حسن آرائ
امتحانات کسی بھی نظام تعلیم کا ایک بنیادی جزہیں۔اسی کے ذریعے افراد معاشرہ کے صلاحیتوں اور قابلیت کے میعار کو پرکھا جاتا ہے اور نمبرز اور گریڈز کے ذریعے ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ امتحانات کا نظام دنیا بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں رائج العمل ہے۔ البتہ طریقہ کار قدرے مختلف ہے۔ بہتر میعار تعلیم کا انحصار بہترین نظام امتحان پر منحصرہے۔ اور بہترین نظام امتحان ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں طالبعلم کی شخصیت کے ہمہ گیر پہلوئوں کو جانچنے کے تمام پیمانے بالترتیب موجود ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے نظام امتحان کا جو طریقہ کار وضع ہے اس کے ذریعے کسی بھی طالبعلم کی قابلیت کے معیار کو تو شاید ہی جانچا جاسکے۔ البتہ یہ کسی بھی فرد کی یاد داشت اور رٹا لگانے کی صلاحیت یا بذریعہ نقل بہترین طریقے سے چھاپننے کی صلاحیت کو پرکھنے کا عمدہ طرین طریقہ ہے۔ اس نظام امتحان کے ذریعے دو طرح کے طالبعلم بہترین نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو رٹا لگانے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو نقل کرنے کے خوب ماہر ہوتے ہیں۔ دونوں صلاحیتوں کے ماہرین بہترین پیپر چھاپ لیتے ہیں۔ اور ممتحن بھی توبہتر چھپائی کے دل کھول کر نمبر دیتا ہے۔ اب چونکہ ہمارا نظام امتحان سارا رٹا کے گرد گھومتا ہے اسی لئے اساتذہ بھی اپنا طریقہ تدریس اس چیز پر فوکس کرتے ہیں کہ کسطرح اپنے مضمون میں بہترین نتائج حاصل کئے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بچوں کی تصوراتی سمجھ بوجھ کو بہتر بنانے کے بجائے نوٹس چھپوانے اور لکھوانے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ مخصوص عنوانات جو گذشتہ کئی برسوں سے پیپر میں آتے رہے ہیں انہی عنوانات کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ بچوں کونوٹس رٹوائے جاتے ہیں۔ پانچ سالہ پیپر بھی اس معاملے میں بڑے مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ 70 پیپر تقریبا گذشتہ سالوں کے پیپر میں دیئے گئے سوالات پر مشتمل ہوتا ہے۔ چونکہ تعلیمی اداروں کی منیجمنٹ کی طرف سے ہر استاد کواپنے مضمون میں اچھے رزلٹ کا ٹارگٹ ملتا ہے تو مجھ سمیت تمام اساتذہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ بچوں کو اسی گھسے پٹے امتحانی نظام کے اندر رہتے ہوئے جتنا زیادہ موادٹھونس سکتے ہیں کلاس ٹیسٹ کے نام سے نوٹس رٹا لگوائیں ان کی یادداشت جوکہ امتحان کی ٹینشن اوربہت سارے سلیبس کی وجہ سے اچھی خاصی بوجھل ہوچکی ہوتی ہے امتحان کی تیاری اور ٹیسٹ کی وجہ سے مذید ذہنی دبائو کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر ممتحن بہترین چھپائی کے ہی اچھے نمبر دیتے ہیں۔ چونکہ پیپر چیک کرنے والے کو پیپر چیک کرنے کے پیسے ملتے ہیں جو جتنے زیادہ پیپر چیک کرے گا اتنا زیادہ کمائے گا۔ اسی وجہ سے ہمیشہ خوبصورت چھپائی پر سرسری نظر ڈالتے ہیں اور دل کھول کر نمبر دیتے ہیں اس کے برعکس جو طلبا سوال کا جواب اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو رٹا سے زیادہ سمجھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ گو کہ نالج اور سمجھ میں بہتر ہوتے ہیں لیکن نمبر لینے میں ہمیشہ مار کھاتے ہیں کیونکہ ممتحن انکی سمجھ سے زیادہ بہترین چھپائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس نظام کی بدولت ہماری یوتھ علم ، سمجھ بوجھ، صلاحیت اور شعور بڑھانے پر توجہ دینے کے بجائے رٹا لگانے اور نقل کے نت نئے طریقے سوچنے پر مصروف عمل رہتی ہے۔ اور پھر ایسی صلاحیتوں اور سمجھ بوجھ سے عاری نوجوان جب کل کلاں کو کسی ادارے کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تو پھر یہ باتیں بالکل صحیح ثابت ہوتی ہیں جو انتہائی جلی حروف میں جنوبی افریقہ کی ایک یونیورسٹی کے باہر دیوار پر آویزاں کئے گئے ہیں۔ جس کا متن کچھ اسطرح ہے۔''