جاوید ملک
میں نہیں مانتا جب لوگ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی پہچان اس کا حسن جھرنیں آبشاریں اور آسمان کو چھوتی بلند و بالا چوٹیاں ہیں گلگت بلتستان کا حسن تو سید مہدی تھے یہ بلند چوٹیاں تو ان کے پاؤں کی دھول بھی نہ ہیں وہ نہ رہے تو جی بی کے جھرنے ترنم کیسے بپا کر سکتے ہیں یہ گھاٹیاں کیسے مسکرا سکتی ہیں بادلوں کی یہ ٹکڑیاں اٹھکیلیاں کیسے کر سکتی ہیں میں کبھی ان مناظر کا دلدادہ تھا ان کے حسن میں کہیں کھو جاتا تھا لیکن اب تو مجھے ان سے وحشت سی ہونے لگی ہے مجھے ہوائیں سسکیاں لیتی محسوس ہوتی ہیں یوں لگتا برف سے ڈھکے پہاڑ برف نہیں پگھلا رہے آنسو بہا رہے ہیں چپہ چپہ نوحہ خواں ہے آہ سید مہدی آپ کیا گئے پورے گلگت بلتستان کو ہی ویران کر گئے آپ کو لفظ کیوں سے چڑھ تھی اس لیے میں تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ ہمیں تنہا چھوڑ کر کیوں چلے گئے کہ مبادا آپ برہم ہی نہ ہو جائیں۔
سید مہدی برہم ہو جائیں گے یہ بھی تو میری خام خیالی ہی ہے آپ کی پہچان تو خوش دلی تھی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں مشکلات کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوں وہ کبھی بھی آپ کی مخصوص مسکراہٹ کو آپ سے چھین نہ سکیں آپ تو ڈانٹتے بھی ایسے تھے کہ پیار کا گمان ہوتا تھا مجھے کل کی طرح یاد ہے کہ ڈیسک پر جب میں نے پہلی خبر کی سرخی نکالی تو آپ نے مجھے تھپکی دی اور کہا تم تو مجھ سے بھی اچھی سرخی نکالتے ہو چھوٹے بھائی میں جانتا ہوں یہ جھوٹ تھا لیکن ان الفاظ نے مجھے جو حوصلہ دیا وہ آج تک نہیں بھول سکتا آپ لفظوں کے بادشاہ تھے پوری خبر کو چند لفظوں کی سرخی میں جس مہارت سے آپ پروتے تھے ایسا ہنر مند شاید قدرت نے ایک ہی پیدا کیا تھا ہمارے لفظ تو مصنوعی سے ہیں آپ کے لفظوں میں جان تھی وہ ہنستے تھے روتے تھے چھنگاڑتے تھے ایوان اقتدار میں زلزلہ برپا کر دیتے تھے۔
کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر اصلاح آپ کا خاصہ تھا کس خوبصورتی سے اپنے زیر نگرانی کام کرنے والوں کی درستگی کرتے کہ چھوٹے بھائی سرخی تو تم نے کمال نکالی ہے لیکن اگر اس کو ایسے کر دو تو مزہ آ جائے گا۔سید مہدی کے بارے میں لکھنے بیٹھوں تو یادوں کا ایک ہجوم مجھے گھیر لیتا ہے ان کو مرحوم لکھتے ہوئے آج بھی کلیجہ حلق کو آتا ہے وہ تو زندگی کی علامت تھے کیا زندگی خود بھی مر سکتی ہے؟ مجھے اکثر یوں لگتا ہے کہ وہ ہمارے آس پاس ہیں ابھی کسی نکڑ پر آمنا سامنا ہو گا مجھے کان سے پکڑیں گے اور کہیں گے تم پھر ڈیسک سے بھاگ گئے چلو کام کرو اس رپورٹنگ میں کچھ نہیں رکھا۔کمرشل مارکیٹ راولپنڈی کے ایک چھوٹے فلیٹ سے گلگت بلتستان کیلئے ہفتہ وار اخبارات کا اجراء اور بعد میں سب سے مقبول علاقائی روزنامہ کی مسلسل اشاعت سے انہوں نے کارکن صحافیوں کیلئے ایک ایسی مثال چھوڑی ہے جس کا دامن پکڑ کر کامیابیوں کی نئی دنیا بسائی جا سکتی ہے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وسائل کی کمی اور دیگر مشکلات محنت اور لگن کے سامنے رائی جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتیں آخری فتح حوصلے اور جہد مسلسل کی ہوتی ہے۔