جو بادہ کش ہیں پرانے

محمد علی عزیزی

نگہ بلند، سخن دلنواز،جان پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے

اقبال کا یہ بلند پایہ شعرطول تاریخ میں جن بڑے انسانوں کی قامت زیبا پرپورا اترتا ہے، بلاشک و شبہ، مرحوم غلام حسین سلیم صاحب بھی ان میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں فہم و فراست، عقل سلیم، جوش وجذبہ ایمانی، خلوص و پاکیزگی اوربلندی فکر کے ساتھ صفائے قلب کی جو خوبیاں عطا کی تھیں، ان پر مغرور ہونے کے بجائے وہ نہایت تواضع اور فروتنی کے ساتھ زندگی بھرعلماء حق کے زیر سرپرستی اپنی اجتماعی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس لحاظ سے وہ خط امام خمینی کے ایک مخلص پیروکار تھے۔ ان کے کردارکا یہی رخ میرے خیال میں ان کا طرہ امتیاز تھا اور گلگت بلتستان کے مومنین کے علاوہ پورے پاکستان کے مومنین کیلئے ان کے کردار کے اس پہلومیں ایک عظیم درس پوشیدہ ہے۔ اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کی۔ لیکن ان کا یہ فیصلہ بھی ان کا اپنا ذاتی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس وقت کے گلگت بلتستان کے علماء کرام خاص طور سے قائد شمالی علاقہ جات مرحوم شیخ غلام محمد الغروی کی سربراہی میں ان کے ہمرکاب تھا۔ اس کے بعد جب تحریک جعفریہ پاکستان سیاسی میدان میں اتری اورعلماء کرام نے اس جماعت کی تائید کی تو مرحوم سلیم صاحب نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوکرعلماء کرام کی اس پارٹی میں شمولیت اختیارکی، اورجلد ہی اس کے انتہائی فعال، موثراور صف اول کے قائدین میں شمارہونے لگے اورجب الیکشن لڑکرشمالی علاقہ جات کی لیجسلیٹیوکونسل کے ممبر بنے توانہوں نے اس وقت بھی علماء کرام سے اپنی وابستگی میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی اور اسمبلی کے چند ایسے رہنما جو نظریہ ضرورت کے تحت تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑکر ممبر بنے تھے، ان کوبھی تحریک کے نصب العین اور علماء  کے ساتھ وابستگی کو مضبوط کرنے کیلئے مائل کرتے رہے۔بدقسمتی سے اس دوران ایک  تنظیم اندرونی اور بیرون ملک دشمن عناصر کے تعاون سے اس حد تک مضبوط ہوچکی تھی کہ وہ آسانی سے ہر شیعہ قائد، عالم، پروفیشنل اور اچھے کاروباری حضرات کوایک ایک کرکے قتل کررہے تھے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں ان کی طرف سے ایک خوف و دہشت کی فضا طاری کی گئی تھی، لیکن ان انتہائی خوفناک اور اعصاب شکن لمحات میں بھی سلیم صاحب نے ایک لمحے کیلئے بھی تحریک اور علماء سے اپنی سیاسی لائن الگ کرنے کیلئے نہیں سوچا۔ نہ صرف یہی، بلکہ ملکی سطح پر نہایت بے خوفی اور دلیری سے ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ خاص طور پر شمالی علاقہ جات پر اس تنظیم کے انسانیت دشمن اثر و نفوذ کو ختم کرنے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہے۔شمالی علاقہ جات کے عوام کے آئینی حقوق پچھلے ستر سالوں میں پک کر اب ایک ناسور بن چکا ہے۔ مرحوم سلیم صاحب اپنی عنفوان جوانی کے دنوں میں جب وہ سکردو ڈگری کالج میں لیکچرار کے عہدے پرتدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، قوم کے اس دکھ کا احساس کیا، اوراپنی خطابت اور تدریس کے کاموں کے ساتھ اس مقصد کے حصول کیلئے ایک ہمہ جہت تحریک شروع کی۔ ان کا یہ کردار بہت سارے سرکاری اور سیاسی کرداروں کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا تھا، اس لئے انہوں نے ان کے راستے میں کانٹے بونے شروع کئے۔ سلیم صاحب نے جب محسوس کیا کہ سرکاری نوکری ان کی ملی ذمہ داری کی ادائیگی میں حائل ہورہی ہے توانہوں نے استعفی دے دیا اور پوری تندہی سے علماء کرام کی سربراہی میں شمالی علاقوں کے عوام کے آئینی حقوق کی بازیابی کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ اس زمانے کے کمشنر گلگت بلتستان اجلال حیدرزیدی صاحب نے اس وقت کے وزیر تعلیم عبدالحفیظ پرزادہ صاحب کے ذریعے انہیں مصر کے جامعہ الازہر میں پی ایچ ڈی میں داخلہ دلاکرمفت تعلیم کی پیشکش کی تھی، تاکہ وہ شمالی علاقہ جات کے آئینی حقوق کے مسئلے سے دست برداست ہوسکیں۔ لیکن انہوں نے اس پیش کش کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا، جس کی پاداش میں انہیں کچھ عرصہ قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن نہ لالچ ان کے پائے استقامت کوڈگمگا سکا، نہ خوف ان کے عزم وہمت کو لرزہ سکا۔ البتہ ان کے اس انمول کردار سے خائف ہوکر سرکاری ادارے ان کا پیچھا کرتے رہے، اوربرملا انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکی دیتے رہے۔ اوریوں وہ ان کو سیاسی طور پر جتنا نقصان پہنچاسکتے تھے پہنچاتے رہے۔ تاریخ اور قوم کے واقفان حال گواہ ہیں کہ انہوں نے ان تمام مشکلات کو صبر و تحمل اور عزم و ہمت کے ساتھ نہ صرف برداشت کیا، بلکہ ان کی قوم میں پھوٹ ڈال کراوران پر لالچ اورخوف کے ہتھکنڈے استعمال کرکے صحیح اہداف سے منحرف کرانے اوراسی قسم کے دیگر منفی حرکتوں کا حتی الامکان دو بدو جواب دیتے رہے۔جب تحریک جعفریہ پر حکومت کی طرف سے پابندی لگائی گئی، تو علماء کرام کے کہنے پر انہوں نے پہلے قاف لیگ اور بعد میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں کہ وہ تحریک جعفریہ کے بعد کسی دیگر سیاسی پارٹی میں شمولیت کیلئے بالکل تیار نہیں تھے۔ لیکن علماء کرام کے یہ فرمانے پر کہ وقت کی سیاسی طاقت کے ساتھ اگر آپ جیسی شخصیت کہ جن کی فہم و فراست اور دیانت وایمان داری پر ہمارا غیر متزلزل ایمان ہے، شامل ہوجائیں تو قوم و ملت کو ممکنہ نقصانات سے بچانا ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لئے انہوں نے علی ابن یقطین کے ہاروں الرشید کی وزارت قبول کرنے کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قاف لیگ اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اور علماء کرام اور قوم کا دانشور طبقہ گواہ ہے کہ انہوں نے ان دونوں حکومتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ملک و ملت کے مفادات کے تحفظ کیلئے اپنی بھرپور کاوشیں جاری رکھیں۔ تفصیلات کا افشاء قومی مفادات کے منافی ہے۔آج غلام حسین سلیم صاحب جسے مذہبی طبقہ شیخ سلیم، عوام الناس مولوی سلیم، دانشور طبقہ پروفیسرسلیم اوران کے عزیز و اقارب اورہم جیسے قریبی دوست احباب مولانا صاحب کے القابات سے یاد کرتے تھے ہم میں نہیں رہے۔ یہ جملہ لکھتے ہوئے کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے میری آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔ قارئین کرام کا مجھے نہیں معلوم، لیکن اپنے بارے میں جانتا ہوں کہ اب شمالی علاقہ جات اور پاکستان کے عوام اور علما کیلئے ان جیسا مخلص، سمجھدار، ہوشیار، شجاع اور فعال لیڈر ملنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔

مجھے تو وہ اقبال کے اس شعر پر بھی پورا اترتے نظر آتے ہیں:

نہ تْو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کیلئے

جہاں ہے تیرے لیے، تْو نہیں جہاں کیلئے