پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ
اَدب اور فنون لطیفہ معاشرے میںتحمل ،بُردباری ،محبت اور احترام کا آئینہ دار ہوتاہے ۔جن معاشروں میں علم و اَدب کے مذاکرے ہوتے ہیں ۔وہاں انسانوں کی شخصی اور اجتماعی آزادی کا تصور زیادہ قوی ہوتاہے ۔اَدب نظم و نثر کے ذریعے معاشرے کے حساس افراد کے لطیف خیالات کے اظہار کی ترجمانی کرتاہے ۔اس میں جہاں حُسن وجمال کا ذکر ہوتاہے ۔وہاں معاشرے کے منفی رجحانات پر تنقید کرتے ہوئے اُن کے لئے بہتری اور نشوونما کا رستہ بھی فراہم کرتا ہے ۔اَدب صرف گل وبلبل کے تذکروں سے ماخوذ نہیں بلکہ فراق وجدائی کے ہزاروں قصوں کو اپنے اندر سموئے ہوتاہے ۔اُردو زبان اور اُردو شعر واَدب سے میری عقیدت کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں۔میرے والد محترم حاجی امان اللہ خان کے علمی اور ادبی محاسن کے میری شخصیت پر گہرے نقوش ہیں۔انہوںنے منشی فاضل فارسی میں ایم اے کیااور اس کے بعد ایل ایل بی کی ۔اُن کی فارسی شعرو اَدب اور تاریخ کے ساتھ انتہائی عقیدت نے ہمیں بھی فارسی سمجھنے ،بولنے اور لکھنے پر مجبور کردیا۔اُن کی شخصیت کے امتیازی پہلومثنوی مولانا روم کو پڑھنا اور مترنم آواز میں پڑھنا اور اُن پر سیر حاصل لیکچر دینا بھی شامل ہے ۔مجھے اُن سے مولانا روم کو سمجھنا اور اقبال شناسی کی معرفت حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔دوسری اہم وجہ بچپن میں اہل زبان کے ساتھ رہنا اور ان سے شائستگی وگفتار اور اردو لکھنا پڑھنا سیکھنا ہے ۔ہمارے والدین ہمیشہ اخلاق وکردار اوراکرام بزرگ کے حوالے سے مقمس اِن اہل زبان کی تقلید کرنے کا درس دیتے تھے ۔گورنمنٹ کالج مردان میں تعلیم تعلم کے دوران اہل زبان اُردو کے اساتذہ نے ہمیں اُردو زبان اَدب ،شعر و سُخن کو سمجھنے اوراُ ن کو پرکھنے کے لئے کافی عرق ریزی کی ۔ان میں خصوصاًجناب اقبال نعیم رحمانی صاحب مرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔جن کی سحر انگیز شخصیت اور اُردو دانی ،اُردو فہمی نے ہمیں اس زبان میں بولنے اور سیکھنے کا قابل بنا دیا ۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اور ہمارے دیگر اساتذہ کرام کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات پر فائز کرے ۔آمین ثمہ آمین بلتستان کی خوبصورتی اور رعنائی کئی حوالوں سے بے مثال ہے ۔پہاڑوں کی دلفریبی دریائوں کی سحرانگیزی ، صحرائوں کی وحشت گری، پانیوں کے جھرنے ، تنگ دروں کی سر سبزی اور خصوصاً لوگوں کی مہمان نوازی اور اَ دب پرستی یہاں کا خاصہ ہے۔ چنانچہ میں نے جب بھی بلتستان کا دورہ کیا یہاں اَدب پروروں کی دلکش محفلیں نہ صرف دیکھی ہیں بلکہ اُن سے استفادہ بھی کیا۔ گلگت بلتستان میں یہ عام تاثر ہے کہ بلتستان کے باسی زبان و اَدب ، شعروسُحن اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے گلگت کے مقابلے میں زیادہ مالامال ہیں۔ بقول الہامی صاحب
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیچ میں ہم ہیں
مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
یہ مفروضہ قابل غور ہے کہ کیا اس خطے کی خوبصورتی اور دلکشی یہاں کے لوگوں میں سرایت کرچکی ہے اور اُن کے اندرذوق جمالی رچ بس گیا ہے۔ یا پھر ان اَدب پروروں کی علم و اَدب سے والہانہ محبت نے اِن پہاڑوں اور وادیوں کو مزین کیا ہے۔ بقول حافظ شیرازی
جمال ہمنیش درمن اثر کرد
وگرنہ من ہمیں کاکم کی ہستم
بلتستان کے حالیہ دورے میں شاعر چہازبان شیخ غلام حسن سحر صاحب مرحوم کے تعزیتی اجلاس میں بھی شرکت کا موقع ملا جس کا انعقاد جامعہ بلتستان کے زیر نگرانی کرایا گیا اس اجلاس میں شرکاء اور شعراء واَدیبوں نے سحر صاحب کے علم وفن پر سیر حاصل بحث کی۔ اس تعزیتی ریفرنس میں چار ادبی شہ پارے اور مقالے پیش کئے گئے۔اس کے علاوہ سحر صاحب کی تحریر کردہ بنائے رب جلیلی کے حمد اور منقبت بھی پیش کی گئیں ۔ سحر صاحب ایک درویش منش ، فقیر صفت اور حکیم الطبع انسان تھے جن کے نزدیک زندگی ایک قید اور بے بسی کا نام ہے۔
دست و پارا رسن بستی دہانم درختی
باز میگوئی کہ دراَمیر خودت مختارباش
(ترجمہ: تم نے میرے ہاتھ پائوں باندھ لئے اور منہ سی لیا پھرکہتے ہیں کہ تم خود مختار ہو)
سحر صاحب کے نزدیک زندگی تھی ہی رضائے الہی کے حصول کا نام ہے اور اس کے بغیر یہ محض سراب ہے انسانی دُنیاوی جاہ و جلال' غرور و تکبر میں ابدی زندگی کی کامیابیوں کو بھُول جاتا ہے بقول شاعر:
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں