پروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ شاہ
شیخ الجامعہ، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی البرٹ آئن سٹائن نے سائنسدانوں اور انجینئرز کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا سائنسدان عمومی طور پر فطرت کے قوانین کی توجیہہ کرتے ہیں۔جبکہ انجینئرز نت نئی اشیا کی تخلیق کرتے ہیں۔سائنسدان اپنے تجربات کی بنیاد پر مظاہر قدرت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے نئے اصول،نظریات اور قوانین فراہم کرتے ہیں۔جبکہ انجینئرز ان قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جدید اور نت نئی اشیا اور خدمات کی تخلیق کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہاں سائنس انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی صنعت کو فروغ دیاجائے۔پچھلے چار پانچ دہائیوں میں جن ممالک نے حیرت انگیز صنعتی اور معاشی ترقی کی ہے۔ان میں عوامی جمہوریہ چین،کوریا،سنگاپور،ملائشیا وغیرہ بھی شامل ہیں۔جوان ممالک میں انجینئرنگ کے شعبے کی ترقی کے مرہون منت ہے۔اس وقت ترقی یافتہ ممالک امریکہ،جرمنی،فرانس اور برطانیہ وغیرہ میں آبادی کے لحاظ سے انجینئرز کا تناسب 5فیصد ہے۔جبکہ پاکستان میں رجسٹرڈ انجینئرز کی تعداد سوا تین لاکھ ہے۔چنانچہ ہر 680افراد میں ایک انجینئر ہے۔جو آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد یعنی 1000افراد میں 1.5یا دو ہزار افراد میں تین انجینئرز ہیں۔جویقینی طور پر بہت کم ہے۔اس کے مقابلے میں بھارت میں دو ہزار افراد میں 5،بنگلہ دیش میں 8،تھائی لینڈ میں 25،سنگاپور میں 50اور جنوبی کوریامیں 75انجینئرز ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اِن ممالک میں ترقی کی شرح پاکستان کے مقابلے میں کافی بہترہے۔پاکستان میں انجینئرنگ شعبے کی زبوں حالی کی کئی وجوہات ہیں۔جن میں بڑی وجہ انجینئرنگ اداروں میں حکومتوں کی بے جامداخلت،بیوروکریسی،سیاست،یونین سازی،اقربا پروری وغیرہ شامل ہیں۔آج سے چند دہائی پہلے پاکستان میں انجینئرنگ کے بڑے ادارے معرض وجود میں آئے جن میں ہیوی مکینکل کمپلیکس،پاکستان سٹیل ملز،ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس،پاکستان انجینئرنگ کمپنی،پاکستان ائیر وناٹیکل کمپلیکس وغیرہ شامل ہیں۔ان اداروں نے پاکستان کی صنعتی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیااور کافی حد تک ملکی معیشت کو سنبھالا بھی دیا۔تاہم بتدریج یہ ادارے اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہوتے گئے اور بالاخریاتو بند کرنے پڑے یانجی شعبے کے حوالے کرنے پڑے۔پاکستان میں انجینئرنگ تعلیم اور پیشہ یعنی روزگار کو جدید بنیادوں پر استوار کرانے کے لئے ایک قانون سازی کے ذریعے پاکستان انجینئرنگ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کو مخفف کے طور پر پی ای سی بھی کہا جاتاہے۔اس کے قیام کے اغراض ومقاصد درج ذیل ہیں۔
انجینئرنگ شعبے کو ماڈرن خطوط پر استوارکرتے ہوئے اس کے ذریعے پائیدار،معاشی و سماجی ترقی کا حصول۔
انجینئرز کے لئے حقیقت پر مبنی بین الاقوامی سطح کے پیشہ وارانہ معیار کا قیام۔
انجینئرنگ اداروں کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے ان کو لائسنس کا اجرا۔
انجینئرنگ شعبے کے اندر اعلی معیار کے حصول کے لئے کاوشیں کرنا۔
انجینئرنگ تعلیم وتربیت کوبین لاقوامی معیار پر لانے کے لیے جدوجہد کرنا۔اس کونسل کے معمولات کو چلانے کے لئے ایک گورننگ باڈی اور مینجمنٹ کمیٹی بنائی جاتی ہے۔جن کے اراکین کا چنائو تمام رجسٹرڈ انجینئرز کی ووٹنگ کے ذریعے تین سال کے لئے عمل میں لائی جاتی ہے۔چیئرمین،سینئروائس چیئرمین کا چنا ملکی سطح پر ہوتاہے۔جبکہ چار صوبوں کے لئے وائس چیئرمین اس صوبے کے رجسٹرڑ انجینئرز کی ووٹنگ کے ذریعے ہوتاہے۔اس کے لئے ملکی سطح پر مختلف ڈسپلنز کے لئے مجلس عاملہ کے اراکین کا چنائو بھی ہوتاہے۔جن کے لئے سیٹیں تو گوکہ صوبائی بنیاد پرانجینئرز کی تعداد کے حوالے سے مختص کی گئی ہیں۔تاہم ان کے ووٹنگ کے عمل میں اس ڈسپلین کے تمام انجینئرز شامل ہوتے ہیں۔اس وقت پورے ملک میں کے عرصے کے لئے پی ای سی کے انتخابات کی تیاریاں عروض پر ہیں۔اور 8اگست 2021کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیاگیاہے۔عالمی افق پراس وقت انجینئرنگ شعبہ بہت تیزی سے بدل رہاہے۔جدید تحقیق اور ان کی ضروریات میں روز افزوں اضافے کی وجہ اس شعبے کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔جن میں عالمی مسابقت یعنی مقابلہ،اشیا کی معیار،قیمت اور پائیداریت،صارفین کا اطمینان اور بروقت مارکیٹ تک رسائی وغیرہ شامل ہیں۔جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے امتزاج نے اس عمل کو مزید پیچیدہ کردیاہے اور چوتھے صنعتی انقلاب کا آغازپہلے ہی ہوچکا ہے۔انجینئرز کے لیے روزگار کے مواقع غیرروایتی شعبوں کی طرف تبدیل ہورہے ہیں۔جن کے لئے جدید علم اور مہارتوں کا حصول ناگزیر ہوگیاہے۔ان تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستانی انجینئرز اور پی ای سی کا کردار مزید اہم ہوگیاہے۔چنانچہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انجینئرز کے اندر اعلی تکنیکی صلاحیتیں موجود ہوں۔ان کے اندر بروقت اور صحیح فیصلہ کرنے اور ٹیم ورک کے ذریعے ان کو فیصلے کے عمل میں شامل کرانے اور دیگر نان انجینئرز اور نان ٹیکنکل افراد ی قوت کی ضروریات کو سمجھنے کی صلاحیتیں بھی موجود ہوں۔لیکن بدقسمتی سے پاکستانی انجینئرز کے اندر اس کے برعکس اپنے پیشے کے اندر جدید تقاضوں کو سمجھنے،عملی طور پر چیزوں کو بنانے اور جدید انجینئرنگ ٹولز کے استعمال کا فقدان ہے۔عمومی طور پر ان کے اندر ٹیم میں کام کرنے،صحیح اور بروقت اطلاعات اور معمولات کی بہم رسانی اور اپنی فیلڈ سے منسلک دیگر چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیتیں کافی محدود ہوتی ہیں۔عملی کام اور انجینئرنگ تعلیم میں مربوط رابطے کے فقدان کی وجہ سے معیاری اشیا اور خدمات کی تیاری میں ان کا کردار بھی کافی محدود ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں انجینئرنگ کا شعبہ کافی مسائل سے دو چار ہے۔انجینئرز کو درپیش مسائل میں کچھ اہم مسائل درج ذیل ہیں۔
انجینئرنگ تعلیم اور صنعت میں ایک مستحکم اور مربوط رابطے کے فقدان کی وجہ سے نجی شعبے میں انجینئرنگ گریجویٹس کی کھپت انتہائی محدود ہے اور عمومی طور پر زیادہ تر فارغ التحصیل طلبا سرکاری اداروں میں ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔
انجینئرنگ گریجویٹس کے طلب و رسد کا موازنہ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ انجینئرز بے روزگار ہیں۔مختلف جامعات اور اداروں میں انجینئرنگ پروگرامز کے اجرا کا ملکی اور بین الاقوامی سطحوں پر مارکیٹ کے تجربے کے ساتھ ہونا چاہیے۔تاکہ بین الاقوامی سطح پر درکار انجینئرنگ ورکس فورس فراہم کی جاسکے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اگلے دس سالوں کے لئے طلب و رسد کا تجربہ اور موازنہ کیاجائے۔