وہ بہت محنت کرتے تھے بیک وقت اپنے ادارے چلانا اور قومی اخبارات میں بھی کام کرنا بہت کھٹن ہے مجھے کل کی طرح یاد ہے ایک دن ان کی طبعیت کچھ بوجھل سی تھی میں ضد کر کے ان کو چائے پلانے لے گیا اور ان سے لڑنے لگا کہ اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں اور انہیں چھیڑتے ہو کہا کہ اب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں بابا جی آرام کیا کریں تھک جاتے ہیں جس سے طبیعت خراب رہنے لگی ہے انہوں نے گہری سانس لی اور کہا تم میرے بیٹے ہو میں تمہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتا ہوں ہم بہت پسماندہ علاقوں کے لوگ ہیں ہماری زندگیوں میں بدلاؤ اور انقلاب کا ایک ہی فارمولہ ہے تعلیم اور محنت دیکھنا ایک دن میرے بچوں کی کامیابی میری ساری تھکن دور کر دے گی آج جب میں ان کے بچوں سید ابرار ، سید اکرار، سید علی اور سیدہ ناجیہ زہرا کو اعلی سول عہدوں پر دیکھتا ہوں تو دل کو قرار ملتا ہے میرے بھائی بہنوں نے بابا کی تھکن اتار دی انہوں نے یہ ساری خوشیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اب وہ مٹی کی چادر اوڑھ کر آرام سے سو رہے ہیں۔
سابق وزیر داخلہ کرنل شجاع خان زادہ شہید میرے یار غار تھے سید مہدی کی طرح انہیں بھی میری صلاحیتوں پر بہت مان تھا پولیس اصلاحات کے حوالے سے ان دنوں ہم نے بہت کام کیا ان کی ذرہ نوازی تھی کہ میری تجاویز کو اہمیت دیتے اور مجھے اعلی سطحی میٹنگز میں بھی ساتھ رکھتے پولیس کی کسی اندرونی رقابت کے سبب سید علی کے حوالہ سے کچھ متنازعہ باتیں ان تک پہنچائی گئیں میں نے دو ٹوک لہجے میں انہیں کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے کرنل شجاع خان زادہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہو میں نے کہا کیونکہ یہ سید مہدی کا بیٹا ہے جس طرح سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو سکتا اس طرح سید مہدی کی تربیت میں کمی نہیں ہو سکتی۔
سید مہدی کو ہم سے بچھڑے چار سال ہو گئے مجھے ہمیشہ یہ افسوس رہے گا کہ جب ان کا انتقال ہوا میں ملک سے باہر تھا میں ان کا آخری دیدار نہیں کرسکا لیکن یہ خبر ایسی تھی جیسے کسی نے کوہ ہمالیہ میرے سر پر گرا دیا ہو میرا وہ کندھا چھن گیا جس پر سر رکھ کر میں رو سکتا تھا میرا غم گسار چلا گیا میرا حوصلہ ہمت سب لمحوں میں چکنا چور ہوگیا اور اپنے اس محسن کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے میرے پاس کچھ بھی نہیں یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ بھی ان ہی کے سکھائے ہوئے ہیں۔ہائے یہ کیسا پت جھڑ آیا ہے کہ میرے سارے پیارے ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں منو بھائی،عباس اطہر، مسعود ملک، الطاف قریشی سب چلے گئے اور سید مہدی بھی نہ رہے.
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا