Deprecated: Required parameter $data follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 37
Deprecated: Required parameter $data follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 68
Deprecated: Required parameter $data follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 85
Deprecated: Required parameter $where follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 85
Deprecated: Required parameter $data follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 122
Deprecated: Required parameter $field follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 122
Deprecated: Required parameter $value follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 122
Deprecated: Required parameter $data follows optional parameter $tbl in /home/u877597158/domains/dailyk2.com/public_html/archive.dailyk2.com/application/models/Common_model.php on line 159 DailyK2 | سکردو میرا سکردو سب کا
دل خون کے آنسو روئے تو کم ہے اور ہم جس میں ہمارے معاشرے میں رہنے والے تمام افراد جس میں سیاسی نمائندے ، علماء ، سول سوسائٹیز اور دیگر تمام وہ تنظیموں کا نام بھی شامل ہوگا جو اپنے آپ کو اس شہر کا باسی اور سکردو کا نمک کھا رہے ہیں ان کو یہ شعور ہونا چاہیے کہ جو کچھ سکردو کے ساتھ ہو رہا تھا اب تک برداشت کرلیا ہے اب بات ہمارے بہنوں بیٹیوں تک اور ہمارے گھر کے اندر تک پہنچ چکی ہے لیکن ہم لوگ اپ بھی خواب خرگوش کی نیند میں سورہے ہیں ۔کل کوئی بیٹی کسی میڈیا والے کو انٹریو دے رہی تھی اس انٹریو کو سن کا میرا تو دل کر رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کر روئوں اور ہماری بے بسی کا کیابتائوں اس بیٹی کو؟ نوبت یہا ں تک پہنچی ہے کہ سکردو کے واحدگرلز کالج میں ہماری قوم کی بیٹیوں کو داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے وجہ یہ ہے کہ کالج میں کلاس رومز اتنے نہیں ہیں کہ جن میں طالبات کو پڑھایا جائے اور ابھی جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلاس میں 220طالبات بیک وقت کلاسیں لے رہی ہیں مطلب بات اس حد تک پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی تک آرام سے سو رہے ہیں۔ایک حقیقت میں آج بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہم لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہے کہ جب تک ہمارے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو تب تک ہم لوگ مظلوم کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اس سے بھی بڑی غلطی یہ ہے ہم لوگ جو مظلوم کی حمایت کرتے ہیں جن میں کچھ طلباء تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے کچھ لوگ جب احتجاج اور اپنے حق کے لئے مظاہرے کرتے ہیں تو الٹا انکی حمایت کرنے کے بجائے انکی مخالفت کرتے ہیں جوکہ سراسر ناانصافی ہے اسی وجہ سے آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ ہمارے اپنے کئے کا حاصل ہے۔جب جب بھی سکردو میں کوئی ناانصافی ہوتی ہے کسی بھی حوالے سے تو اس وقت تو ہم ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ہم جو مطالبہ ہے اسکو منظور کرا کے رہیںگے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد ہم لوگ ایسے بھول جاتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلی سردیوں میں ہم لوگوں نے کتنا شور اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کیا تھا کہ بلتستان یونیورسٹی میں بندر بانٹ ہوئی کچھ نے اس کے خلاف کارروائی کا کہا نتیجہ کیا نکلا ۔؟ کیا حل نکلا۔؟کس کو برطرف کیا ۔؟ خدا را جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو بھر پور طریقے سے اس کے خلاف انجام تک ڈٹے رہنا چاہیے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف بلتستان کے تعلیمی معیا ر کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے اب بولیں وہ لوگ کہاںمنہ چھپائے ہوئے بیٹھے ہیں جو اس نظام کو ملک کے اہم نظام تعلیم سے نسبت دے رہے تھے اور کہاں گیا ہمارا وہ سوشل میڈیا کا شور تھا جس میں ہم یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے ؟ صرف ناانصافی ہی نہیں اور بہت کچھ بھی ہوا تھا اس یونیورسٹی میں جس کا ہم سب کو علم ہے لیکن خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ہم لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب تک ہمارے ساتھ کچھ ہوگا تو پھر احتجاج کریںگے اس وقت تک آپ منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں ہونگے لہذا اب بھی جاگ جائو اور اپنے اداروں میں گھسے اس طرح کے افراد کو نکال پھینک دو۔بات کہاں سے کہاں تک نکل گئی بس کیا کریں دل خون کے آنسو روئے تو حقیقت بتانا تو پڑتی ہے۔ سکردو آج کل مسئلے مسائل سے گھرا ہوا ہے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جو سکر دوکے باسیوں کے ساتھ نہ ہورہا ہو۔ صحت کے مسائل بھی ہمارے سامنے ہیں کہ مریض رُل رہے ہیں ہسپتال جا کر۔ نظام تعلیم دیکھو کہ طالبات کو ایڈمیشن نہیں مل رہا ۔ بجلی کا نظام تو کہنے کے قابل ہی نہیں پورے دن میں کچھ منٹ کے لیے بجلی آتی ہے اور وہ بھی پورے گھر کے بلب جلا کر پھرسے غائب ۔ پانی کا مسئلہ دیکھیں کتنی دفعہ ٹینکی سے مری ہوئی بلیوں کو نکالا گیا ہے کیا یہی ایک ادارے کا کام ہے ۔۔؟ میرا ایک سوال ہے کہ صرف سکردو کے ساتھ اتنے سارے مسائل کیوں ۔۔؟؟ کیا سکردو کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے جو سکردو کے مسائل کو حل کرنے کے لئے آگے بات کرے یا وہ لوگ بھول گئے ہے کہ میں سکردو اور ان حلقوں سے جیت کر جس سٹیج پر موجود ہوں وہ انہی لوگوں کے مسئلے حل کرنے کے لئے آیا ہوں ؟ اگر ہے تو پھر کیوں ظلم کر رہے ہو سکردو کے باسیوں کے ساتھ ۔ کیا آپکو جتوا کر صرف اپنی عیاشیوں کے لئے منتخب کیا گیا ہے کیا۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ آپکو عوامی نمائندہ بنا کر اس لئے بھیجا ہے کہ غریب عوام کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کر سکیں لیکن مجال ہے کہ یہ نمائند ے عوام کے مسائل پر بھی توجہ دیں ۔ لہذا خدارا جس مقصد کے لئے آپکو لایا گیاہے عوامی نمائند ہ منتخب کر کے اس مقصد کے تحت جو مسئلے مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں اور جن طالبا ت کو داخلے کا مسئلہ ہے اسکو فوری طور پر حل کریں صرف یہ مسئلہ وقتی طور پر حل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ بوائز اور گرلز کالج دونوں میں فوری طور پر نئی بلڈنگز بناکر نئے کلاس رومز بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء و طالبات تعلیم سے مسفید ہوسکیں اور میری عوام سے بھی گزارش ہے کہ جب تک کوئی اقدام نہ ہو تب تک اس اہم ایشو پر ہمیں خاموش نہیں ہونا چاہئے اگر ہم پھر سے خاموش ہوجائیں تو جس طرح پہلے ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اسی طرح ہوتا رہیے گا اور جب پانی سر سے گزر گیا تب ہوش آنے کا کوئی فائد ہ نہیں ہوگا۔