ملک عزیز میں انجینئرنگ شعبوں اور محکموں کی سربراہی عمومی طور پر نان انجینئرز کو دی جاتی ہے جو متعلقہ انجینئرنگ فیصلوں کو بروقت کرنے میں زیادہ موثر نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ان محکموں کی کارکردگی روبہ زوال ہے۔اس ضمن میں واپڈا،پاکستان ریلوے،نیشنل ہائے وے اتھارٹی وغیرہ کی مثالیں قارئیں کے سامنے ہیں۔نوجوان انجینئرز کے لئے روزگار یاملازمت کا ایک مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر مایوسی اور عدم اطمینان بڑھ رہاہے۔کسی باقاعدہ انٹرن شپ پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے ان کو عملی زندگی کے تقاضے سمجھنے میں شدید دشواری آرہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک باقاعدہ ایک سالہ ان ٹرنشپ مع تنخواہ کا پروگرام لایا جائے۔جس طرح کہ ڈاکٹرز کو فارغ ہونے کے بعد ہائوس جاب کے بغیر رجسٹریشن مہیا نہیں کی جاتی ہے۔اسی طرح فارغ التحصیل انجینئرنگ گریجویٹس کو بھی ایک باقاعدہ لازمی انٹرن شپ مع تنخواہ کا اجرا کیاجائے۔
انجینئرنگ کیڈر میں کو الیفکیشن اور تجربے کی بنیاد پر ترقی کے انتہائی محدود مواقع ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کچھ اداروں میں سالہاسال تک انجینئرز ایک ہی سکیل میں زندگی کا بیشتر حصہ گزاردیتے ہیں۔اس ضمن میں دفاع سے منسلک انجینئرنگ اداروں نے ٹائم سکیل پروموشن کا ایک نظام بنایا ہے جس کی بنیاد پر ہر پانچ سال بعدان کی ترقی ہوجاتی ہے۔اسی طرح اعلی تعلیم کے لئے بھی ترقی کے لئے درکار عرصہ میں کمی بھی کی جاتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ نظام تمام اداروں میں یکساں طور پر نافذ کیاجائے۔
انجینئرنگ ایک دشوار اور کٹھن شعبہ ہے اور ان اداروں میں کام کرنے والے انجینئرز اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ملک وقوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ان خدمات کے اعتراف میں ان کو ڈیڑھ گنا بنیادی تنخواہ دینے کا بھی عمل کچھ صوبوں میں شروع ہوچکا ہے۔جوانتہائی قابل تحسین ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اضافی تنخواہ تمام صوبائی اور مرکزی اداروں میں فرائض منصبی سرانجام دینے والے تمام انجینئرز کو بلاامیتاز دی جائے تاکہ ان کے اندر احساس کمتری ختم ہو۔تمام انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور ایسے اعلی تعلیمی ادارے جہاں انجینئرنگ پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں کے لیے لازم قرار دیاجائے کہ وہاں انجینئرنگ انکوبیشن مراکز کاقیام عمل میں لایا جائے تاکہ فارغ التحصیل ہونے والے انجینئرز کے اندر بزنس اور خود روزگاری کے لئے درکار صلاحیتیں پیدا کی جاسکیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو انڈسٹری کے ساتھ بھی منسلک کیاجاسکے۔
نوجوان انجینئرز میں خود روزگاری کو فروغ دینے کے لئے حکومت بلاسود قرضوں کا اجرا کرے تاکہ نوجوان انجینئرنگ کے میدان میں اپنے لئے کمپنیاں بنائیں اور اپنے علاوہ دوسروں کے روزگار کابھی سبب بنیں۔
انجینئرز کے علاج معالجے اور ان کے خاندانوں کے صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک فعال اور مربوط ہیلتھ انشورنس پروگرام کی اجرا کی ضرورت ہے۔اس جامع پروگرام کے ذریعے ان کے لئے فی خاندان کی بنیاد پر مخصوص مالیت کے انشورنس پروگرام کے آغاز سے انجینئرز اور ان کے فیملیز کو صحت اور علاج معالجے کے لئے بہترین خدمات میسر ہوسکیں گی۔
پاکستان انجینئرنگ کونسل کے مجلس عاملہ کے انتخابات ہرتین سال بعد منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ رجسٹرڑانجینئرز کو قابل،معتمد اور پرعزم نمائندگان کے انتخاب کا موقع مل سکے مگر بدقسمتی سے مال ودولت اور سیاسی اثرورسوخ کے استعمال کی وجہ سے پاکستان انجینئرنگ کونسل اپنا تشخص اور پہچان کھوچکی ہے۔دوسری طرف پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ارباب اختیارالیکشن کے دوران بھی اپنی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پی ای سی کے الیکشن کا عمل ہمیشہ متنازعہ رہتاہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابات سے کم از کم دو مہینے قبل الگ نگران مجلس عاملہ کا انتخاب یا تقرر کیا جائے تاکہ وہ انتخابات کے عمل کو شفاف اور غیر جانبدار انہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
پاکستان میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی شعبے کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ اس شعبے سے مربوط تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پرلانے کی کوشش کی جائے۔ان میں سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرنے والے انجینئرز،کنسلٹنٹس،کنٹریکٹرز،اوپیرٹرز وغیرہ شامل ہیں۔بدقسمتی سے پی ای سی نے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج کم وبیش ڈیڑھ لاکھ ٹھیکیدار پی ای سی سے بے اعتنائی اور بے رخی کا اظہار کررہے ہیں۔پی ای سی نے گوکہ ان کی رجسٹریشن فیسوں میں تین گنا اضافہ کیالیکن ان کے لئے سرکاری سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔اس کے ساتھ ساتھ انشورنس فیسوں میں اضافوں اور بینک چارجزمیں غیر منصفانہ بڑھوتری کی وجہ سے ٹھیکیداروں کے لئے کام کرنا مزید دشوار ہوگیاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ان ٹھیکیداران کی استعداد بڑھانے،بین الاقوامی کمپنیوں میں ان کے حصص میں اضافہ اور ان کے فنانسنگ کے لئے انجینئرنگ اینڈ ڈیلوپمنٹ بینک کا آغاز کرائے۔اس مایوسی اور غیریقینی صورت کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کے ٹھیکیداران کنسٹریشن انڈسٹری ڈیوپلمنٹ بورڈ کے انعقاد کی بھی کوشش کی جویقینا پی ای سی کے لئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوسکتاہے۔
انجینئرنگ سے وابستہ تعلیمی اداروں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ انڈسٹری کو درکار انجینئرنگ کے ان وسائل کو فراہم کریں۔ان اداروں کو انڈسٹری کے ساتھ قریبی روابط استوار کرانے اور ان کو جدید خطوط پر ڈالنے میں پی ای سی کا ہم کردار ہے۔بدقسمتی سے اکیڈیمیااور انڈسٹری کے درمیان مربوط رابطے کے فقدان کی وجہ سے تحقیق کے ثمرات انڈسٹری کومنتقل نہیں ہورہے ہیں اور دونوں میں عدم اعتمادی کی فضا ہے اس خلیج کوپر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پی ای سی حکومت کے ساتھ مل کر فیکلٹی کو اعلی تعلیم کے وظائف فراہم کریں اور ہر ضلع کی بنیاد پر ایک ریسرچ انویشن سنٹر کا قیام کریں۔
