پچھلے سات برسوں کے دوران فن سین فائلز، دی پیراڈائز پیپرز، اور پانامہ پیپرز، جیسے ہوشربا انکشافات کے بعد ایک بار پھر پینڈورا پیپرز نے ہمارے دماغوں کے پرخچے اڑانے کی کوشش کی ہے۔پینڈورا پیپرز وہ دستاویزات ہیں جن میں عالمی رہنماﺅں کے کیے گئے گھوٹالوں کو اور ان کی خفیہ دولت کو بے نقاب کیا گیا۔ عالمی رہنماﺅں، سیاستدانوں، اور ارب پتی افراد کی خفیہ دولت اور مالی لین دین کی تفصیلات ایک بڑے مالی سکینڈل سے متعلق دستاویزات کے سامنے آنے سے بے نقاب ہو گئی۔وفاقی وزرا سمیت سات سو پاکستانیوں کے آف شور کمپنیوں کے مالک ہونے کا انکشاف ہوا۔محترم جناب وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب بھی اسی لیکس میں شامل ہیں۔جو وزیر خزانہ بننے کے بعد صبح، شام یہی بھاشن دیتے رہے کہ ملک کی ترقی کیلئے مہنگائی کرنا ہو گی پھر ہی ملک ترقی کرے گا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ملک کی ترقی کا بھاشن دینے والے ہی ملک کی بدنامی کا باعث بنیں گے، اور ملکی قرضوں میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔سینیٹر فیصل واوڈا، جو اقتدار میں آنے سے پہلے کرپشن، بلیک منی اور گھوٹالوں کے سخت ترین مخالف تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ جرائم کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اپنے مخالفین کے سخت ترین مخالف ہیں۔خسرو بختیار صاحب آٹے سے منافع کماتے ہوئے لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے آف شور جائیدادیں بناتے رہے۔ وزرا کے علاوہ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران اور میڈیا مالکان کے نام بھی سامنے آئے جنہوں نے پاکستان کو مقروض کرتے ہوئے آف شور کمپنیاں بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔اگر آج ملکی حالتِ زار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ملک کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔چینی مافیا، آٹا مافیا، پٹرول مافیا، ماسک مافیا، ادویات مافیا اور نہ جانے کتنے مافیاز کے ساتھ گزارا کرنا پڑا، بلکہ گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سوئس بینک، اومنی گروپ، اقامہ جیسے الفاظ ہمیں کیوں سننا پڑے؟ پاکستان کا اتنا پیسہ باہر کے بینکوں میں کیسے جمع ہو گیا؟ اگر ملکی قرضے کی بات کی جائے تو 2021 میں پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ انتالیس ہزار آٹھ سو انسٹھ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن ہمارے وطن سے محبت کرنے والے یہ لوگ، ملک کو مقروض کرتے ہوئے اپنی آف شور جائیدادیں بنانے کو ترجیح دیتے رہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں دن رات پستی رہی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبتی رہی، لیکن ہمارے یہ محب وطن، ہمارے پیسے باہر کے بینکوں میں رکھتے رہے۔ یہ کتنے افسوس، دکھ اور شرم کی بات ہے۔اس ملک میں غریب لوگ دن رات محنت کرکے زندگی گزارتے ہیں، لیکن چند لوگ گھپلے کر کے پبلک کا پیسہ لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنا کر کچھ روپے رشوت دے کے اپنے آپ کو لیگل کر لیتے ہیں۔یہ غریب اپنے خون کے ایک ایک قطرے کو پانی کی طرح بہا کر گوبر میں، گٹر میں، گلی میں اور کنوﺅں میں روز روز کام کر کے پیسے کماتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو پال سکیں اور کم از کم ایک وقت کی روٹی کھلا سکیں۔ گھی، مرچ، نمک، آٹا، سبزی، صابن، پٹرول اور بجلی یہاں تک کہ اپنے پینے کے پانی پر اور تن ڈھکنے والے کپڑوں کے پیسوں میں بھی کٹوتی کر کے سرکار کو کسی نہ کسی صورت میں پیسے دیتے آرہے ہیں۔ لیکن ہمارے محب وطن سیاستدان ان پیسوں کی آسانی سے خردبرد کر کے اپنے ملک سے باہر، دوسرے ملکوں میں اربوں کی جائیدادیں بناتے آرہے ہیں۔