معذور افراد کا عالمی دن:بھلا دیئے گئے لوگ

زیب سیف اللہ خان

میرے نزدیک دنیا دو قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ صحت مند ،تندرست لوگ اور معذور لوگ۔ میرا بیٹا جو 39سال پہلے دماغی معذوری کے ساتھ پیدا ہوا مجھے خصوصی افراد کی دنیا میں لے گیا۔ معذور افراد کی دنیا میں دو طرح کے افراد ہوتے ہیں ایک قسم خدمات فراہم کرنے والے  اور دوسری قسم خدمات حاصل کرنے والے افراد پر مشتمل ہے ۔جب مجھے اپنے بیٹے کے لیے خدمات حاصل کرنے کی ضرورت پڑی تو مجھے دستیاب مدد کی قلت کا احساس ہوا۔ بچائو سے علاج اور دوبارہ بحالی تک تمام شعبوں میں پیشہ وارانہ افراد کی عدم دستیابی تھی ۔ چنانچہ میری جدوجہد ،امید، مایوسی اور ان حالات کو قبول کرلینے کے سفر کا آغاز ہوا اور آج39 سال بعد میں بہت کچھ جان اور سمجھ چکی ہوں۔پاکستانی قوم دنیا کی سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوموں میں سے ایک ہے۔ اگر ایسے افراد اور تنظیمیں موجود نہ ہوتیں جو کم خوش نصیب افراد کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہیں تو ان افراد کے لیے صورت حال مایوس کن اور مخدوش ہوتی۔ مالی امداد کی بات ہو یا کوئی اور ہمارے لوگ امداد کیلئے پہنچ جاتے ہیں خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں میں۔ تاہم یہ کافی نہیں ہے۔ جب تک حکومت اور ریاست یہ ذمہ داری نہیں سنبھالتی یہ کبھی بھی کافی نہیں ہوسکتا۔معذوری کی اقسام کا ایک وسیع دائرہ ہے۔ تاحال مخصوص افراد کی تمام اقسام کی مخصوص ضرورتوں کو جاننے اور انہیں حل کرنے کے لیے کوئی خصوصی کوشش نہیں کی گئی۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان کی ضروریات کے بارے میں ایک جامع نکتہ نظر اپنایا جائے۔ معذوری کی اصطلاح دماغی معذوری سے لے کر جسمانی معذوری اور ان دونوں کے درمیان کی بہت ساری حالتوں کو بیان کرنے کیلئے عمومی طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ حکومت زیادہ تر صرف ان لوگوں کو امداد فراہم کرنے تک محدود رہتی ہے جو ویل چیئر پر ہیں اور کچھ نہ کچھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یہ حکومت کو شیخی بگھارنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ کیسے حکومت نے معذور لوگوں کیلئے ملازمت کے کوٹے میں اضافہ کیا ہے۔حکومت ان لوگوں کو سرے سے نظر انداز کردیتی ہے جو زمین پر (فرش پر) لیٹے رہتے ہیں اور اپنی ضرورتوں کا اظہار تک نہیں کرسکتے۔دماغی معذوری پاکستان میں عوام طور پر پائی جانے والی مگر سب سے زیادہ نظر انداز کی گئی معذوری ہے بین الاقوامی طور پر سب سے زیادہ بچوں میں پائی جانے والی بڑی معذوری ہے۔ اس کی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ زچہ کی صحت کی ناکافی سہولیات ہیں، دوسرے نمبر پر اس معذوری کو جاننے اور سمجھنے کیلئے ضروری مہارتوں کا فقدان ہے اورآخری وجہ یہ ہے کہ اس مرض کی تشخیص ہو بھی جائے تو اسے قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ایک تو اس کا کوئی علاج موجود ہے نہ ہی یہ کوئی وبائی مرض ہے۔بین الاقوامی تنظیمیں پولیو کو ایک فرض سمجھتی ہیں جس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے تاکہ یہ وبائی شکل اختیار نہ کرسکے لیکن سربیرل پالسی (ذہنی معذوری) کو پسماندہ ممالک میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی مدتوں پہلے ترقی یافتہ ممالک کی حالت بھی کوئی بہتر نہ تھی۔ تاہم تعلیمی ترقی کی وجہ سے انہوں نے زندگی کے تمام شعبوںپر خصوصی توجہ دی ہے اور جدید سہولیات متعارف کروائی ہیں۔جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کے ممالک نے صحت کے نظام کو خصوصی اہمیت دی اور برطانیہ میں قومی صحت سروس کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اسی وجہ سے ذہنی معذوری جیسے امراض پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں یہ اب بھی عام ہے جس کی ایک بنیادی وجہ نوزائیدہ بچوںمیں ابتدائی یرقان کے علاج کا فقدان بھی ہے۔ ایک دفعہ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی تھراپسٹ نے بتایا کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں ایتھی ٹائیڈ (Athetoids)کے اتنے مریض کہیں نہیں دیکھے جتنے ایک ہفتے میں پاکستان میں دیکھے ہیں۔مثالی طور پر ایک مملکت میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔اگر آپ صرف افتتاحی ربن کاٹتے رہیں ،وہیل چیئرز تقسیم کرتے رہیں اور ان مواقع کی تصاویر کھنچوانے پر استفادہ کرتے رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک معذور بچے یا بڑے کی زندگی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔مغرب میں جوں جوں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی گئی وہیں معذور افراد کی زندگیاں آسان ہوتی گئیں جس کے نتیجے میں وہاں ہر جگہ کو وہیل چیئر کے استعمال کے لیے آسان بنایا گیا (وہیل چیر دوست) ہر سڑک  عمارت اور دکان کو معذوری کے حوالے سے بنائے گئے موجودہ قوانین پر عملدرآمد کا پابند بنایا گیا۔ معذور وہیل چیئر کے ساتھ بسوں اور ٹیکسیوں سمیت ہر جگہ باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔ ہر عمارت میںریمپ اور خصوصی ٹائلٹ ہیں۔1960ء کی دہائی کی برطانیہ کی ایک بڑی فکرانگیزکہانی ہے معذور افراد نے خود کو زنجیروں کے ذریعے بسوں کے ساتھ باندھ لیا اور اعلان کیا کہ اگر بسیں انہیں کہیں نہیں لے جاسکتیں تو پھر بسیں بھی کہیں نہیں جاسکتیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بسوں کے دروازوں کے ساتھ ریمپ لگادیئے گئے جن سے باسہولت وہیل چیئرز گزر کر اندر داخل ہوسکتی ہیں۔اس واقعے سے ظاہرہوتا ہے کہ عوامی دبائو ہی اصلاح احوال کا سب سے موثر ذریعہ ہے ۔میں اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتی ہوں کہ میں خوش قسمت تھی کہ جب میرا معذور بیٹا پیدا ہوا تو اس نے میرے لیے بہت سے نئے باب واکر دیئے۔ میں اس قابل تھی کہ اس کی اپنی صلاحیتیں حاصل کرنے کیلئے بہترین ذرائع مہیا کرسکوں اور یہی معذوروں کی بحالی ہے چونکہ ذہنی معذوری ناقابل علاج ہے لیکن ایک ذہنی معذور کی مناسب دیکھ بھال اور بحالی کی کوشش نہ کی جائے تو خاندان کے لیے اس کی دیکھ بھال بہت مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ یہ ایسی بیماری نہیں ہے جو بڑھ کر موت کا سبب بن جائے۔ چنانچہ ذہنی معذور بچہ بڑا ہو کر ایک معذور بالغ آدمی میں تبدیل ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔2005ء میں 'میں نے اپنی ایک آئرلینڈ کی شہری دوست جو کہ تربیت یافتہ فزیو تھراپسٹ ہیں کے ساتھ مل کر اکبر کیئر انسٹیٹیوٹ (اے کے آئی) کی بنیاد پشاور میں رکھی ۔ پشاور  لاہور اورکراچی میں معذوروں کے لیے قائم کی گئی خصوصی سہولیات کے مراکزکادورہ کرنے پر  ہمیں معلوم ہوا کہ فزیوتھراپی اور ذہنی معذوری کے شعبے سب سے کمزور شعبے ہیں۔ دیگرالفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک معذور بچے کے خاندان کو وقتی طور پر چند گھنٹوں کے لیے سکون اور سہولت فراہم کرنے کے لیے تو یہ اچھی جگہیں ہیں لیکن مسلسل اور نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے فزیوتھراپی کی سہولتیں کہیں بھی موجودنہیں ہیں۔ عام طور پر ہر بچے کو اس کے مخصوص مسئلے کے برعکس ایک ہی طرح کا علاج مہیا کیا جاتاہے۔ اس کی وجہ ہے کہ فزیوتھراپی کی ڈگری کے حصول کیلئے دی جانے والی تعلیم زیادہ تر نظریاتی ہے اور اس میں بہت کم عملی تعلیم دی جاتی ہے اور بچوںکے شعبے کو تقریباً نظر انداز کردیا گیاہے۔ اس تعلیم کا زیادہ تر تعلق کھیلوں کے دوران آنے والی چوٹ، سڑوک ،پٹھوں اور ہڈیوں وغیرہ کے مسائل اور بالغ افراد سے ہے۔ذہنی معذور بچوںکے شعبے میں مکمل طور پر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی فراہمی کے لیے اے کے آئی نے انہیں تربیت دینے کاکام کا آغاز کیاتھا۔اسی کام کے آغاز پر انہیں اس بات پر حیرت اور افسوس ہوا کہ ایک بچے کے بارے میں جاننے اور اس کا علاج کرنے کے لیے انہیں ایک دری پر نیچے زمین پر بیٹھنا پڑتا تھا۔ کرسی پر بیٹھ کر معذوروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے یہ معمول کی بات نہ تھی اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ عوام اورحکومت کا ان حالات کو جوںکا توں رکھنے کا رویہ تھا۔ ہمیں صرف دوسرے ترقی یافتہ اور سمجھدار ترقی پذیر ممالک میں اپنائے جانے والے اچھے اقدامات کی نقل کرنا تھا نہ کہ پہیے کو ازسر نو ایجاد کرنے کی کوشش کرنا تھی ہمارے سامنے ملائیشیا،نیپال اور بھارت کی مثالیں موجودتھیں۔ آج کے دور میں کسی بھی طرح کی معلومات کے حصول کیلئے صرف ایک بار انگلی سے کلک اورایک مصمم ارادے کی ضرورت ہے ۔اے کے آئی مکمل طورپرمفت خدمات فراہم کرنے والا ادارہ ہے جہاں تمام تر علاج اور علاج کے آلات مفت فراہم کیے جاتے ہیں اور جہاں ہم دنیا بھر میں اختیار کئے جانے والے بہترین طریقہ ہائے کار کی نقل کرتے ہیں ۔اس میں معذور بچوں کے والدین کے ساتھ مل کر کام کرنا ان کے دیگر مسائل کے حل کی کوششیں کرنا ،ہر بچے کیلئے علیحدہ تھراپی کے منصوبے بنانا اور بچوں کی مسلسل دیکھ بھال کرنا شامل ہے ۔ اس ادارے میں آنے والے ہر بچے کا مکمل ڈیٹا اور علاج کی تفصیل کا مکمل ریکارڈ رکھاجاتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے کلینک باہر سے منگائی گئی قیمتی مشینوں اور آلات پر انحصار کرتے ہیں اسی وجہ سے معاشرے کے تمام طبقات کو یہ علاج میسر نہیں کیا جاسکتا جبکہ ہمارا انحصار اسی ادارے میں باہر کے آلات کی نقل کرکے یا خود بنائے جانے والے ہمارے اپنے ماہرین کے آلات پر ہے۔مثال کے طور پر ایک وہیل چیئر یا بچے کا سہارا دے کر کھڑا ہونے والے سٹینڈ وغیرہ ہر بچے کی انفرادی ضرورت کو مدنظر رکھ کر تیارکئے جاتے ہیں چنانچہ چھوٹے بچے بڑوں کیلئے بنائی جانے والی وہیل چیئر یا سٹینڈ میں صحیح اور مناسب سہارے کے بغیر نہیں استعمال کرسکتے ۔ بجلی کے ذریعے تھراپی وسیع پیمانے پر اور بغیر کسی تخصیص کے فیزیوتھراپی میں استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ بہت سے بچوں کے علاج میں بالکل غیر ضروری ہے۔ذہنی معذوری کے بارے میں آگاہی اس کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے ہمارے ادارے نے پشاور کے تین ہسپتالوں میں ورکشاپس کا اہتمام کیا۔