کسی بھی قوم کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ ایٹم بم یا دور تک نشانہ بنانے والے میزائل استعمال کریں۔ اس قوم کو تباہ کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ اس کے نظام تعلیم کے معیار کو گرادیں اور طالب علموں کو امتحان میں نقل کی اجازت دے دیں۔ پھر اس نظام تعلیم کے نتیجے میں ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض مرتے ہیں۔ انجینئر ز کے ہاتھوں عمارتیں وقت سے پہلے ہی منہدم ہوجاتی ہیں۔ ماہر معاشیات اور اکائونٹنٹس کے ہاتھوں پیسوں کی قدر کھوجاتی ہے۔ مذہبی سکالروں کے ہاتھوں انسانیت مر جاتی ہے۔ججوں کے ہاتھوں انصاف کی دھجیاں بکھر جاتی ہے۔گویا نظام تعلیم کی تباہی درحقیقت پوری قوم کی تباہی ہے''۔ہمارے ملک میں یہ سارے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ آئے روز خبریں آتی ہیں کہ ڈاکٹرزکی غفلت اور غلط دوائی نے مریض کی جان لے لی۔ دسمبر کے مہینے میں کئی عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ اور ملبے تلے دب کر درجنوں لوگ جان بحق ہوگئے۔حال ہی میں کراچی گلبہار میں پانچ منزلہ عمارت پھر سے گر گئی ہے اور اب تک کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق 15 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ہماری معیشت آئی سی یو میں ایڈمٹ ہے۔ اور انصاف کس چڑیا کا نام ہے غریب شخص کی ڈکشنری میں تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔گویا ناقص نظام تعلیم کی بدولت 73 سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ آئی ایم ایف کا کشکول ابھی تک گلے میں لٹکائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت مہنگائی کے بے قابو جن کے ذریعے غریب عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نکال کر چوس رہی ہے۔ اصل وجہ اور حقائق جان کر عملی اقدامات اٹھانے کے بجائے صاحب اختیار صرف الزام تراشی اورروایتی سیاست چمکانے کو فرض اول سمجھتے ہیں۔ ساری دنیا اس نکتے پر متفق ہے کہ ترقی اور خوشحالی کا راستہ بہتر معیار تعلیم سے ہوکر گزرتاہے۔ اور بہتر معیار تعلیم کے عمدہ ترین ماڈلز کئی ممالک میں رائج العمل ہیں جن میں جاپان، فن لینڈ ، امریکہ برطانیہ رشیا اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ جنکا نظام تعلیم تھیوری سے زیادہ تجربات اور ریسرچ پر مبنی ہے۔ اور نظام امتحان بھی وضاحتی سوالات و جوابات کے بجائے تصوراتی نظریات اور عملی تجربات پر مشتمل ہے۔ہمیں ایسے ہی کسی ایک ماڈل پر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا نظام امتحان سمجھ بوجھ اور تجربات کو فروغ دینے کے بجائے رٹا اور نقل کو فروغ دے رہا ہے۔ پورے ملک میں لے دے کر صرف آغا خان بورڈ ہی واحد معیاری امتحانی بورڈ ہے جو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بہترین معیار کے حصول کے کے آغا خان بورڈ کے طرز پر نظام امتحان کو متعاف کرایا جائے۔ اور بہترین نصاب اور طریقئہ تدریس کے ذریعے بچوں میں رٹا اور نقل کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایس ایس سی لیول کے امتحان عنقریب شروع ہونے ہی والے ہیں۔ نقل کے ماہر بچے بوٹیاں مائیکرو پرنٹ کرانے میں سرگرم عمل ہیں۔اول تو فی الفور کوشش ہونی چاہیئے کہ نقل کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں کیونکہ یہ عمل معیار تعلیم کی بہتری کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ تمام ایگزامنرز اور انویجولیٹرز پر کڑی نگرانی رکھی جائے تاکہ وہ کسی بھی قسم کے لالچ یا دبائو میں آکر نقل کی اجازت نہ دیں۔نقل پر کنٹرول سے محنتی طالبعلموں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اورکم از کم طالب علموں میں محنت کا رجحان پیدا ہوجائے گا۔ جو ان کے اندر مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور ہمت کو فروغ دے گا۔نظام تعلیم اور امتحان بدلنے میں تو شاید ابھی مزید وقت لگے لیکن یہ بات میں وثوق سے کہتی ہوںکہ جب تک نظام تعلیم اور نظام امتحان نہیں بدلے گا ترقی اور خوشحالی کی امید صرف دیوانے کا ہی خواب ہوسکتا ہے۔