سکردو کی سڑکے

سید بہادر علی سالک

سیاحت اور دفاعی نقطہ نگاہ سے پاکستان کے انتہائی حساس علاقے بلتستان کو ہمےشہ سے اہمےت حاصل رہی ہے خصوصاََ دنیا کے بلند ترےن محاذ جنگ سیاچن گلےشےئر پر 1984میں بھارت کی جانب سے چوروں کی طرح راتوں رات قبضہ کرنے اور 1999میں کارگل معرکہ کے بعد بلتستان کو بےن الاقوامی سطح پر اہمےت او ر شہرت حاصل ہوئی۔ دنیا کی چار بلند ترےن چوٹیاں k.2،براڈ پےک ، گشہ بروم ون ،اور ٹوکے علاوہ آٹھ ہزار مےٹر سے کم بلند سےنکڑوں چوٹیاں اس علاقے میں موجود ہےں جبکہ دنیا کا خوبصورت ترےن اور بلند سطح مرتفع دےوسائی بھی سکردو مےںواقع ہے۔ خوبصورت ترےن ٹورسٹ رےزارٹ شنگرےلہ اور مشہور ست پارہ جھےل (جو اب ڈےم بن چکا ہے) کے علاوہ درےائے سندھ اور دریائے شےوک بھی بلتستان سے ہی ہو کر ملک کے دوسرے صوبوں کو سےراب کر تے ہےں اور اب اسی دریا پر دیامربھاشا ڈےم کی تعمےر کا کام ہورہا ہے بلتستان میں مناظر فطرت، قدرتی جھےلیں ، تارےخی اور مذہبی ورثوں کی بہتات ہے اور خصوصاََ یہاںکی سخت ترےن سردی (جو منفی 26سے30ڈگری تک پہنچ جا تاہے۔ جبکہ کبھی کبھی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بھی منفی 3سے 7گریڈ گر جاتا ہے (1995اور 2019میں ایسا ہوا تھا)دےکھنے کے قابل ہے۔ بلتستان میں چار اضلاع سکردو، شگر، گانگ چھے اور کھرمنگ واقع ہےں اور ہر ضلع اپنی اےک خصوصےت رکھتا ہے۔ سکردو بلتستان کا صدر مقام ہے اور اس شہر سے ہی گزر کر دوسرے اضلاع کو جاتے ہےں۔ سکردو میں اللہ کے فضل سے اےشےاءکا سب سے لمبا اےر سٹرپ (AIRSTRIP)موجود ہے جبکہ اس میں موجود وفاقی حکومت اوروزےر اعلیٰ خالد خورشےد کی ذاتی دلچسپی سے ان سالوں میں مزےد اضافہ کیا گیا ہے تا کہ اسے بےن الاقوامی معےار کا ائےر پورٹ بنایا جائے۔سکردو ائےر پورٹ کے حوالے سے ماضی قرےب میں بھارتی مےڈیا نے بہت زیادہ پروپےگنڈا کیا کہ اس ائےر پورٹ کو چےن اور پاکستان بھارت کے خلاف استعمال کر رہا ہے حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اس سال ملک کے تمام شہروں سے PIAکی پروازےں چلائی جاتی رہےں اور اللہ کے فضل و کرم سے اگر(2021)کو بلتستان کے لئے سیاحت کے فروغ کا سال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پروازےں چلوانے میں بھی وزےر اعلیٰ کا کردار بہت اہم رہا ہے بےن الاقوامی اور قومی سیاحوں کی کثےر تعداد میں آمد کی وجہ سے اس سال سکردو میں تقرےباََ ہر شخص اپنے گھروں کے ساتھ گےسٹ روم بنانے میں مصروف رہا ہے جبکہ ہوٹلوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہےں رہی۔ ٹرانسپورٹروںکی بھی موج رہی ۔ لےکن 2021کے اوائل تک سکردو شہر کی سڑکےں کھنڈرات کا منظر پےش کر رہی تھےں کےونکہ سابقہPML(N)اور PPPکی حکومتوں کے مقامی منتخب نمائندوں نے سوائے اپنے فائدے کے ٹھےکوں کے سکردو شہر پر کوئی توجہ نہےں دی۔ لےکن اللہ بھلا کرے جی بی کے تےسرے منتخب وژنری وزےر اعلیٰ خالد خورشےد کا جنہوں نے جب مارچ میں سکردو کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے سکردو کی سڑکوں کی بُری حالت دےکھی تو سکردو والوں پر رحم آگیا ۔ اور 9.50کلو مےڑ سڑکو ں کی تعمےر نو پرفوری طور پر کام شروع کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے 33کروڑ روپے کی منظوری دی ۔ اس حوالے سے سکردو سے منتخب عوامی نمائندے سےنےر وزےر راجہ ذکریا خان مقپون کا کردار بھی اہم رہا ہے۔سڑکوں کی تعمےر کا منصوبہ اےک طرح سے وزےر اعلیٰ کی طرف سے سکردو کے عوام کےلئے اےک عطےے اور تحفے سے کم نہےں ۔ اب تک 9.50کلو مےٹر میں سے 7.25کلو مےٹر سڑکےں 8ماہ کی قلےل مدت میں مکمل کی جا چکی ہےں جبکہ بقایا کام بھی اسی مہےنے کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ اس طرح وزےر اعلیٰ جی بی کے اعلان سے وعدے کی تکمےل کا سفر مکمل ہو جائے گا۔ شےڈول کے مطابق یہ کام 2023میں مکمل ہو نا تھا لےکن آفرےن ہے کنٹرےکڑز کے گروپ کو بھی جنہوں نے سڑکوں کے کام کو اپنا کام سمجھ کر کیا اورٹارگٹ سے پہلے مکمل ہونے والا ہے۔ تازہ ترےن اطلاع کے مطابق وزےر اعلیٰ گلگت بلتستان بےرسٹر خالد خورشےد خان نے سکردو کے شہر ےوں کی مشکلات پر فوری اےکشن لےتے ہوئے 8مےگاواٹ طاقت کے جنرےٹرز خرےدنے کی بھی منظوری دی ہے جو اُن کی بلتستان کے عوام سے محبت اور خلوص کا واضح ثبوت ہے۔ توقع ہے کہ وہ جنرےٹرز کی بروقت فراہمی کو ےقےنی بنانے کےلئے بھی ذاتی دلچسپی لےں گے۔ مےرے پاس سکردو شہر کے سڑکوں کی مرمت کے لئے ADPs میں رکھے گئے پےسوں کی تفصےل موجود ہے PPPاور PML(N)کے ادوار میں ان سڑکوں کی مرمت پر تقرےباََ26کروڑ روپے خرچ کئے گئے اور ہر سال مرمت کروائے جاتے رہے لےکن مرمت شدہ سڑکےں 6مہےنے کے بعد دوبارہ اکھڑ جاتی تھےں کےونکہ کام کا معیار وہ نہےں ہوتا تھا جو مقرر ہوتا ہے عوامی نمائندے اپنے من پسند ٹھےکےداروں کو PWDکے آفےسروں سے مل کر ٹھےکے دلواتے اور ناقص کام کرکے بہتی گنگا میںہاتھ دھوتے تھے۔ لےکن اس دفعہ وزےر اعلیٰ کے وژن کے مطابق کمشنر بلتستان رےجن شجاع عالم اورڈپٹی کمشنر کرےم داد چغتائی نے سکردو شہرکے سڑکوں کی تعمےر نو پر کڑی نظر رکھی اور باقاعدہ نگرانی کی جس کی وجہ سے ہےر پھےر کرنے کا کسی کوموقع نہےں ملا اور انشااللہ توقع ہے کہ اگر پانچ سال تک یہ سڑکےں قائم نہ بھی رہےں تو تےن سال تک توکم از کم گاڑیاں پر سکون طرےقے سے چلےں گی اور باہر سے آنے والوں کی نظر ان سڑکوں پرجب پڑے گی تو اےک اچھا تاثر قائم ہوگا۔ ادھر وزےر اعظم پاکستان نے سکردو کو پاکستان کا سیاحتی دارالخلافہ بھی قرار دیا ہے جو اےک خوش آئند قدم ہے۔ اب سکردواےر پورٹ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اگر بلتستان بھر خصو صاََ سکردو شہر میں بجلی کا نظام اور نےٹ کا نظام بہتر ہو جائے تو یہ وزےر اعظم پاکستان اور وزےر اعلیٰ گلگت بلتستان کی طرف سے بلتستان کے عوام کے لئے اےک اور تحفہ ہوگا جس سے بےرونی اور قومی سیاحوں ، تاجر پےشہ افراد اور سرمایہ کار ی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اس طرح نہ صرف بلتستان سے غربت و پسماندگی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا بلکہ قومی معےشت اور اقتصادی ترقی اور زرمبادلہ کے حصول میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ سکردو میں ست پارہ ڈےم جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا اور اس کا اصل مقصد بجلی اور پےنے کے پانی کی بہتری تھی لےکن ڈےم عوامی توقع پرپورا نہےں اترا کےونکہ اس ڈےم کی تعمےر کے اےک اہم COMPONENTشتونگ نالہ ڈائےورشن پر اجےکٹ کو WAPDA کے اےک چےئرمےن نے تعمےراتی کمپنی سے کمےشن لے کر نکلوا دیا، اگر شتونگ نالہ پرا جےکٹ شامل ہوتا توموسم سرما میں بھی بجلی اور پےنے کے پانی کا قحط ہر گز نہےں ہوتا۔ سکردو میں دےرپا اور پائےدار قسم کے بجلی کے منصوبے نہےں بنائے گئے وقتی ضرورت کو پےش نظر رکھ کر منصوبے بنائے گئے جس سے عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہےں ہوا۔ ابھی بلتستان کے عوام کی وزےر اعظم اور وزےراعلیٰ سے درخواست ہو گی کہ شتنوگ (SHATONG NALA) DIVERSION پراجےکٹ پر کام شروع کروایاجائے جبکہ WAPDAاور PWDپاور ڈوےژن کے درمیان بجلی کے معاملے میںجس ٹسل(TUSSLE) بازی سے عوام کو جو پرےشانی اُٹھانی پڑ رہی ہے اُس سے عوام کو نجات دلائی جائے ۔ دونوں محکمے اےک دوسرے پر الزام لگا کر جان چھڑا تے رہے ہےں اور بجلی کے معاملے میں عوام پرےشان ہوتے رہے ہےں۔ گرمےوں میںجب پانی ہوتا ہے توچائنا سے منگوائے گئے جنرےٹرز خراب ہو جاتے ہےں اور جب جنرےٹرز ٹھےک ہوتے ہےں تو سردےوں میں پانی کا مسئلہ پےدا ہوتا ہے۔جب بھی واپڈا والوں کو خیال آتاہے کہ عوام کو کچھ تنگ کیا جائے تو جنرےٹروں سے اےک پرزہ نکال دیا جاتا ہے اور پرزہ منگوانے کا بہانہ بنا کر ہفتوں عوام کی زندگی کو اجےرن بنایا جاتا ہے۔ اس لئے بجلی کے نظام کو محکمہ پاور جی بی کے ہی حوالے کر کے واپڈ ا کو یہاں سے فارغ کرانے میں ہی عوام کی بہتری ہے کےونکہ سفےد ہا تھی(WAPDA) کوعوام کی پرےشانی سے کوئی واسطہ نہےں ہو تا ہے۔میں یہاں وزےر اعلیٰ گلگت بلتستان بےرسٹر خالد خورشید کا سکردو کے عوام کی جانب سے شکریہ ادا کرتا ہوں کی انہوں نے زبانی کلامی وعدہ نہےں کیا بلکہ عملی کام کر کے دکھایا اور سکردو شہر کی خوبصورتی اور عوام کی سہولتوں میں اضافہ کر کے لوگوں کے دل جےت لئے ہےںبے شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ وزےر اعلیٰ کی دس مہےنے کے کارکردگی جی بی کے حوالے سے سابقہ وزراءاعلیٰ کے دس سالوں پر سبقت لے چکی ہے۔اس کام میں کمشنر بلتستان رےجن ، ڈپٹی کمشنر سکردو اور چےف انجئےنر ورکس بلتستان اور ٹےکنےکل سٹاف بھی مبارک باد کے مستحق ہےں۔تو قع ہے کہ اب وزےر اعلیٰ جی بی سکردو پورے بلتستان میں نےٹ کی بہتری اور شتونگ نالہ ڈائےورشن پرا جےکٹ پر عمل درآمد کو ےقےنی بنائےں گے اورساتھ ہی جن نئے جنرےٹرز کی سکردو کےلئے فراہمی کا فےصلہ کیا ہے وہ سردےوں میں ہی نصب کر دےے جائےں گے۔ اسی طرح آئندہ سال سکردو کےلئے بےن الاقوامی پر وازےں چلوانے اور ملک کے اندر موجود پر ائےوےٹ ائےر لائےنز کو بھی سکردو کےلئے پروازےں چلانے پر مجبور کر ےں گے تا کہ بلتستا ن حقےقت میں( وزےر اعظم پاکستان کے اعلان کے مطابق ) سیاحوں کی ٹھنڈی جنت کا دارالخلافہ بن جائے۔ مےری ذاتی رائے ہے کہ بلتستان کے عوامی نمائندوں کا بےرسٹر خالد خورشےد کو وزےر اعلیٰ نامزد کروانے کا فےصلہ بروقت اور انتہائی مناسب تھا۔ اب سکردو شہر کی سڑکےوں کا نام وزےر اعلیٰ خالد خورشےد سے منسوب کیا جاناچاہےے۔