عاشق فراز
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام گزشتہ تین دہائیوں سے گلگت بلتستان اور چترال میں اپنی بساط کے مطابق دیہی ترقی کے لئے کوشاں ہے۔ اپنے بنیادی مینڈیٹ جس کا تذکرہ اے کے آر اس پی کے پہلے جنرل منیجر جناب شعیب سلطان خان نے کتابThe Aga Khan Rural Support Programme- A Journey through Grassroots Development میں کیا ہے کے مطابق ادارہ نے ہز ہائنس آغا خان کے حکم پر تنظیم، ہنر اور بچت کے عنوان سے آغاز کیا۔ لوگوں کو گائوں گائوں کے سطح پر اپنے وسائل کے انتظام، مسائل کا ادراک اور حل کے لئے ترجیحات کے لئے دیہی تنظیمات کی صورت میں منظم کیا یوں اس طرح ویلیج آرگنائزیشن اور وومن آرگنائزیشن وجود میں آئی۔ قدرتی وسائل کے انتظام کے لئے نیز مسائل سے نکلنے کے لئے انفرادی اور کمیونٹی کی سطح پر ہنر مندی کی ضرورت تھی جس کے لئے خاطر خواہ کا کیا گیا۔ بچت کے لئے کمیونٹی کو آمادہ کیا گیا تاکہ بچت کیا گیا سرمایہ ہنر اور تنظیمی صلاحیتوں کے تحت زیادہ بار آور ثابت ہو سکے۔اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا۔ گائوں گائوں کمیونٹی کے اشتراک سے سڑکیں، آبپاشی کے لئے نہریں، بنجر زمینوں کی آبادکاری، قدرتی جنگل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر پاپلر کے درختوں کا پھیلائو، فروٹ نرسریاں، دودھ کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے فریزن گائے اور بھیڑوں کی تقسیم، پولٹری کی افزائش، مائیکرو ہائیڈل سٹیشن، ندی نالوں پر چھوٹے بڑے بند اور پل غرض دیہی ترقی کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی اور یہ جدوجہد ابھی بھی جاری ہے۔پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی اور لوگوں کو اپنے طور پر منظم ہونے کے لئے دیہی تنظیمات کو ہر کئے گئے پراجیکٹ میں باقاعدہ طور پر سٹیک ہولڈرز شامل رکھا گیا تاکہ منصوبوں کی نشان دہی، نگرانی سے لیکر دیرپا نتائج تک ان کا کردار مرکزی رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تنظیمات کو یونین کونسل کی سطح پر مزید منظم کر کے انہیں لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کی اجتماعی شکل میں ڈھالا گیا تاکہ یونین کونسل کی سطح پر ترقی و تعمیر کا حصول زیادہ آسان اور یقینی ہو۔اس تیس سالہ سفر کے دوران یوں تو کئی ملکی اور غیر ملکی ریسرچرز ، کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے اداروں اور ڈونرز نے وقتا فوقتا اے کے آر ایس پی کی دیہی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لئے کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیا اور اسے بہت سراہا ۔ اے کے آر ایس پی کے ہی ماڈل کو لے کر ملک بھر میں صوبائی سطح پر آر ایس پیز بنائے گئے ہیں۔ادارے کی بیس سالہ کارکردگی اور دیہی ترقی کی صورتحال پر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع کردہ کتاب Valleys in Transition جس کی تدوین میں Geoffrey . D. Wood, عبدلمالک اور سمیرا صغیر شامل ہیں میں کیمونٹی ڈویلپمنٹ پر مضامین اور کیس سٹیڈیز شامل کی گئی ہیں۔نیز ابتدائی بیس سال کی کارکردگی اور کامیابی کا ناقدانہ جائزہ ورلڈ بینک نے 1995 میں لیا اور ان کی تحقیقاتی رپورٹ Next Ascent: An Evaluation of the Rural Support Program, Pakistan کے نام سے منصہ شہود پر آئی ۔ ورلڈ بینک کے ماہرین نے بھی اس پروگرام کی واضع انداز میں تعریف کی ہے نیز اسے دیہی غربت کے خاتمے کے لیے اہم قدم قرار دیا۔غرض اہمیت اس بات کی ہے کہ ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مشترکہ اور اجتماعی شکل میں قدم نہ اٹھایا جائے۔ اس تحریر کا محرک گزشتہ دنوں پی پی اے ایف اور اے کے آر ایس پی کے اشتراک سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں منعقدہ ایل ایس اوز کا کنونشن ہے جس کا موضوع تھا۔Gilgit Baltistan Union Council Based Organisations Learning and Sharing Eventیوں تو گزشتہ تیس سالوں کے دوران اے کے آر ایس پی کے درجنوں غیر ملکی ڈونرز رہے ہیں مگر ملکی سطح پر پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ کا تعاون بہت مثالی اور سود مند رہا ہے۔ خاص طور پر جب 2018 سے لے کر 2020 تک جب عالمی کسادبازاری اور کرونا کی وجہ سے فنڈنگ کے ایشوز تھے اسی دوران پی پی اے ایف نے تعمیر و ترقی فنڈ کے نام سے ایل ایس اوز کی فعالیت کو بڑھانے اور SDGs سے متعلق کمیونٹی میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اے کے آر ایس پی کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ انہی اقدامات کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں گلگت بلتستان کے ایل ایس اوز کے نمائندوں، ڈویلپمنٹ ماہرین، آغا خان فائونڈیشن پاکستان کے نمائندے، سول سوسائٹی کے اہم افراد، سیاسی زعما ، پی پی اے ایف کے کلیدی عہدہ داران، اے کے آر ایس پی اور جی بی آر ایس پی کے سینئر اور ٹاپ مینجمنٹ، قراقرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی ہذا کے ہائر سٹڈیز کے طلبا نے شرکت کی۔کنونشن میں پی پی اے ایف کے ارشاد احمد عباسی صاحب نے اپنے ادارے کی خدمات کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے کہا کہ پی پی اے ایف پورے ملک میں ایک ایس اوز اور سول سوسائٹی آرگنائزیشن کے ساتھ باہمی اشتراک اور مشترکہ جدوجہد کے اصول کے تحت دیہی ترقی اور سماجی بہبود کے لئے سرگرم عمل ہے۔ گلگت بلتستان میں اے کے آر ایس پی کے ساتھ تعاون کیا گیا اور مقامی ایل ایس اوز کی فعالیت کو بڑھانے کے لئے مالی مدد کی گئی۔ علاہ ازیں عوام کو پائیدار ترقی کے اھداف سے متعلق شعور و آگہی دینے کے لئے ایل ایس اوز کا پلیٹ فارم استعمال کیا گیا۔سیکرٹری سوشل ویلفیئر ظفر وقار تاج نے دیہی تنظیمات کی رجسٹریشن سے متعلق قوانین کی تفصیل بتائی اور کن لوازمات کا پورا کرنا از حد ضروری ہے سے متعلق تفصیلا پریزنٹیشن کے ذریعے واضح کیا۔ GBRSP کے سی ای او لطیف صاحب نے ادارے کے اغراض و مقاصد اور آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ادارہ ہذا دراصل اے کے آر ایس پی ہی کے طریقہ کار اور فلاسفی سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے اور اسی انداز سے کیمونٹی کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اظہار ہنزائی جو کہ اے کے آر ایس پی کے سابق جنرل مینجر بھی رہ چکے ہیں اور موجودہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ سونی جواری انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے پہلے سی ای او ہیں نے کمیونٹی بیسڈ ڈویلپمنٹ کی اہمیت اور ادارہ جاتی تعاون کی ضرورت پر سیر حاصل گفتگو کی اور اپنے نئے ادارے کی اہمیت اجاگر کیں۔ اے کے ایف کے گلوبل لیڈ نے مشترکہ جدوجہد اور کمیونٹی بیسڈ ڈویلپمنٹ میں اداروں کے کردار پر روشنی ڈالی۔ دوران کنونشن کیمونٹی کی طرف سے اپنے تجربات، مشاہدات اور کئے گئے کام کے حوالے سے سدا ایل ایس او حسین آباد سکردو کے شبیر حسین اور سنگل ایل ایس او غذر کی منیجر خاتون نے اپنے اپنے ادارے کی پریزنٹیشن دی۔صوبائی وزیر خزانہ جاوید منوا نے NGOs کی اہمیت، ضرورت اور حکومت کی ترجیحات اور پالیسی سے متعلق تفصیلا بتایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر ممکنہ سطح پر نجی اداروں اور فلاحی تنظیمات کی حوصلہ افزائی کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے گزشتہ تیس سالوں سے اے کے آر ایس پی کی جانب سے کی جانے والی جدوجہد کو سراہا اور مزید زور دیا کہ اس کام کو دیگر اضلاع خاص طور پر دیامیر تک وسعت دی جائے۔جی ایم ،اے کے آر ایس پی جمیل حسام الدین نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا نیز کہا کہ ادارہ اسی جذبہ اور لگن کے ساتھ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لئے سرگرم عمل رہے گا جس طرح ماضی میں کرتا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیامیر میں بھی جلد کام کا آغاز کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں مقامی قیادت، حکومت اور متعلقہ کمیونٹی سے مشاورت بھی کی جائے گی۔ انہوں نے ان تمام ڈونرز کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مختلف ادوار میں اے کے آر ایس پی کے توسط سے گلگت بلتستان کی کمیونٹیز کی فلاح و بہبود کے لیے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی۔تقریب میں صوبائی وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید ، محترمہ کلثوم فرمان پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت ، رحمت خالق ممبر اسمبلی، محترمہ ثریا زمان پارلیمانی سیکرٹری برائے ایجوکیشن، وقار منڈوق سابق نگران وزیر برائے خزانہ سمیت بڑی تعداد میں سول سوسائٹی ممبران اور یونیورسٹی کے طلبا نے بھی شرکت کی نیز بلتستان اور گلگت ایریا کے ایل ایس اوز نے مختلف ثقافتی اور مقامی اشیا کے سٹال بھی لگائے۔