الیاس حبیب
بلتستان، جو اپنی قدرتی خوبصورتی، پرامن ماحول اور مہمان نواز لوگوں کی وجہ سے مشہور ہے، بدقسمتی سے ایک نئے اور خطرناک مسئلے کی زد میں آ چکا ہے۔ یہ مسئلہ منشیات کی لعنت اور اخلاقی برائیوں میں اضافے کا ہے، جو نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ صورتحال نہ صرف والدین کے لیے باعثِ تشویش ہے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کے لیے بھی خطرناک نتائج کا حامل ہے۔اگر ہم مغرب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صنعتی انقلاب سے قبل وہاں کی ثقافت اور سماجی اقدار بھی کسی حد تک مشرقی روایات سے ملتی جلتی تھیں۔ لیکن فرانسیسی انقلاب اور صنعتی ترقی کے بعد مغربی معاشرے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں، جنہوں نے وہاں کی روایتی اقدار کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ آج ہم جس جدیدیت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، مغرب اسی جدیدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ اس نے ان کے سماجی ڈھانچے میں کئی پیچیدہ مسائل پیدا کر دیئے ہی یہی صورتحال بلتستان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں تیزی سے ہونے والی سماجی اور مادی ترقی کے باعث یہاں کی روایتی ثقافت اور خاندانی نظام میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ بلتستان، جو کبھی اپنی سادگی، خاندانی ہم آہنگی اور روایتی اقدار کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا، اب جدید ترقی کی دوڑ میں شامل ہو کر ایک نئی سمت میں گامزن ہے۔ سکردو، جو بلتستان کا دارالحکومت ہے، یہاں مختلف علاقوں سے لوگوں کی آباد کاری کے سبب ایک متنوع ثقافتی مرکز بن چکا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں بلتستان میں ترقی ہو رہی ہے، وہیں کچھ منفی رجحانات بھی جنم لے رہے ہیں۔ نوجوان نسل مادی انقلاب کے ساتھ ساتھ فکری اور اخلاقی تبدیلیوں کا بھی شکار ہو رہی ہے۔ اب یہاں وہ تمام مکروہ دھندے چل رہے ہیں، جن کا کبھی بڑے شہروں میں ہی تصور کیا جاتا تھا۔ نشہ آور اشیا کی دستیابی اور ان کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس کا سب سے زیادہ شکار 15 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان ہو رہے ہیں۔منشیات فروش ایک منظم منصوبے کے تحت نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں۔ ان گروہوں کے کارندے شہر کے سنسان علاقوں اور گلی کوچوں میں گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار انتہائی چالاکی سے ترتیب دیا گیا ہے؛ پہلے پہل یہ نوجوانوں سے دوستی کرتے ہیں، انہیں مفت میں کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتے ہیں، اور پھر آہستہ آہستہ نشے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے بچے اس جال میں سب سے زیادہ آسانی سے پھنستے ہیں، کیونکہ یہ گروہ انہیں ابتدائی طور پر مفت نشہ فراہم کرتے ہیں اور بعد میں جب وہ عادی ہو جاتے ہیں، تو ان سے رقم اینٹھنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔بلتستان میں پہلے صرف چند اقسام کی منشیات کے بارے میں سنا جاتا تھا، مگر اب مختلف اقسام کی نشہ آور اشیا باآسانی مل جاتی ہیں۔ سگریٹ نوشی کے بعد شیشہ، آئس، چرس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے، جو نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ اس خطرناک رجحان میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سکردو شہر میں قائم سنوکر کلبزاور تفریحی مقامات بھی ہیں، جو نوجوانوں کے لیے نشے کے اڈے بن چکے ہیں۔ ان جگہوں پر غیر اخلاقی سرگرمیاں عام ہو چکی ہیں، اور یہاں آنے والے کئی نوجوان منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ متعلقہ محکموں کو ان کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کرنی چاہیے تاکہ اس بڑھتی ہوئی لعنت کو روکا جا سکے۔ حال ہی میں، سکردو میں ہم جنس پرستی اور دیگر اخلاقی برائیوں کے کچھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ واقعات معاشرتی اقدار میں تبدیلی اور منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ ہیں۔ مقامی اخبارات نے ان واقعات کی خبریں شائع کی ہیں، جو معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہم جنس پرستی ایک سنگین گناہ ہے اور اس کے دینی، اخلاقی اور طبی نقصانات ہیں۔ یہ مسئلہ ایک سنجیدہ سماجی چیلنج کے طور پر ابھر رہا ہے، جس کے سدباب کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔نشے کے نقصانات نہایت سنگین ہیں۔ یہ نہ صرف صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ تعلیمی کارکردگی میں بھی شدید کمی لاتا ہے۔ نشے میں مبتلا نوجوان اپنی تعلیم میں دلچسپی کھو دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ خاندانی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ نشہ کرنے والے افراد کے گھریلو تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور والدین و دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جرائم میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے، کیونکہ نشے کے عادی افراد چوری، لڑائی جھگڑوں اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول پیدا کریں تاکہ وہ اپنی پریشانیاں والدین کے ساتھ بلا جھجھک شیئر کر سکیں۔ ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں اور انہیں مذہبی و اخلاقی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ غلط صحبت سے بچانے کے لیے بچوں کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں۔ مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ بچے تعمیری مصروفیات میں مشغول رہیں۔پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس مسئلے پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ان کے خلاف قانونی اقدامات کو مزید موثر بنایا جائے۔ خفیہ اطلاعات کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا جائے تاکہ نشہ بیچنے والوں کے خلاف بروقت کارروائی کی جا سکے۔ تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ نوجوانوں کو نشے کے نقصانات کے بارے میں شعور دیا جا سکے۔ محلے کی سطح پر کمیونٹی واچ پروگرامز قائم کیے جائیں تاکہ غیر قانونی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے اور پولیس کو بروقت اطلاع دی جا سکے۔ اس کے علاوہ، نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے بحالی مراکز قائم کیے جائیں اور مفت مشاورت فراہم کی جائے۔منشیات اور دیگر اخلاقی برائیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینا ناگزیر ہے۔ اگر والدین، اساتذہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور معاشرہ مل کر کام کریں تو ہم اپنے نوجوانوں کو اس لعنت سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔ بلتستان کی پرامن فضائوں کو منشیات اور دیگر اخلاقی برائیوں سے پاک رکھنے کے لیے ہمیں ابھی سے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ یہ زہر ہمارے سماج کو دیمک کی طرح کھا جائے گا۔