اپنے ملک کے خزانے کو خالی کر کے، مہنگائی کا بوجھ لوگوں کے سروں پر ڈال ڈال کر لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے لیکن اس کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ اس کیلئے ذمہ دار صرف یہ حکمران ہی نہیں بلکہ ہم سب بھی ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہر بار ووٹ ڈال ڈال کر جتانے والی اس بے وقوف عوام کو کب شعور آئے گا؟ یہی عوام اپنی مشکلات کو کم کروانے کیلئے اور معاشرے میں آسانی سے سانس لینے کیلئے ان کو پارلیمنٹ بھیجتی ہے۔اور وہاں صرف ان کی ایک دوسرے کو چور چور کہنے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔پاکستان کے قرضوں میں اضافے کا سبب بھی یہی منی لانڈرنگ ہے، جس سے آئے روز مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ جب پٹرول، گیس، بجلی، اور ڈالر مہنگا ہو جائے تو سمجھ لینا آپ کی حکومت چور ہے۔ان کی یہ بات آج بالکل سچی ثابت ہو رہی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے وزرا اور سابق معاون خصوصی وزیراعظم، آف شور جائیدادیں بنانے میں ملوث ہیں۔ لیکن وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب کی ہٹ دھرمی دیکھیں۔۔۔تحقیقات کرنے کی بجائے کہہ رہے ہیں کہ پینڈورا پیپرز ٹائیں ٹائیں فش ہے۔ کاش ان سے کوئی پوچھ سکتا کہ یہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا۔اور انہوں نے جائیدادیں کیسے بنا لیں۔اس دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے کرائمز ہوتے ہیں وہ سب بلیک منی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ سارے فساد کی جڑ یہ بلیک کا پیسہ ہے، سبھی ناجائز کاموں کی وجہ بھی یہی ہے۔ چور، لٹیرے، گورنمنٹ کو خریدنے والے بااثر کاروباری لوگ، بڑے بڑے سیاستدان، ان سب کا وجود ان سب کے پاس آنے والی وہ بے ایمانی کی کمائی ہے، جو ان کو سبھی غریبوں کا خون چوسنے پر مجبور کرتی ہے۔ کسی امیر کے کالے دھن کا ایک بڑا حصہ اگر ملکی قرضہ اتارنے کیلئے وقف کر دیں گے تو اس ملک کا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ گردشی قرضے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ان قرضوں کا پیسہ مہنگائی کر کے عوام سے چھینا جارہا ہے۔ امیر لوگوں کو مہنگائی کی پروا ہی نہیں۔ان کے بینکوں میں پیسے جمع ہیں، مسئلہ تو ان غریبوں کو ہے جو بیمار ہوں یا تندرست، کام کریں گے تو پیسہ کما سکیں گے ورنہ بھوک سے بلک بلک کر اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے۔یہ باتیں سوچنے کی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ غور کرنے کی بھی ہیں۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال ڈال کر اور مہنگائی کرکر کے اور دوسرے ملکوں سے قرضے لے لے کر ملکی قرضوں کو کسی صورت بھی اتارا نہیں جا سکتا۔یہ سات سو لوگ اور اس سے پہلے جن لوگوں کے گزشتہ لیکس میں نام آئے، اگر وہ اپنے کالے دھن کو پاکستان لا کر اور باہر کے بینکوں میں گلتی اور سڑتی دولت کو پاکستان لے آئیں تو قرضوں کا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ملک پھر ہی خودمختار ملک کہلانے کا حقدار بن پائے گا، آئی ایم ایف کے شر سے پھر ہی بچا جا سکے گا۔صرف چودہ اگست کو جشن آزادی منا کر آزادی کے مقصد کو پورا نہیں کیا جاسکتا، اصلی آزادی تو ہمیں تب ملے گی جب ان جیسے لوگوں کو بلیک منی پاکستان واپس لانے کیلئے مجبور کیا جائے گا۔ تب ہی ہم آزاد ہوں گے، جب وہ دن آئے گا پاکستان کے سارے قرض دور ہو جائیں گے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کر پاتے ہم غلام ہی رہیں گے۔۔۔ایک غلام اور ذہنی طور پر مفلوج اور اپاہج قوم۔
