تنوع کی آخری رسومات

ڈاکٹر ذاکرحسین ذاکر
جب سے یکساں نصاب ِ تعلیم کی نفاذ کے چرچے  شروع ہوئے ہیں، میرے دل میں گْدگْدی ہو رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ لکھوں، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ مصروفیات کے علاوہ ہزار مصلحتیں آڑے آتی رہیں بالکل اسی طرح جس طرح ہر جدت پسند اور تنوع پسند لکھاری کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ پروردگار عالم نے اربوں انسانوں میں سے کسی دو کو بالکل  ایک جیسے نہیں بنایا، کارخانہ قدرت میں ہر فرد یکتا  اور منفرد ہے اور یہیں سے ہمیں خالق کی یکتائی کا سبق ملتا ہے لیکن کیا کیا جائے ، ہمیں اس زعم میں مبتلا کر دیا ہے کہ اپنے علاوہ جو بھی انسان ہو اسے بھی اپنے جیسا بنائیں، کسی نہ کسی طریقے سے۔ اگر فطرت، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر ایک جیسا بننا مشکل ہو تو یکساں کپڑے پہنا کر سب کو ایک جیسا بنادیں۔ اتفاق سے یکساں لباس کو اردو میں وردی اور انگریزی میں یونیفار م کہلاتا ہے۔ جو بہت ضروری ہے لیکن ایک خاص پیشے کے لیے۔ اگر تمام انسانوں کو ایک جیسی وردی پہنادیں تو صورت حال کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ کچھ احباب کو ایسا کرنے کا بھی شوق ہے۔ جس نصاب ِتعلیم کو یکسان (یونیفارم) کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ، یہاں بھی تمام کورسز اور مضامین کو ایک ہی قسم کی وردی پہنانے کی کوشش ہے۔ جس طرح مرحوم صدر جنرل  ضیاء الحق کے دور میں تمام مضامین کو اسلامیات کی ودری پہنادی تھی، ابھی نہیں معلوم کہ اس دفعہ نصاب کو کون سی وردی پہنائی جائے گی۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے  میں نے غلط مثال دی۔ جی ہاں مثال  اور وہ بھی وردی والی مثال واقعی بالکل بے ڈھنگ سی لگتی ہے لیکن  حقیقت کچھ زیادہ مختلف بھی نہیں۔ ہر مضمون کی اپنی ایک شناخت ، مزاج ، وضع قطع، زبان  اور شکل و صورت ہو تی ہے۔ اگر کسی بھی دو مضامین کے انفرادی خواص یکساں بنانے کے لیے ان کا اچار بنائیں تو کھٹا میٹھا سالن ٹائپ کی کوئی ملغوبہ بر آمد ہوگا۔عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنس کو سائنس رہنے دیں، فلسفے کو فلسفہ۔ دینیات کو معاشرتی علوم اور تاریخ کو دینیات بنانے کی غلطی نہ کریں۔ تاہم یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے یکسا ں نصاب کی۔دوسرا رْخ جس کی طرف میں  نے شروع میں اشارہ کیا تھا وہ ہے افراد کے انفرادی تنوع اور فرق کی۔ جب ہم یکساں نصاب تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی سطح کے زیر تعلیم  تمام افراد  کے لیے ایک جیسا نفس مضمون، ایک جیسی طریقہ تدریس، ایک جیسا جائزہ اور طریقہ امتحان لاگو ہوگا۔ سادہ لفظوں میں سمجھا دوں تو یوں کہیں کہ ایک جماعت  یا کلاس یعنی درجے میں زیر تعلیم ملک بھر کے طلباء و طالبات کو ایک جیسے طریقہ تدریس کے تحت ایک جیسے مواد پڑھائے جائیں گے۔  میں یوں کہوں گا کہ کراچی سے خیبر تک ،گوادر سے سیاچن تک تمام بچوں کو  ایک وقت میں ایک ہی کھانا کھلایا   جائے گا وہ بھی ایک ہی دیگ کا پکا ہوا۔ دال روٹی ، چلو آپ اسے بریانی کا نام دیں لیکن اس میں نمک اور مرچیں کراچی والوں اور بلتستان والوں دونوں کے لیے یکساں ہوں گی کیونکہ طریقہ تدریس (پکانے کا طریقہ ایک جیسا ہے)۔ اگر کراچی کا حلیم کھا کر گلگت بلتستان کے بچوں کا ہاضمہ ٹھیک رہے، تو چلو تجربہ کر سکتے ہیں لیکن ایسا ہونا مشکل ہے۔ میں   مجوزہ 'یکساں نصاب تعلیم'  کے ٹیکنیکل پہلوؤں پر بحث نہیں کروں گا ، بلکہ عام قارئین  کے لیے سادہ فہم انداز میں بات سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ آخر ہماری ذوق کو کیا ہوا ہے؟ ہم تنوع سے اس قدر خائف کیوں ہیں؟ ہمیں قسم قسم کی نعمتیں کیوں راس نہیں آتیں؟ صرف من و سلویٰ کے شوقین کیوں ہیں؟ آج کچھ ماہرین تعلیم احباب کے ساتھ بات ہو رہی تھی تو ایک صاحب نے  دوستوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا پہلا با ذوق احباب، دوسرا بے ذوق احباب اور تیسرا بد ذوق احباب۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارا یکساں نصابِ تعلیم تجویز کرنے والوں کا تعلق احباب کی تیسری قسم سے ہوگا۔ جن کے لیے فیض باغی، منٹو بے حیا، غالب شرابی، فراز  فاسق، صادقین بدعتی وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اور خود اشرف المخلوقات، پابند صوم و صلواة، مؤمنین صادقین، پکے محب وطن، اچھے پاکستانی، سچے مسلمان وغیرہ وغیرہ ہیں۔  اب لازمی ہے ان پاکیزہ صفات کے حامل بندگان خدا کی پہچان کے لئے خاص قسم کا لباس تو ضروری ہے وگرنہ کردار سے کیسے پہچانے جائیں گے، کردار تو دھوکہ دے سکتا ہے، شاید لباس نہیں۔ فرض کریں میری کلاس میں تیس بچے ہیں تو ماہرین تعلیم کے مطابق اس کلاس میں تیس مختلف بچے ہیں جن کا مزاج، سیکھنے کا انداز، ترجیحات، دلچسپیاں، شوق، قابلیت ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ملتے جلتے ہو سکتے ہیں لیکن بالکل یکساں ہونا ممکن نہیں۔ اب  ایک ایسی کلاس  کو جس میں کوئی چاول کھانا چاہتا ہے، کوئی روٹی، کوئی دال تو کوئی سبزی اور ماہرین صحت کہتے ہیں کہ متوازن غذا میں ان تمام انواع و اقسام کی غذائیں شامل ہوتی ہیں۔ پھر اسی آٹے ، تیل، پانی اور نمک سے کوئی پراٹھا ، کوئی چپاتی، کوئی پراپو  کو پسند کرتا ہے اور طریقہ تدریس کے ماہرین کے مطابق ایک استاد ایک ماہر شیف کی طرح ہر بچے کو اس کی پسند کا کھانا بنا کر پیش کرتا ہے اگرچہ مواد وہی ہے۔ جو سکول بچوں کی انفرادی تفریق یا تنوع کو زیادہ عزت دیتے ہیں وہ مواد بھی مختلف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہر بچے کو اپنے پسند کی غذا ملے جسے وہ خوب کھا سکے اور جس سے اس کی صحت بہتر سے بہتر ہو۔ بہر حال اب حکومتی فیصلوں کے مطابق آپ تیار رہیں، ایک ہی دیگ کی پکی ہوئی دال روٹی کھانے کے لیے جس میں نمک اور مرچیں بھی سب کے لئے برابر ہیں۔ اگر کسی کو برابر نہیں آتا تو یہ اس بچے کی ذوق اور حسِ لذت  کی خرابی ہے کہ اسے سرکار کی نمک اور  مرچیں   یا زیادہ لگتی ہیں یا کم۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ سرکار کو میری ہری مرچیں کچھ زیادہ ہی لگیں گی کیونکہ دیگ میں صرف سرخ مرچیں تھیں، ہری مرچوں کا اضافہ میں نے کیا ہے۔ نمک کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ نمک تو ہمارا قومی سرمایہ ہے، نمک جتنا بھی ہو، اسے حلال سمجھ کر نگلنا چاہیے، بے شک بلڈ پریشر دو سو سے اوپر ہی کیوں نہ جائے۔ بلتی میں نمک زیادہ کھلانے کے کچھ اور مقاصد بھی ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہم کیا کرسکتے ہیں تنوع کے بچے کچھے لاشوں کو کندھا دینے کے سوا۔ بس آخری رسومات ادا کرکے سو جاتے ہیں میرے کی بورڈ سے کچھ اور الفاظ بھی پھسلنے کی کوشش کر رہے ہیں، بہتر یہی ہوگا کہ کسی بھی لفظ کوپھسلنے سے بچا  اور بچایا جائے۔