نوجوان انجینئرز کے لئے روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی سفارتخانوں کے ذریعے چین،روس،امریکہ،ملائیشیا،مشرق وسطی اور دیگر ممالک کے ساتھ معاملات کی جائے اور ان نوجوان انجینئرز کو بین الاقوامی منڈیوں کے لئے درکار تربیت دینے کے بعد ان کو بین الاقوامی تعمیراتی اور انجینئرنگ پراجیکٹس میں ملازمتیں دلانے میں ان کی مددکرے۔اس ضمن میں خصوصی طور پر سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کمپنیوں کو پاکستانی انجینئرز کو روز گار دینے کا بھی پابند کرایاجائے۔
اس وقت انجینئرنگ کے شعبے میں عورتوں کی ایک کثیرتعداد شامل ہوچکی ہیں۔جبکہ دوسری طرف ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نوجوان انجینئرز پچھلے 15سالوں میں فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔تاہم پی ای سی کے مجلس عاملہ میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آوازصحیح طریقے سے پی ای سی تک نہیں پہنچی پاتی جس کی وجہ سے ان کے اندر مایوسی بڑھ رہی ہے۔چنانچہ پی ای سی کو ایکٹ میں تبدیلی کے ذریعے نوجوانوں اور عورتوں کے لئے سیٹیں مختص کی جائیں اور اس ترمیم کی منظوری تک ان کو آبزور کی حیثیت سے پی ای سی میں شامل کیاجائے۔
انجینئرنگ کونسل میں چھوٹے صوبوں اور اکائیوں کو نمائندگی دینے کے لئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیرکے لئے کم از کم دو دو سیٹوں کے ذریعے ان کو نمائندگی فراہم کی جائے۔یہ دو سیٹیں وہاں انجینئرز کے تناسب سے متعلقہ ڈسپلنز میں دی جاسکتی ہیں۔اس عمل کے ذریعے وہاں کے انجینئرز کو قومی دھارے میں شامل کرانے میں مدد ملے گی اور وہاں پائی جانے والی محرومی کا ازالہ کیاجاسکے گا۔اس وقت گلگت بلتستان کو کے پی اور آزاد کشمیر کو پنجاب کے حلقوں کے ساتھ شامل کیاگیاہے۔جس کی وجہ سے وہاں انجینئرز کثیرتعداد ہونے کے باوجود ان کو پی ای سی کی مجلس عاملہ میں نمائندگی نہیں ملتی۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی مجلس عاملہ کا چنائو ہر تین سال بعد الیکشن کے ذریعے کیاجاتاہے جویقیناہمارے اکابرین کا ایک مستحسن فیصلہ ہے۔تاہم سیاسی اور کاروباری بنیاد پر چنائو نے پچھلی دو دہائیوں میں پی ای سی کا تشخص بری طرح بگاڑ دیاہے۔8اگست کو پی ای سی کی مجلس عاملہ کے چنائو کا عمل قریب ہے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے پی ای سی کا قبلہ درست کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔یہ تب ممکن ہے جب ہم قابل،باکردار اور پر عزم لوگوں کو چن لیں اور اس انتخابی عمل میں تمام پاکستان کے رجسٹرڈ انجینئرز چیئرمین،سینئر وائس چیئرمین کے چنائو کے علاوہ اپنے صوبے کے لیے متعلقہ صوبے کے ڈومیسائل کے حامل وائس چیئرمین کومنتخب کرے اور دیگر مطلوبہ ارکان کو چن لیں۔تمام انجینئرز سے گزارش ہے کہ درج ذیل دو اہم باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ووٹ کا استعمال ضرور کریں۔کیونکہ یہ ہماری اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے۔کسی بھی پوزیشن کے چنائو کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ پی ای سی کی ویب سائٹ پر ہر پوزیشن کے سامنے امیدواروں کی مختصر ایک صفحے کی پروفائل کا مطالعہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق بہترین فیصلہ کریں اور اس کے نتائج اللہ پر چھوڑیں اور جب ہم قابل و باکردار افراد کو وہاں پہنچائیں گے تو بہتری آئے گی۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیتیں دیں اور ہمارے ذریعے پی ای سی کے اندر بہتری لانے میں ہمارا حصہ ڈال دے۔آمین ثمہ آمین