(گزشتہ سے پیوستہ)
غلام قادر بیگ
گوادر کی خریداری :پاکستان کے قیام کے بعد گوادر عرب'' سلطنتِ اومان '' کی ملکیت تھا جس پر اغیار کی نظر لگی ہوئی تھی مگر پاکستان کے پاس اتنا فارن ایکسچینج نہیں تھا کہ اس اسٹر یٹیجک اہمیت کے حامل علاقہ کو خرید کر وطن عزیز کا حصہ بنائیں ، ہز ہائنس سر سلطان آغا خان نے اپنے ذاتی وسائل سے اس بیش بہا خزانہ کو خرید نے کا تاریخی فیصلہ فرمایا چنانچہ آپ کی ہدایت کی روشنی میں ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان چہارم نے ١٩٥٨ء میں گوادر کو اومان حکومت سے خرید کر پاکستان کے حوالہ کیا یہ وزیر اعظم فیروز خان نون کا زمانہ تھا ، آج یہ معروف ''ڈیپ سی بندرگاہ '' سی پیک راہداری روٹ کی اہمیت کے لحاظ سے پاک چین دوستی،اقتصادی استحکام، عسکری تعاون اورروشن مستقبل کی ضامن ہے۔ تعلیم و تربیت: آپ کراچی میں پیدا ہوئے تو دادا جان امام حسن علی شاہ آغا خان (اوّل)نے آپ کا نام'' محمد سلطان'' رکھا اور فرمایاکہ''یہ بچہ عہد آفرین ہو گا،ان کے دور میںدنیامیں عظیم انقلابات برپا ہونگے، اور وہ سلطان(بادشاہ) بنکر اسلامی دنیا اور انسانیت کی فلاح کے لئے عجیب وغریب کام کریں گے''۔وقت نے اس پیشگوئی کو سچ کر دکھایا ،کہ بجلی، ٹیلیگراف ،ریڈیو،ہوائی جہاز اور صنعتی و تکنیکی انقلاب آپ کی آنکھوں کے سامنے برپا ہوا۔جس کے نتیجے میںحضرت انسان جو زمین پر رینگ رہا تھا علم اور ہنر کی طاقت سے فضائوں میں پرواز کرنے لگا،آپ کی والدہ نواب عالیہ شمس الملک جو ایران کے سلطان قاچار'' فتح علی شاہ'' کی پوتی تھی بڑی دیندارخاتون تھی، وہ اس حقیقت سے آشنا تھی کہ آنے والے سائنسی انکشافات کے دور میں ا سلام کے ایک ترقی پسند طریقہ کے ''روحانی پیشوا '' کو عالمی سطح پر ایک فعّال کردار کے لئے کس قسم کی تربیت درکار ہے، چنانچہ انھوںنے اپنے فرزندِ دلبند کو تکمیلِ شخصیت کے لئے دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیا میں رائج جدید علوم سے بھی لیس کیا،جس سے آپ اسلام اور انسانیت کے پلیٹ فارم پر فلاحی کاموں اور اقوامِ عالم سے قریبی تعلقات کے لئے گلوبل ویژن کے ساتھ ایک متحرک شخصیت کے مالک بن گئے۔آپ نے کیمبرج یونیورسٹی اورایٹن جیسی درسگاہوں سے بھی استفادہ کیا ،آپ نے حکیم ناصر خسرو،رومی،حافظ، عطار،فردوسی،عمر خیام اور سعدی کے'' فکری ورثے'' کا باریکی سے مطالعہ کیا اور مغرب کی اعلیٰ شخصیات کے سامنے اسلامی فلسفہ اورتصوف و روحانیت کے اس منظوم و منثور روح پرور حکمتی خزانے کا تعارف کرایا۔ہز ہائنس آغا خان(سوئم) اسماعیلی مسلمانوں کا اڑتالیسواںامام تھے ،جو اپنے والدِ بزرگوار امام آغا علی شاہ کی رحلت پر تقریباََ آٹھ سال کی عمر میں مسندِ امامت پرجلوہ افروز ہوئے ،آپ نے اس موقع پر فرمایا کہ میں حضرت فاطمہ اور حضرت علی المرتضیٰ کی اولادہونے کے ناتے سے اُن کے فضائل کا وارث ہوںاور اس وجہ سے میرا غیر منقطع سلسلہ رسولِ پاکۖ سے جاملتا ہے(مفہوم) ، مریدوں نے آپ کے عہد کو یادگار بنانے کے لئے گولڈن، ڈائمنڈ اور پلاٹینم جوبلیاں منائیں، ان کا مقصدذاتی شہرت یا تشہیرہر گز نہیںتھا، بلکہ اس سلسلے میں جمع شدہ مالی وسائل سے کمیونٹی کے لئے تعلیم، صحت،انشورنس، اقتصادیات اور سماجیات میں فلاحی پروجیکٹس بنائے گئے،اسی ڈائمنڈ جوبلی فنڈ سے کراچی، گلگت ،ہونزہ ، غذر اور چترال جیسے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میںمرحلہ وار ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں کا اجرا کیا گیا، ان اسکولوں اور اسکالر شپ پروگرام سے دوسرے مکاتبِ فکر کی نئی نسل نے بھی استفادہ کیا،کہتے ہیں، کہ مفکرِ پاکستان علّامہ اقبال نے بھی ہائر اسٹڈیز کے لئے سر آغاخان کے اسکالرشپ پروگرام سے استفادہ کیا تھا اورجرمنی کی ہائیڈل برگ یو نیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ آپ نے خواتین کو تعلیم کے میدان میں ترجیح دینے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا'' جس کے پاس ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے اور وہ صرف ایک بچے کو پڑھا سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹی کو اسکول بھیجے، اس سے خاندان ترقی کرے گا اوربیٹے کو کسی ہنر سے وابستہ کریں''۔ یہ ہز ہائنس کی حکیمانہ رہنمائی تھی کہ جس پر عمل کرنے سے شرح خواندگی بلند کرنے اورخاندانوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی اخلاق و کردار کی تعمیر میں مدد مل سکتی ہے ،آپ نے اپنے مریدوں کو تاکید کی ہے کہ وہ جس ملک کے باشندے ہوں، اُس ملک کے وفادار اور آئین وقانون کے پاسدار رہیں ، اس ہدایت پر عملدرآمد کے نتیجے میں اِن پُرامن شہریوں کو ہرحکومت اور سماجی حلقوں سے عزّت و تکریم ملتی ہے اورحکومت و ریاست دونوں اُن پراہم ملکی امور میں اعتماد کرتی ہیں۔