے سٹے کانپور کا بھی یہی حال ہے ۔ اسی طرح دہلی سے لگے غازی آباد میں غربت کی شرح کم ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں سیاستداں رہتے بستے ہیں وہاں غربت کم ہوجاتی ہے اور دور دراز کے علاقے نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ اترپردیش کے علاوہ بہار میں پانچ غریب ترین ضلع ہیں اور مدھیہ پردیش میں دو اس طرح ملک کے دس مفلس ترین اضلاع جہاں 60فیصد سے زیادہ غربت ہے، بی جے پی اور اس کے حلیف کی ریاستوں میں واقع ہیں ۔اقتدار سنبھالنے کے بعد یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی نے پلاننگ کمیشن کے خاتمہ کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ اس کی جگہ نئے ہندوستان کے عزائم اور ضرورتوں کا احاطہ کرنیوالانیتی آیوگ قائم کیا جائے گا۔ اس نئے ادارے کے تعلق سے جو شکوک و شبہات تھے ان کو دور کرنے کے لیے بتایا گیا کہ یہ حکمرانی اور پا لیسی سازی کے نئے چیلنجوں کامقابلہ کرے گا۔ آئین ہند کے بنیادی اصولوں ، تہذیبی تاریخ کے علم اور موجودہ سما جی، ثقافتی اور معاشی تناظر میں پالیسی وضع کریگا تاکہ اس سے نیا ماحول بنے اور بے مثال تبدیلیاں نمو دار ہوں ۔ اس پالیسی ساز ادارے کی تشکیل سے قبل وزرائے اعلی اور ما ہرین معاشیات سے وسیع پیمانے پر صلا ح و مشورہ کیا گیا ۔نیتی آیوگ کے تحت حکمرانی میں بہتری کی شرط ِ اول عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنا نا قرار دیا گیا ۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ دنیا کی بہتر چیزوں کو قبول کیے بغیر ہندوستان میں کو ئی تبدیلی نہیں آ سکتی نیز ترقی کے لئے اپنی حکمت عملی تلا ش کر نے کی ذمہ داری نیتی آیوگ کو سونپی گئی ۔ اس کے ساتھ تمام سطحوں پر عوامی شراکت کے ذریعہ خدمات کی فراہمی کو بہتر بنا نے پر زور دیا گیا ۔ اس کے مقاصد کے حصول کی خاطر شہریوں کی شمولیت کو یقینی بنا کر حکومت کو صاف شفاف اور جوابدہ بنا نے کے لئے ٹیکنا لوجی کا استعمال کی بات کی گئی ۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اقتصادی محاذ کے امور شا مل کیا گیا نیز قومی و بین الاقوامی ما ہرین ، پیشہ وروں کے اشتراک سے معلومات مجتمع کرنے اور اسے جدت پسندی کے ساتھ پالیسی سازی کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔نیتی آیوگ نے مذکورہ بالا خطوط کی روشنی میں نہایت معروضی طریقہ پر حقیقت حال کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ تیار کی مگر اس کو ایسے وقت میں پیش کردیا گیا جس سے حقیقت حال کھل کر سامنے آگئی اور جھوٹ پھیلانے کا سرکاری منصوبہ زمین بوس ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں قوم کے سامنے تو آئینہ آگیا لیکن اس میں یوگی اور مودی کے کریہہ عکس دیکھ کر ان دونوں کو بہت غصہ آیا ہوگا۔ نیتی آیوگ سے یہ غلطی دوسری بار ہوئی ہے۔ پچھلے سال بہار اسمبلی انتخاب سے قبل اس نے رپورٹ شائع کرکے بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کردی تھیں ۔ اس بات یوپی الیکشن کی تیاری کے دورن یہ رپورٹ آگئی ہے۔ مودی جی نیاس وقت سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ نیا ادارہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے گا جو ان کے سیاسی مفادات سے متصادم لیکن ایسا ہورہا ہے اس لیے بعید نہیں کہ جلد ہی اس کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے کیونکہ سرکاری خزانے کا استعمال حکومت کے خلاف ہو یہ بی جے پی کے لیے جلد یا بدیر ناقابلِ قبول ہوجائے گا۔وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کرنے والے نیتی آیوگ نے گزشتہ سال پائیدار ترقیاتی ہدف 2019-20 رپورٹ الیکشن سے قبل جاری کردی تھی۔ اس میں 62 نکات کی کسوٹی پر ملک کی 28ریاستوں کا جائزہ پیش کیا تو بہار کو انتہائی پسماندہ پایا گیا تھا ۔ اس وقت کانگریس نے اسے نتیش کمار کے لیے وزیر اعظم مودی کا تحفہ قرار دیا تھا ۔ کانگریس نے اس بے حد شرمناک اور تکلیف دہ نتائج کے سبب بہار حکومت کو پھسڈی کہا تھا کیونکہ تقریبا سبھی پیمانوں میں نتیش بابو کی قیادت ناکام ثابت ہوئی تھی۔اس وقت بھی بہار ہندوستان میں سب سے زیادہ غریب ریاست تھا اور اب بھی ہے لیکن حالت مزید دگرگوں ہوگئی ہے۔ پچھلے سال بہار کی 33.74 فیصد آبادی غریبی خط کے نیچے تھی اس سال یہ تناسب بڑھ کر 51.91 فیصد ہوگیا ہے۔ ایک سال قبل حزب اختلاف کو جس طرح بہار سرکار پر تنقید کا موقع ملا تھا اس بار یوگی خلاف مل گیا ہے۔نتیش کمار نے تو خیر اس بار نیتی آیوگ کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا مگر بہار کے صوبائی وزیرِ توانائی بجیندر پرساد یادو اور بی جے پی کے ترجمان رنجن پٹیل نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر زمینی حقیقت کے خلاف بتادیا۔ ان احمقوں کو یہ نہیں معلوم کہ اس ادارے کا سربراہ ان کی اپنی پارٹی کا وزیراعظم ہے۔ یہ رپورٹ اگر جھوٹی ہے تو اس پر مہر لگانے اور اس کو پھیلانے کے لیے مودی جی ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔ بہار کی اس حالت غیر کی کئی وجوہات سامنے آئی تھیں مثلا وہاں ملک میں سب سے کم تربیت یافتہ سکول کے اساتذہ تھے ۔ بارہویں درجہ میں اسکول ڈراپ آئوٹ یعنی تعلیم چھوڑ دینے والے طلباکی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اعلی تعلیم میں دوسرے صوبوں کی بہ نسبت سب سے کم طلبا داخلہ لیتے تھے۔ مودی جی کے پسندیدہ شعبے یعنی اسکولوں میں طالبات کے لیے بیت الخلا کی موجودگی معاملہ میں بھی بہار آخری پائیدان پر تھا ۔ اس چشم کشا رپورٹ کے بعد ایک سال بیت گیا لیکن کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ نہ تو نتیش کی سرکار بدلی اور نہ بہار بدلا ۔ وہ تو غربت کے آخری پائیدان پر جما رہا ۔تعلیم کے علاوہ روزگار کے شعبے میں بھی بہار کا برا حال ہے۔ منریگا کے تحت محنت کش مزدوروں کو سب سے کم کام بہار میں ملتا ہے ۔ بہار میں بینکوں کی سہولت اور رسائی بھی سب سے کم ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا و ایل پی جی گیس استعمال کے معاملے میں بھی بہار سب سے پسماندہ ہے۔ لالو پرساد یادو نے الزام لگایا ہے کہ نتیش جی نے ان کے ذریعہ تعمیر کردہ ہزاروں طبی مراکز بند کردیئے اور اسکولوں کو گیرج میں تبدیل کردیا۔ اس کے سبب نام نہاد ڈبل انجن (حکومت)بہاریوں کے لیے پریشانی کاانجن بن گیا ۔اس بار وہ بولے پچھلے 16 سالوں میں کوئی قابلِ ذکر ترقی نہیں ہوئی ۔ اس کے برعکس کیرالہ کو دیکھیں تو وہاں جملہ 14 ضلعوں میں سے غربت ایک فیصد سے کم ہے اور کوٹائم میں تو ایک بھی فرد غریب نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر عوام کو فرقہ وارانہ مسائل میں الجھا کر نااہل لوگ اقتدار پر قابض ہوجائیں تو عوام کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے؟ہر صوبے کا سیاستداں یکساں عیش کرتا ہے بلکہ بدحال ریاستوں کے رہنمائوں کے پاس ممکن ہے دھن دولت کی ریل پیل زیادہ ہوتی ہو لیکن عوام کو غربت کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔ ملک کے عوام کو جب یہ کھیل سمجھ میں آجائے گا ان کی قسمت کا ستارہ چمکنے لگے گا ورنہ بعید نہیں کہ کیرالہ جیسے ترقی یافتہ صوبے کو بھی یہ زعفرانی انقلاب تاریکی کے اندھیرے میں دھکیل دے اور کیرالہ کے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوجائے کہ
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو