پیارعلی
پانی کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ صاف پانی انسانی زندگی کے لیے انتہائی اہم جزہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی ،زرعی ترقی اور توانائی کے حصول کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں جنگیں اگر کسی وسائل پر ہوں گی تو وہ پانی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پانی کے بحران سے نمٹنے کیلیے کوشاں ہیں۔ ریاستوں، حکومتوں ،سرکاری تنظیموں اور دیگر متعلقہ اداروں کی سنجیدگی اور پانی کے بحران سے نمٹنے کیلیے منصوبہ بندی اور اقدامات کے باوجود پائیدار مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونا ایک تشویش ناک امر ہے۔
پانی کے بحران سے ممکنہ خوف ناک اثرات ،عدم غذائی تحفظ، عالمی موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات پرمنفی اثرات سے بچنے کیلیے ریاستوں، عالمی اداروں ،سول سوسائٹی اور خود حکومتوں کو ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ اور پاکستان میں درپیش پانی کے بحران ،چینلجز، پائیدار منصوبہ بندی اور ہنگامی اقدامات اٹھانے کیلیے غورو فکر کی دعوت دیتی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی آبادی کیساتھ ساتھ آبی وسائل میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔دی اسٹیٹ آف کلامیٹ سروسز 2021 واٹرکے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب 29 کروڑ افراد کو پانی تک رسائی نہیں، جوکہ 2050 میں بڑھ پر پانچ ارب ہوجائیگی۔ رپورٹ میں کہاگیاہے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا اور جنوبی مشرق ایشیائی ممالک میں گزشتہ سال سیلاب نے تباہی مچا دی ہے ۔رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان ممالک میں سیلاب کو روک کر آبی ذخائر بنانے یا آبی ذخائر بڑھانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل پیٹری تالس کا کہنا ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کیلیے بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو وقت تیزی سے ہاتھ گزرجائے گا۔امریکا کی غیر سرکاری تنظیم ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2050 تک پانی کا بحران دنیا میں شدت اختیار کرجائیگا۔پانی سے متعلق تنازعات اور سیاست عروج پرہوگی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی کے آبی ذخائر میں صرف 30 دن پانی سپلائی کرنے کی گنجائش موجود ہے، پاکستان کے مقابلے میں بھارت 220 دن،آسٹریلیا 600، امریکا 900 اور مصر کے پاس 1000 دن تک ذخائر سے پانی سپلائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔عالمی سطح پر ذخائر سے پانی کی سپلائی کم از کم 120 دن ہے۔بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں گزشتہ 60 سالوں سے آبی ذخائر بڑھانے کے لیے کوئی ایک بھی میگا منصوبہ شرو ع نہ ہونے کے باعث ملک میں فی کس پانی کی دستیابی بہت کم سطح پر پہنچ گئی ہے مگرگزشتہ چند برسوں میں واپڈا حکام کی انتھک کوششوں سے ڈیموں کی تعمیرکے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم،مہمند ڈیم، داسو ہائیڈور پاور پروجیکٹ،تربیلافیتھ ایکس ٹیشن اور نئی گاج ڈیم سمیت ایک کینال، واٹر سپلائی اسکیم اور تین ہائیڈور پاور پروجیکٹس زیرتعمیرہیں۔ ان دس بڑے منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان میں ایک کروڑ 17 لاکھ ایکٹرفٹ اضافی پانی دسیتاب ہوگا۔ ملک میں پانی ذخیزہ کرنے کی مجموعی صلاحیت ایک کروڑ 30 لاکھ ایکٹر فٹ سے بڑھ کر دو کروڑ 40 لاکھ ایکٹر فٹ ہوجائیگی۔ان منصوبوں کی تکمیل سے آبی وسائل سے سستی اور ماحول دوست نو ہزار میگا واٹ اضافی بجلی پیدا کی جائیگی ،پن بجلی سے مجموعی پیداواری صلاحیت18 ہزار میگا واٹ سے عبور کر جائیگی۔ملک میں آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث جہاں پر مشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں وہی صوبوں کے درمیان ملک میں موجود پانی کی مساویانہ تقسیم سے متعلق ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں کی جانب سے ارسا سمیت وفاقی اداروں پر اعتراض اٹھائے گئے ہیں۔
اس معاملے پر سندھ کا موقف ہے کہ انہیں خریف سیزن میں 1991 کے معاہدے کے مطابق پانی فراہم کیاجائے۔پنجاب میں کینال اور غیرقانونی بندوں کی وجہ سے سندھ کو مطلوبہ پانی میسر نہ ہونے کے باعث سندھ سے اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔ حال ہی میں سندھ نے پانی کی تقسیم سے متعلق تین ٹیئرزفارمولے کو مسترد کرتے ہوئے 1991 کے معاہدے پر من وعن عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ 1991 کے معاہدے کے مطابق پنجاب کو 36.57 ملین ایکٹر فٹ،سندھ کو 33.49 ملین ایکٹر فٹ،بلوچستان کو 2.81 ملین ایکٹرفٹ جبکہ خیبرپختونخوا کو 0.80 ملین ایکٹر فٹ پانی سپلائی ہونا ہے۔تھری ٹیئرزفارمولے کے مطابق کل 73.68 ملین ایکٹر فٹ پانی میں سے خریف سیزن میں پنجاب کو 38.21 ملین ایکٹرفٹ،سندھ کو 31.80 بلوچستان 2.85 اور خیبرپختونخوا کو 0.82 ملین ایکٹرفٹ پانی سپلائی ہونا ہے۔ اسطرح تھری ٹیئزرفارمولا اور 1991 کے معاہدے کا موزانہ کیا جائے تو پنجاب کو 1.64 ملین ایکٹرفٹ،بلوچستان کو 0.04 اور خیبر پختونخوا کو 0.02 ملین ایکٹر فٹ اضافی ملے گا جبکہ سندھ کو 1.69 ملین ایکٹرفٹ پانی کم دستیاب ہوگا جس پر سندھ کو شدید اعتراضات ہیں۔