پرنس کریم اور وحدتِ انسانی

غلام قادر بیگ
 ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان ایک روشن وژن کے ساتھ شروع سے اس کوشش میں ہیں کہ اسلام کے باطنی ورثہ اورمغرب کے سائنسی انکشافات کی دونوں طاقتوں کو یکجا کرکے دنیا کو امن وخوشحالی کا گہوارہ اور وحدتِ انسانی کا نمونہ بنایا جائے تاکہ عالمِ انسانیت تہذیبوں کے مابین ٹکرائو کی نفرت، باہمی جنگ و جدل کے شعلوں اور جہالت و نادانی اور غربت و افلاس سے نجات پا کر باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے ثمرات سے فیضیاب ہو سکے ،و حدتِ انسانی کا تصوّر قرآنی اصطلاح ''امّتِ واحدہ'' ( سورہ بقرہ،٢:٢١٣)سے نکلا ہے ، وحدتِ انسانی کے تصوّر کوسمجھنے کے لئے ہر کوئی عالمِ خیال میں ایک فکری تجربہ کر سکتا ہے ، مثال کے طور پر کوئی فرد اپنی نسل کوریوائنڈ(Rewind) کرتا جائے ،نتیجتاً وہ اپنے آئینہ خیال میںحضرت آدم و حوا کے روبرو ہوگا، جن کو دنیا کی زبان میں ہم قدیم دادا اوردادی کہہ سکتے ہیں، یوں زمان و مکان کے حجابات کو ہٹانے سے ایک عالمگیر گھرانہ اورخاندان کا تصور سامنے آئے گا جس کے بارے میں سرورِ ِ کونین ۖنے فرمایا کہ'' الخلق ُعِیال ُاللہ ''(تمام مخلوق گویا ربّ کا کُنبہ ہے )،اس حکمت بھرے ارشادِ نبوی کے تحت اس آفاقی گھر کے افراد کے مابین زبانوں،نسلوں اور نظریات کی گونا گونی کے باوجود دورِ آدم کی طرح محبت، رواداری اور ہم آہنگی قائم ہو سکتی ہے ،سوچنے کا مقام ہے کہ ابنِ آدم ہوتے ہوئے ہم آپس میں نفرت، دشمنی اورباہمی جنگ و جدل کی قیامت کیسے برپا کر سکتے ہیں ،انسانیت کو باہمی نفرت اورہر قسم کے امتیازات سے پاک کرنے کے لئے ہزہائنس نے فرمایا کہ''Diversity is strenghth'' ( انسانیت میں   رنگ و نسل اور نظریات کی گوناگونی کمزوری نہیں بلکہ  طاقت ہے)، مگر اس حکیمانہ تصور پر فوری عملدر آمد آسان نہیں،اسکے لئے وحدتِ انسانی کی آفاقی سچائی پر یقین رکھنے والی عالمی طاقتوںاور اداروں کے مابین تعاون اورمنظّم جدوجہد کی ضرورت ہے، آپ کا فرمانا ہے کہ جب مادی پُل زمینی مقامات کو جوڑکر رابطوں کو فروغ دیتا ہے، تو انسان کو بھی زندہ پُل بن کر خاندانوں، انسانی حلقوں اور قوموں کو فکری اور عملی طور پر جوڑنا چاہئے، اسی سے دنیا میں جوہری تبدیلی آئے گی ، دیکھا جائے تو ہز ہائنس غریب اور امیر ، پسماندہ اور ترقی یافتہ اقوام ، ، مشرق اور مغرب اور اسلام اور دیگر ادیان کے مابین ایک زندہ  پُل بن کر کا م کر رہے ہیں ، اس مقصد کے لئے ہز ہائنس سیاست، معیشت اور عسکریت سے بلند ہو کر صرف علم،حکمت ،رواداری ، ڈائیلاگ اورمثبت ڈپلومیسی کی طاقت سے اس خوش گوار تصوّر کو آگے بڑھا رہے ہیں،آپ نے دہائیوں پر محیط جنگ سے متاثرہ افغانستان کے لوگوں سے فرمایا کہ''Use your tongue instead of gun to resolve issues ''(اپنے مسائل کے حل کے لئے زبان(دلیل۔منطق) کو استعمال میں لائیں نہ کہ بندوق کو''۔قرآنِ پاک میں بھی جذبات کی بجائے عقل،تفکر اور برداشت پر زور دینے کی تعلیم ملتی ہیپرنس کریم آغا خان نے وحدتِ انسانی کے فروغ اور انسانی حلقوںمیںپائیدار ہم آہنگی کیلئے (Pluralism)'' تکثیریت '' کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے کینیڈا دنیا میںمنفرد ملک ہے، جو رنگ و نسل اور جذباتی نظریات سے بلند ہو کر وحدتِ انسانی اورتکثیریت کے بنیادی اصول پر عمل پیرا ہے، جب ہم اپنے معاشرہ کا تجزیہ کرتے ہیں تو سیالکوٹ کا حالیہ سانحہ ایک آئینہ اور لمحۂ فکریہ ہے، جس میں ہم اپنے کردار کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم اسلام کے بنیادی اصولوں،رواداری اور برداشت کی اقدار سے کس قدر دور ہو گئے ہیں ۔ملک میں عدم برداشت کی پھیلی ہوئی کیفیت کی حوصلہ شکنی کر نے کے لئے مہم کاآغاز ماں کی گود اورتعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت اور نصاب میں انسانیت کی عزّت و احترام سے متعلق مواد کی شمولیت جیسے اقدامات سے کر سکتے ہیں تاکہ دوسروںکے خیالات اور نظریات کے احترام کے کلچر کو فروغ دینے میں مدد مل سکے۔