سیاحتی صحافت

سکردو کو پاکستان کا سیاحتی کیپیٹل قرار دیئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کئی دلربا وادیوں اور بیسوں دلفریب سیاحتی اسپاٹس سکردو کے دامن گیر ہیں۔ اپنے قدرتی مناظر کے ذریعے سیاحوں کے لیے بھرپور کشش رکھنے والا خطہ بلتستان ملک کا سیاحتی حب بننے کا پوٹینشل رکھتا ہے۔ شنگریلا، دیوسائی، اپر کچورا فڑوق ڑھو، بلائنڈ لیک جاربا ڑھو، سدپارہ جھیل, منٹھوکھا آبشار، کھرپوچو، حسین آباد آبشار، خموش آبشار، کتپناہ، خپلو، تھلے، پوری وادی شگر، بشو۔ یہ مشہور اور مطبوع خاطر سیاحتی مقامات اپنی جگہ۔ تاہم اب کے گاو ¿ں گاو ¿ں قریہ قریہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت پکنک پوائنٹ دریافت ہو رہے ہیں۔ ادھر کراچی اور پنجاب کے مختلف شہروں سے براہ راست پی آئی اے پروازوں نے پاکستان کے کچھ دنوں کے لیے سکون کے متلاشی سیاحوں کو راست بلتستان کا رستہ دکھلایا ہے۔ اس وقت بلتستان میں سردیاں دبے پاو ¿ں داخل ہوا چاہتی ہیں، ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں سے روز جوق درجوق سیاح بھی اس یخ بستہ علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔ سیاحوں کی آمد کا بوم تھمنے میں نہیں آ رہا۔ بلتستان کا حسن ابھی دنیا پہ کھلنا ہے۔ دنیا صرف شنگریلا کو سکردو سمجھ رہی تھی۔ اب اس خوبصورت علاقے کا چپہ چپہ ایکسپلور ہوا چاہتا ہے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ بلتستان کے قدرتی حسن کی مزید اچھی سی تشہیر کی ضرورت ہے۔ سیاحت کے ساتھ ساتھ یہاں کی ثقافت کو بھی دنیا کو دکھلانا عصر نو کا تقاضا ہے۔ اگر پروفیشنل انداز میں بلتستان کو دنیا یا کم از کم پاکستان میں ایکسپلور کیا جائے تو بلامبالغہ ٹورازم سکردو کی سب سے بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے۔ سوال یہ کہ بلتستان کو پاکستان میں کیسے متعارف کرایا جائے؟ ٹورازم یعنی سیاحت کا شعبہ اب مشرقی دنیا میں بھی کماو ¿ پوت بن چکا ہے۔ عرب دنیا بھی اب تیل پہ انحصار کم کرتے ہوئے معشیت کی گاڑی کو سیاحت کے ذریعے چلانے کی پالیسی بنا رہی ہے۔ یہاں تک کہ اب حج، عمرہ، زیارات کو بھی Religious Tourism کہا جانے لگا ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے کو بھی سیاحت سے نتھی کرتے ہوئے ایگری ٹورازم کی اصطلاح پہلے ہی مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ اب touri Journalism یعنی سیاحتی صحافت وقت کی ضرورت ہے۔ سیاحتی صحافت یعنی صحافت برائے سیاحت۔ بالفاظ دیگر یہ کہ سیاحت کے فروغ کے لئے صحافت۔ اس صنف صحافت میں رپورٹنگ، فوٹو گرافی، ویڈیو میکنگ، ویڑول ایڈیٹنگ، فوٹو اینگلننگ، اسکرپٹ رائٹنگ، سمارٹ رائٹنگ جیسی مہارتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں پنجاب یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی میں ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشن (ڈیویلپمنٹ جرنلزم) یعنی ترقیاتی صحافت کے نام سے باقاعدہ الگ شعبہ علم (ڈیپارٹمنٹ) قائم ہو چکا ہے۔ جبکہ دیگر جامعات میں ڈیویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن کا مضمون شعبہ ماس کمیونیکشن کے کورس کا حصہ ہے۔ میرا یہ آئیڈیا ہے کہ اب صحافت اور سیاحت کو بھی باہم مربوط کرنا چاہیے۔ جس طرح ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشن میں ترقی کے لیے صحافت کا استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ایک نیا اکیڈمک شعبہ قائم کرنا چاہیے ٹوری جرنلزم یا ٹوری کمیونیکیشن۔ ٹوری کمیونیکیشن کو سیاحت کے فروغ کے لیے زینہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے ہنوز دنیا میں ٹوری جرنلزم کی اصطلاح رائج نہیں ہے۔ اس کی شروعات پاکستان سے کی جا سکتی ہے۔ اور پاکستان میں گلگت بلتستان اس کے لیے موزوں تر ہو سکتا ہے۔ قراقرم یونیورسٹی، بلتستان یونیورسٹی، محکمہ سیاحت و ثقافت گلگت بلتستان اور دیگر متعلقہ ادارے اس جانب توجہ دیں تو ابلاغ و صحافت کے ذریعے علاقے کو سیاحتی مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر سیاحتی صحافت (سیاحتی ابلاغیات) کو ڈیپارٹمنٹ کی صورت نہ بھی دی جائے تو کم از کم شعبہ ماس کمیونیکیشن، منیجمنٹ سائنس، کلچرل اسٹیڈیز اور ٹورزم اینڈ ہاسپٹلٹی میں اسے علےحدہ مضمون کے طور پر کورس کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ نیز ٹوری جرنلزم (ٹوری کمیونیکیشن) کے شارٹ کورسز بھی متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ نظری علوم اور عملی مشاہدات یعنی اکیڈمک اور پریکٹیکل دونوں کے گٹھ بندھن کے بننے والا مفید اور جدید کورس یا ڈیپارٹمنٹ ہو سکتا ہے۔ اس شعبہ علم کا سکوپ بھی نظر آتا ہے اور مارکیٹ بھی۔ یعنی یہ علم بھی ہو سکتا ہے اور روزگار بھی۔