دودھ کا دودھ، پانی کا پانی

اُم فاطمہ 
وزیر اعظم کے حالیہ بیان کے فورا بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جھوٹ پر مبنی چند ویڈیوز نے عوام کے زخموں پر نمک کا کام کیا ہے۔برطانیہ میں مقیم پی ٹی آئی کے کارکنان نے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ برطانیہ میں حالیہ دنوں میں ہونے والی ہڑتال کو بھی وزیراعظم نے یہ کہہ کر عوام کے سامنے رکھا کہ وہاں بھی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مہنگائی پر شور کرنے والے اب ہمارے وزیراعظم صاحب کو مہنگائی نظر ہی نہیں آتی اور ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت مہنگائی ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی ہے ہی نہیں۔برطانوی حکومت نے کرونا وباء  کے دوران ہنگامی بنیادوں پر 20 ہزار پونڈ فی کس ہرشہری کو امداد مہیا کی ،ساتھ ہی برطانوی حکومت مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ہی اپنے شہریوں کو ہوم الاؤنس کی مد میں اضافہ کر کے ان کی مدد کرتی ہے۔ 15سے 20 ہزار پونڈ کمانے والے شہریوں کی آمدنی کو کم سمجھتے ہوئے اخراجات کے لیے حکومت مدد فراہم کرتی ہے جس میں رہائش،میڈیکل اور خوراک شامل ہوتی ہے۔برطانوی نژاد پاکستانی کسی ایک دن بھی برطانوی حکومت کی کسی غلط پالیسی کا شکار نہیں ہوتے۔برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ضرور ہوا ہے مگر اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں مہنگائی کا روزانہ کی بنیاد پر بڑھنا ہے۔پہلے تین ماہ بعد رقم بھیجنے والے ایک اوور سیز پاکستانی شہری کا کہنا ہے کہ وہ اب ہر ماہ پاکستان اپنے خاندان کو رقم بھیج رہا ہے مگر پھر بھی مسائل موجود ہیں۔کیونکہ حکومتِ برطانیہ ان کی تو مدد کرتی ہے جبکہ پاکستان میں مقیم خاندان کے اخراجات میں اضافہ برطانوی حکومت کی ذمہ داری نہیں۔اس لئے وہ برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے خاندان کے لئے اب اکثر پریشان رہتے ہیں۔پاکستانیوں کی مشکلات میں گزشتہ تین برسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ مشکلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔آٹا، دال اور چاول عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔دواؤں کی قیمتیں آسمان سے  باتیں کررہی ہیں۔بچوں کے اسکول کی فیس اور یوٹیلیٹی بلز ایک عام انسان کی کمر توڑ چکے ہیں۔ نوکری پیشہ افراد کی تنخواہیں جوں کی توں ہیں جبکہ اخراجات میں تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی کا سکون غارت ہو چکا ہے ،حالات کا تقاضا ہے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ پاکستان کے روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے مثبت اقدامات کئے جائیں۔وزیراعظم سے دست بستہ گزارش ہے کہ عوام کے ساتھ سچ بولیں۔ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کریں۔عام آدمی کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھیں،عوام پریشان ضرور ہے مگر بے وقوف نہیں۔اگلا الیکشن جلدیا بدیر آنا ہی ہے۔سابقہ نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر آپ کا کہنا تھا کہ اگر بے جا مہنگائی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ''وزیراعظم چور ہے'' یہ سب کچھ آپ ہی نے عوام کو بتایا تھا ۔تاریخ شاہد ہے کہ اشیا ہے خورو نوش میں پہلے بھی اضافہ ہوتا رہا ہے اور چینی کی قیمت میں دوآنہ کے اضافے پرخود قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو عوام کو سڑکوں پر لے آئے تھے اور اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان  یہ کہہ کر مستعٰفی ہوگئے تھے کہ ان کی وجہ سے ملک میں خون خرابہ ہو رہا ہے۔اب بھی وزیر اعظم عمران خان کے لئے وقت ہے کہ اگراُن سے مسائل نہیں سنبھل رہے تو کوئی زبردستی نہیں ہے۔بہتر ہے کہ تبدیلی کے نام پر عوام نے جو غلطی وہ انہیں معاف کر دی جائے اور اب آپ  اپنے گھر واپس چلے جائیں ،تاکہ عوام کی پریشانیاں کم ہو سکیں ۔