مثالی صورت میں ایک ذہنی معذور بچے کو بہت سے حوالوں سے بحالی کی ضرورت ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر بچے کو نظر ،سننے اور سیکھنے کے حوالے سے معذوری کے مسائل ہوسکتے ہیں ۔اس کے لیے مختلف شعبوں میں تھراپی کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یعنی پیشہ وارانہ'بولنے،تقریر کی مہارت اور خصوصی تعلیم کے شعبوں کے ماہر تھراپسٹ وغیرہ ہمارے ماہرین صحت نے وہیل چیئر پر بیٹھنے کے بارے میں ایک خصوصی ورکشاپ کا انعقادبھی کیا ۔دماغی معذوری سے متعلق بہت سے مشکل مسائل ہیں ۔ بعض دفعہ صرف وہیل چیئرز مہیا کردینے سے ہی کام نہیں بنتا کیونکہ دیہاتوں میں ناہموار علاقے ہیں اور شہروں میں ریمپ اور سڑکوں کے ساتھ پکے راستے موجود نہیں ہیں۔اگر ہمارے پاس کوئی ایسا بچہ آتا ہے جس میں CP (ذہنی معذوری) نہیں بلکہ کوئی اور مرض ہو تو ہم اسے اس کے مرض سے متعلق سہولیات مہیا کرنے والے اداروں اور سہولیات کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کردیتے ہیں ۔ہمارے ادارے کی کارکردگی سے متاثر ہو کر اکثر حکومتی عہدیدار وقتاً فوقتاً ہمیں مدد کرنے کی یقین دہانی کراتے ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ہم ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ یہاں آکر خود حالات کا مشاہدہ کریں کہ ہم یہاں کیا خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور کتنے خاندانوں کی مدد کررہے ہیں  لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اے کے آئی پورے پاکستان میں اپنی طرز کا واحد فزیو تھراپی کلینک ہے ۔ ہمارے ملک میں خصوصی تعلیم کے مراکز میں ذہنی طور پر مفلوج بچوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ ان میں داخلے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ بچہ اطمینان سے بیٹھنے کے قابل ہو جب کہ وہ جنہیں رفع حاجت کیلئے دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیپی تبدیل کرنے کے لیے بھی وہ دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں ان کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔AKI میں ہمارا ہمیشہ سے یہ مقصد رہا ہے کہ (معذوری کے بارے میں ) آگاہی کو بڑھایا جائے اور عملی طور پر دکھایا جائے کہ کیسے دنیا میں علاج کے بہترین طریقہ ہائے کار کو ایک مستقل طور پر قابل عمل اور اپنے دیسی اور مقامی انداز سے اپنایا جاسکتاہے ۔ہماری کوشش ہے کہ جدید ترین آزمودہ تھراپی کو پاکستان میں متعارف کروایاجائے۔ ہم بچوں کی نگہداشت کے لیے ان کے خاندانوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ہم روزمرہ کے مسائل جن کا انہیں سامنا ہوتا ہے کے حل میں ان سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح ان کی بہترین طریقے سے مدد کی جاسکتی ہے ۔ ہم کبھی آرام سے بیٹھ کر یہ نہیں سوچتے کہ ہم یہ اچھے طریقے سے اپنا کام کررہے ہیں ۔بلکہ ہمیں اس سے بھی بہتر کام کرنا ہے۔یہ بھولے بسرے (بھلا دیئے جانے والے)خاندان اس سے بہتر کے حق دار ہیں۔مجھے اس بات کی خوشی اور اطمینان ہے کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک اٹھارہ ہزار سے زائد معذور بچے اس ادارے کے ساتھ رجسٹرڈہیں اور ہر سال تقریباً اڑھائی ہزار نئے معذور بچوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے اور یہ سب بلاامتیاز علاج معالجے ودیگر سہولیات سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