پاکستان کے لئے ہز ہائنس کی اور آپ کے خاندان کی خدمات بے شمار ہیں،آپ کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغاخان کا شمار پاکستان کے بانیوں میں ہوتا ہے، کہ برِ صغیر کی مسلم قیادت نے ١٩٠٦ء میںآل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر کی پگڑی آپ کے سر پر رکھی، سر سلطان آغا خان نے شملہ وفد کی قیادت میں وائسرائے ہند سے مسلمانوں کے لئے پہلی بار جداگانہ انتخابات کا حق منظور کرایا، جس نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پرمسلمانوں کے لئے الگ وطن(پاکستان) کے حصول کے لئے سیاسی شعور بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، علیگڑھ میں پہلی مسلم یونورسٹی کی بنیاد آپ نے رکھی، پاکستان نے سلطنتِ اومان(Oman Kingdom ) سے گوادر کا علاقہ خریدنے کا فیصلہ کیاتو نوزائیدہ مملکت کے پاس فارن ایکسچینج نہیں تھا ایسے میں پرنس کریم آغا خان نے اس انتہائی اہم سودے کو کسی بیرونی سازش کا شکار ہونے سے بچاتے ہوئے اس علاقہ کی قیمت فی سبیل اللہ ادا کی اور اسے پاکستان کے حوالہ کیا ، آج گوادر کی عظیم بندرگاہ پاکستان کے لئے گیم چینجر ((Game Changerہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی طورپرمستحکم،خود کفیل اورعلم و ہنر میں تابان و درخشان پاکستان کی علامت ہے، ایٹمی دھماکہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان کو ایک سازش کے تحت اقتصادی تنہائی کا شکار کیا گیا اور ورلڈ بنک سمیت کوئی بین الاقوامی ادارہ پاکستان کو امداد یا قرضہ دینے کے لئے تیّار نہ تھا، ایسے میں ہز ہائنس نے اپنی خاندانی روایت کو جاری رکھتے ہوئے عالمی اداروں کو مالی ضمانت فراہم کی اور پاکستان کو اُس مشکل مرحلے سے باہر نکالا ، یہ ہز ہائنس کی پاکستان سے گہری محبت اور وابستگی کا بیّن ثبوت ہے ۔ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان اسماعیلی مسلمانوں کے انچاسواں (٤٩) روحانی پیشوا ہیں، آپ رسولِ اکرم  ٰۖ کی دخترپاک حضرت فاطمہ اور مولاعلی سے جاری نسل سے موروثی امام ہیں، امامت کا مرکز مصر سے ایران منتقل ہوا، تو کئی صدیوں بعد چھیالیسواںامام حسن علی شاہ آغاخان (اوّل) وہاں سے برِ صغیر آکربمبئی میں مقیم ہوگئے اوراُن کے عظیم پوتے سر سلطان محمد شاہ آغا خان اور پرنس کریم آغا خان دنیا میں قیامِ امن، اسلامی نشاةِ ثانیہ اور انسانی ترقی کے لئے سرگرم ہیں۔عالمی سطح پر محیط آپ کا ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک انسانیت کی بلا امتیازمادی وروحانی ترقی کے لئے خلوص کے ساتھ سرگرم ہے، آپ جس ترقیاتی منصوبے کا بھی آغاز کرتے ہیں، وہ ربِّ جلیل کی تائید سے کامیاب ہو کر مشرق و مغرب کے دونوں مقامات پر عالمی اور علاقائی اداروںکے لئے قابلِ تقلید ماڈل بن جاتا ہے آپ نے دنیا سے غربت و ناخواندگی کے خاتمہ اور پائیدارترقی کے لئے ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کو گلوبل سطح پر متحرک کیا ہے ، اقوام متحدہ اور دوسری عالمی ترقیاتی ایجنسیوں نے اس نیٹ ورک کو Trend maker   (رجحان ساز ادارہ (قرار دیا ہے اور منصوبوں کے انتخاب، اہداف اور عملدر آمد کیلئے اس ادارے سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، جوبلیوں سے حاصل ہونے والی رقومات سے کمیونٹی اور دیگر لوگوں کی فلاح کے لئے شعبہ تعلیم وصحت اور ترقی کے دوسرے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے ، اس پروگرام کے تحت ١٩٤٦ء میں پہلی بارگلگت،ہونزہ،غذر اور چترال میں ڈی جے اسکولز کاجال بچھایا گیا ،جس سے لوگ ناخواندگی اور جہالت کی مردگی سے زندہ ہو کر تعلیم اوردینی شعور کی دولت سے مالا مال ہو گئے ۔