منیر بن بشیر
آخر دونوں یار اس بات پر متفق ہوئے کہ فلم دیکھنے کا مزا تو تب ہی ہے جب اس کا پہلا دن ہو اور پہلا ہی شو ہو ان کا کہنا تھا باسی چیز کھانے کا کیا مزہ ہے پہلا دن پہلا شو تازہ تازہ اس کاسرور ہی الگ ہے اور اس کے علاوہ دوستوں میں جو دھاک بیٹھتی ہے اس کا کیا کہنا۔دونوں نے متفق ہو کر ہاتھ چمبا کیا ہاتھ ملایا وقت کا تعین کیا اور اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ایک شمال کی طرف یعنی افغانستان کی طرف اور دوسرا جنوب کی طرف یعنی ایران کی جانب یہ دونوں کوئٹہ کے کسٹم دفتر سریاب کے قریب چائے بسکٹ پکوڑے روٹی بیچا کرتے تھے ۔یہ کوئٹہ کی بات ہے زمانہ تھا 1960 کا ۔ٹکٹ لینا ان دونوں کے لئے دشوار نہیں تھا ۔دونوں ہی لوگوں کے سروں پر تیرنے کے ماہر تھے یہ الگ بات ہے کہ ایک بپھری ہوئی لہروں کی طرح تیرتا تھا کہ جو خس و خاشاک آئے اسے دور کرتے ہوئے منزل پر پہنچا جائے اور دوسرا پرسکون انداز میں کامیابی دونوں کو ہی ہوتی تھی۔جو فلم پہلے دن دیکھنی تھی اس کا نام تھا عجب خان سینما کا نام تھا راحت سینما اداکاروں میں سدھیر ،حسنہ ، طالش ،نزر اور ایک نیا چہرہ مارگریٹ کا تھا۔راحت سینما کی بھی اس وقت ایک عجیب شان تھی یہ واحد سینما تھا جس میں داخل ہو کر کسی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا تھا وجہ یہ تھی کہ کہ زیادہ تر حصہ کھلے آسمان کے تلے تھا جب وہ سینما پہنچے تو وہاں لوگوں کا اژدہام تھا ۔ایک منی حشر کا سماں تھا سب سے کمتر درجے یعنی بارہ آنے پچھتر پیسے کے ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے قریب سر ہی سرنظر آرہے تھے ۔انہوں نے ٹکٹ لینے کا پرانا حربہ آزمایا ایک نے دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے اور چشم زدن میں کندھوں پر کھڑا سا ہوگیا اور اس سے بھی کم وقت میں وہ لوگوں کے سروں پر سینے کے بل پر آگے بڑھنے لگا جیسے مچھلی تیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ہاتھوںکی حرکت بھی ایسے تھی جیسا کہ کوئی ماہر تیراک پانی میں تیر رہا ہے تھوڑی ہی دیر میں اس کے ہاتھ ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے اندر تھے اور چند ہی ساعتوں کے بعد وہ کامیاب و کامران ٹکٹ لے کر اپنے ساتھی کے قریب پہنچ چکا تھا فلم کیسی تھی اداکاری کس نہج کی تھی ۔گانوں کا کیا انداز تھا فلم دیکھنے کے بعدآج ان کے موضوع نہیں تھے جو فلم دیکھنے کے بعد ان کا موضوع ہوا کرتے تھے وہ تو آج عجب خان کی شخصیت پر ہی بات کئے جا رہے تھے عجب خان کی شخصیت تھی ہی کچھ ایسی۔بات عجب خان کی ہورہی ہو اور اس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقہ غیر کا تذکرہ نہ ہو تو بات ادھوری سی لگتی ہے وہاں لوگوں میں پھیلی ہوئی داستانوں کے مطابق جب برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر انگریز حکمرانوں کی حکومت تھی تو اس زمانے میں ایک مرتبہ گھروں کی تلاشی کے دوران انگریز فوجیوں نے عجب خان کی والدہ سے نازیبا رویہ اختیار کیا جب یہ بات عجب خان اور اس کے بھائی کو معلوم ہوئی تو وہ انتقام لینے کوہاٹ چھائونی انگریز افسر کے بنگلے پہنچے اس کارروائی کے دوران انگریز افسر کی بیوی خنجر لگنے سے ہلاک ہوگئی حالانکہ عجب خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔پاکستان کو جوہری قوت سے سرفراز کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم نے اخبار جنگ کے 26 مارچ 2012 کے کالم میں عجب خان کا تفصیل سے تذکرہ کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ عجب خان نے انگریز افسر کی بیٹی مس ایلس کو اغوا کر لیا بعد میں ایک معاہدے کے تحت مس ایلس واپس کر دی گئی لیکن حیرت کی بات ہے اتنا طویل عرصہ عجب خان کی قید میں رہنے کے باوجود اسے کسی قسم کی گزند نہیں پہنچائی گئی تھی اور پاک ہی رہی یہ اپریل 1923 کا واقعہ ہے مس ایلس بعد میں1983 میں پاکستاں آئی تھیں اور اپنی والدہ کی قبر پر گئی تھیں۔وہ اس بنگلے میں بھی گئیں جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا تھاڈاکٹر قدیر لکھتے ہیں کہ 1973 میں اس واقعہ کے پچاس سال پورے ہونے پر مس ایلس نے لندن میں اپنے گھر میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا اس پارٹی میں وہ تمام انگریز افسران جو 1923 میں اس علاقہ غیر میں تعینات تھے نے شرکت کی تھی پختونخوا صوبے کے پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف بنگش نے بھی اس تقریب میں شرکت کی تھی وہ اس زمانے میں لندن میں رہاہش پذیر تھے۔یاد رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف بنگش کے والد ڈاکٹر عبدالرحیم خان بنگش اس وفد میں شامل تھے جو مس ایلس کو بازیاب کرانے کے لئے 1923 میں مذاکرات کے لئے گیا تھا ڈاکٹر قدیر کہتے ہیں کہ مس ایلس نے بتایا کہ عجب خان کردار کا بلند تھا اپنے علاقہ غیر میں لے جا کر مس ایلس کو اپنی والدہ اور دوسری خواتین کے حوالے کردیا عجب خان نے مس ایلس سے بہن کا سلوک کیا۔علیحدگی میں کبھی ملنے کی کوشش نہیں کی جب بھی سامنا ہوا تو ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھیں مس ایلس نے بتایا کہ میرے ساتھ کسی قسم کی دست درازی یا بدتمیزی نہیں کی گئی ۔عجب خاں کے آبائی علاقے میں لوگوں نے اسے خراج تحسین پیش کر نے کے لئے عجب خان کا ایک مجسمہ ایستادہ کر رکھا ہے۔پاکستان کو جوہری قوت سے سرفراز کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم نے اخبار جنگ کے 26 مارچ 2012 کے کالم میں عجب خان کا تفصیل سے تذکرہ کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ عجب خان نے انگریز افسر کی بیٹی مس ایلس کو اغوا کر لیا بعد میں ایک معاہدے کے تحت مس ایلس واپس کر دی گئی لیکن حیرت کی بات ہے اتنا طویل عرصہ عجب خان کی قید میں رہنے کے باوجود اسے کسی قسم کی گزند نہیں پہنچائی گئی تھی اور پاک ہی رہی یہ اپریل 1923 کا واقعہ ہے مس ایلس بعد میں1983 میں پاکستاں آئی تھیں اور اپنی والدہ کی قبر پر گئی تھیں ۔وہ اس بنگلے میں بھی گئیں جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر قدیر لکھتے ہیں کہ 1973 میں اس واقعہ کے پچاس سال پورے ہونے پر مس ایلس نے لندن میں اپنے گھر میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا اس پارٹی میں وہ تمام انگریز افسران جو 1923 میں اس علاقہ غیر میں تعینات تھے نے شرکت کی تھی ۔پختونخوا صوبے کے پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف بنگش نے بھی اس تقریب میں شرکت کی تھی وہ اس زمانے میں لندن میں رہائش پذیر تھے یاد رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف بنگش کے والد ڈاکٹر عبدالرحیم خان بنگش اس وفد میں شامل تھے جو مس ایلس کو بازیاب کرانے کے لئے 1923 میں مذاکرات کے لئے گیا تھا ۔ڈاکٹر قدیر کہتے ہیں کہ مس ایلس نے بتایا کہ عجب خان کردار کا بلند تھا۔ اپنے علاقہ غیر میں لے جا کر مس ایلس کو اپنی والدہ اور دوسری خواتین کے حوالے کردیا عجب خان نے مس ایلس سے بہن کا سلوک کیا علیحدگی میں کبھی ملنے کی کوشش نہیں کی جب بھی سامنا ہوا تو ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھیں مس ایلس نے بتایا کہ میرے ساتھ کسی قسم کی دست درازی یا بدتمیزی نہیں کی گئی ۔عجب خاں کے آبائی علاقے میں لوگوں نے اسے خراج تحسین پیش کر نے کے لئے عجب خان کا ایک مجسمہ ایستادہ کر رکھا ہے پاکستان میں عجب خان کے بارے میں مختلف زبانوں میں فلمیں بن چکی ہیں پہلی فلم 1960 میں اردو زبان میں بنی تھی جس میںسدھیر اصل نام شاہ زمان آفریدی نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا میںنے اس وقت کوئٹہ میں راحت سینما اب بند ہو چکا ہے میں یہ فلم دیکھی تھی۔