سید مجاہد علی
وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت اور تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی کی سربراہی میں اپوزیشن کے وفود نے یکے بعد دیگرے چیف جسٹس یحیی آفریدی سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بظاہر یہ ملاقاتیں عدالتی اصلاحات کے ایجنڈے پر مشاورت اور تجاویز لینے کے لیے چیف جسٹس کی درخواست پر کی گئی ہیں۔ لیکن عدالت عظمی کے سربراہ کی سیاسی لیڈروں سے ہونے والی ایسی ملاقاتوں کے ملکی سیاست اور معاملات پر اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یوں تو چیف جسٹس نے تمام اپوزیشن اور حکومت کو آن بورڈ لینے کے لیے یہ ملاقاتیں کی ہیں لیکن ایک تو صرف تحریک انصاف کے وفد سے ملنے کے بعد تمام سیاسی عناصر کو مشاورتی عمل میں شامل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوجاتا۔ ملک میں متعدد دوسری جماعتیں بھی اہمیت کی حامل ہیں جن میں پیپلز پارٹی سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ متعدد پارٹیاں خاص گروہوں یا علاقوں یا نظریات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی رائے حکومتی پارٹی کے علاوہ اپوزیشن میں شامل تحریک انصاف سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر چیف جسٹس سے مل لیے تو مشاورت کا عمل پورا ہو گیا۔ اور اگر چیف جسٹس نے ملک کے تمام سیاسی لیڈروں اور گروہوں سے ملاقات کا قصد کر لیا تو ان کا زیادہ وقت عدالتی امور کی بجائے سیاسی مشاورت میں صرف ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔اس کے علاوہ سب سے اہم اور کلیدی نکتہ یہ ہے کہ چیف جسٹس نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کیوں حکومت اور اپوزیشن سے ملاقات کرنے میں دلچسپی لی ہے؟ ملکی تاریخ میں ایسی مشاورت کی کوئی مثال موجود نہیں ہے اور نہ ہی عدالتی انتظام سے حکومت یا اپوزیشن حتی کہ پارلیمنٹ کا بھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ اسی لیے نیچے سے لے کر اوپر تک کا عدالتی نظام ججوں ہی کی نگرانی میں کام کرتا ہے اور انتظامیہ یا حکومت کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ چیف جسٹس یحیی آفریدی نے گزشتہ دنوں عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد سے ملاقات کے دوران بھی یہی بات کہی تھی کہ ہائی کورٹس زیریں عدالتوں کا انتظام دیکھتی ہیں۔ اس طریقہ کار کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو انتظامیہ یا حکومت کا اثر قبول کیے بغیر انصاف فراہم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلی عدلیہ کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قوانین کا جائزہ لینے کا حق حاصل ہے۔ اور اگر کسی قانون سازی کو بنیادی حقوق یا آئین کی روح کے منافی پایا جائے تو اعلی عدالتیں اس کے نفاذ کو روک بھی سکتی ہیں۔دیکھا جا سکتا ہے کہ اس طریقہ میں سپریم کورٹ کے چند ججوں کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد صدرمملکت کی تائید حاصل کرنے والے قانون کو ناقص یا غیر آئینی قرار دے کر مسترد کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ البتہ اس حق کے ساتھ ہی اعلی عدلیہ کے ججوں پر بھاری ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے کہ وہ کسی صورت پارلیمنٹ کے سیاسی معاملات میں فریق نہیں بنیں گے اور کسی قانون پر غور کرتے وقت محض قانونی و آئینی میرٹ پر کسی نتیجے تک پہنچیں گے۔ منتخب نمائندوں کے حق قانون سازی پر حاصل ہونے والے اس اختیار کے ساتھ ہی سپریم کورٹ و ہائی کورٹس کے ججوں پر یہ اخلاقی و قانونی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح سیاسی طور سے کسی معاملہ میں ملوث نہ ہوں۔ البتہ ملکی تاریخ میں متعدد ایسے فیصلے دیکھنے میں آئے ہیں کہ ججوں نے صرف وقتی مفاد یا سیاسی رائے کی بنیاد پر کسی قانون کو مسترد کیا یا کوئی ایسا فیصلہ صادر کیا جس کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اسی لیے نام نہاد نظریہ ضرورت کے نام سے ایک اصطلاح ایجاد کی گئی اور سپریم کورٹ نے متعدد بار فوجی حکمرانوں کے ماورائے آئین اقدامات کی توثیق بھی کی۔ بلکہ آمروں کو آئین میں ترامیم کا حق و اختیار بھی عطا کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ اختیار تو خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں ہے۔موجودہ آئین 1973 میں منتخب پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ اس میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کو بھی صرف اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب وہ دو تہائی اکثریت سے کسی ترمیم کو منظور کر لے۔ اس کے برعکس سپریم کورٹ کے ججوں نے نہ صرف آمروں کو ترامیم کرنے کا انفرادی اختیار دیا بلکہ بعض از وقت ان ترامیم کا جائزہ لینے کی بھی زحمت نہیں کی اور نہ کوئی ایسا حکم جاری کیا کہ ایسی تمام آئینی تبدیلیاں یا قانون سازی کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے ان کا ازسر نو جائزہ لیا جائے تاکہ یہ اصول طے ہو جائے کہ آئین میں رد و بدل کا اختیار کسی جج کے کہنے سے کسی فوجی آمر کو نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن دیکھا جائے تو اس وقت سپریم کورٹ کا آئینی بنچ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم پر غور کر رہا ہے تاکہ سپریم کورٹ حتمی طور سے طے کرسکے کہ کیا یہ ترمیم ملکی آئینی ڈھانچے سے تو متصادم نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئی آئینی تبدیلیوں کو نہ صرف مان لیا گیا بلکہ ان کی بنیاد پر فیصلے بھی صادر کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے ملکی سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ پر ہی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ آمریت کے خاتمہ کے بعد ناجائز ترامیم کو آئین سے نکال کر اسے اپنی اصل شکل میں بحال کیا جاتا۔ البتہ یہ افسوسناک کام چونکہ سپریم کورٹ کی مدد و تعاون سے کیا گیا تھا اس لیے بعد از وقت سپریم کورٹ پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اس غلط روایت کی اصلاح کے لیے اقدام کرتی اور سیاست دانوں کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی کی جاتی۔یہی حال بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا۔ پہلے ایک آمر کے زیر اثر ملک کے منتخب لیڈر کو ناجائز طور سے پھانسی دی گئی۔ اس کے بعد جب 2011 میں آصف علی زرداری نے بطور صدر اس حوالے سے ریفرنس روانہ کیا تو 13 سال تک اس کا جواب دینے سے گریز کیا گیا۔ بالآخر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی جرات مندی کی وجہ سے گزشتہ سال اس ریفرنس کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا گیا کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ گویا کہ انہیں پھانسی دینے کا فیصلہ ناجائز اور غلط تھا۔ عوام اور پیپلز پارٹی تو اسی پر مطمئن ہو گئے کہ سپریم کورٹ نے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا۔ لیکن سپریم کورٹ اس کے باوجود اس معاملہ میں دوبارہ ٹرائل کے ذریعے بھٹو کو بے قصور قرار دینے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کر سکی۔ یہ حوالہ دینے کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کو اب پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور احتیاط سے معاملات چلانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے بارے میں یہ تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ عدالت میں سیاسی بنیادوں پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔یہ بھی سب کے سامنے کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے کچھ فاضل جج اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج حضرات نئی آئینی ترمیم کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ ان کے سامنے اس آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی معاملہ زیر سماعت نہیں ہے بلکہ آئینی بنچ اس پر غور کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس ترمیم کے حوالے سے ججوں کے خیالات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے تو گزشتہ روز ہی ججوں کے تبادلوں اور سنیارٹی کے حوالے سے اپنے خطوط کا جواب نہ ملنے کے بعد اب سو موٹو اختیار کی شق کے تحت سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے۔ اس صورت حال میں چیف جسٹس نے حکومت کے علاوہ تحریک انصاف کے وفد سے عدالتی اصلاحات کے بارے میں مشاورت کی ہے۔ عدالتی اصلاحات سپریم کورٹ کی سربراہی میں اعلی عدالت کا کام ہے۔ حکومت یا سیاسی پارٹیاں اس معاملہ میں مداخلت کی مجاز نہیں ہیں۔ اعلی عدلیہ کے ججوں میں سیاسی نظریات کی بنیاد پر پائی جانے والی تقسیم، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور تحریک انصاف کی طرف سے کسی بھی طاقت ور ادارے کو خواہ وہ فوج ہو یا سپریم کورٹ، اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں کے تناظر میں یہ ملاقات پریشان کن ہے۔تحریک انصاف کے وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اس اجلاس کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ یقینا چیف جسٹس کی نظر سے بھی گزری ہوں گی۔ یہ باتیں تحریک انصاف کے سیاسی ایجنڈے کا عکس ہیں۔ ان میں عدالتی اصلاحات کا کوئی نکتہ شامل نہیں ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی اچھی شہرت کے جج رہے ہیں۔ ان کا کسی گروہ سے تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنی قانونی رائے کو سیاسی خیالات سے ملوث ہونے دیا ہے۔ اس لیے انہیں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے سوچ سمجھ کر اقدام کرنا چاہیے۔ ملکی سیاست میں اداروں کی مداخلت کے قصے زبان زد عام رہتے ہیں۔ ملک کی فوج کو اس حوالے سے مسلسل مطعون کیا جاتا ہے لیکن اسی سے مدد مانگ کر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بھی پالی جاتی ہے۔ اب اگر سپریم کورٹ کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے عام ہونے لگی تو اس سے ملکی سیاست میں ہیجان پیدا ہونے کے علاوہ اداروں پر عوام کا اعتماد مزید کمزور ہو گا۔سپریم کورٹ اس وقت انصاف کے حصول کے لیے آخری امید کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ عدالت بہت دیر تک سیاست زدہ رہی ہے۔ اب توقع کی جاتی ہے کہ عدالت عظمی کے سربراہ ججوں کے بارے میں اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے کام کریں گے۔ بس یہی توقع اور درخواست کی جا سکتی ہے کہ عوام کے لیے انصاف کی امید کا آخری دروازہ بند نہ کیا جائے۔