غصہ،انسانیت کو کھا جاتا ہے

نذیر عالم

اللہ تبارک و تعالی کا حکم ہے کہ تم حق کے ساتھ دو اور ہمیشہ ان لوگوںکے ساتھ کھڑے رہو جومظلوم ہوں اور سماج اور معاشرے میں ان کا مقام ہو یا نہ ہو مگر وہ اللہ تعالی کی مخلوق میں سے ہیں اور وہ تمہاری مدد یا حمایت کے بغیر بھی جی سکتے ہیں مگر تم کو یہ معلوم ہو کہ یہ اللہ کا فرمان ہے کہ تم انسانوں کو دولت یا سماجی مرتبے کو دیکھ کے معاملات طے نہ کیا کرو ملکہ حق و باطل کو دیکھ کے بات اور فیصلہ کیا کرو یہی دین الہی ہے اس لئے ہم جب بھی کوئی سماجی یا معاشرتی ایشو سامنے آتا ہے تواسے حل کرنے کے لئے حق اور سچ کو سامنے رکھ کے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو بہتر نتےجہ سامنے آسکتا ہے مگر انسان بہت ہی کمزور ہے ۔اس کے اندر غصے کا جو عنصر ہے وہ حاوی ہو جاتا ہے اور سچائی اور حق کے بجائے جذبات کے رو میں بہ کے خود کو ایک وحشی جانور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے صبر و استقامت کے بجائے گالم گلوچ اور غصے کا اظہار کر کے انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ کوئی بہت ہی بہادر ہے مگر یہ انسان کا سب سے بڑا ہی کمزور پہلوہے انسان کی بہادری اس بات میں چھپی ہے کہ وہ اپنے غصے کو پی جائے اور اخلاق اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دے اسی کو سماج اور معاشرہ عقل مند اور دوراندیش کہتا ہے علم واحد چیز ہے جو کسی کو ورثے میں نہیں ملتا ہے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالی جس کو علم سے نوازتا ہے اس کے دشمن پہلے اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں یا اللہ تبارک و تعالی جس کو اپنے قدرت سے نوازتا ہے اور اسے سماج اور معاشرے کے دیگر لوگوں سے ممتاز کرتا ہے تو اس سے بھی اپنے حسد کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں اور علم کی بر تری ہی وہ واحد دولت ہے جو اولاد بھی اپنے والدین سے نہیں لے سکتی ۔اگر انسانی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو ننانوے فیصد وہ لوگ ہیں جو اپنوں کی علمی اور خداداد صلاحتوں سے حسد کر رہے ہوتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوےں میں کسی اور نے نہیں ڈالا تھا بلکہ ان کے اپنے بھائیوں نے ڈالا تھا وجہ یہ تھی کہ وہ رب کائنات کے پیغمبر تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بہت چہےتے بیٹے تھے جب خواب دیکھا تو اسے اللہ تبارک و تعالی نے باقی بھائیوں سے زیادہ خوبصورت اور الگ ہی سوچ کا مالک بنایا تھا جب انہوں نے خواب اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو سنایا تو اسے یہ تاکید بھی کی کہ یہ خواب وہ کسی اور کو نہ بتائے مگر جو ہونی ہے اسے کون روک سکتا ہے ۔ اگر انسانی تاریخ کے اور بھی ورق دیکھےں تو یہی چیز سامنے آتی ہے کہ دو طرح کے انسان اس دنیا میں آباد ہیں ایک وہ جو اپنا ہی مفاد دیکھتے ہیں یہ وہ سماجی جانور ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے حقوق کی پالی کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے ہیں اور ایسے لوگ ہر سماج اور معاشرے میں پائے جاتے ہیںمگر ان کی زندگی میںایک عجیب قسم کی بے چینی ہر وقت منڈ لاتی ہے اور یہ خود کو ہمیشہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور یہ ہر وقت خوف میںزندگی بسر کرتے ہیں ایسے لوگوں کی زندگی ایک بند بکس کی مانند ہوتی ہے جس کے کھل جانے کے بعد ہر شے ہوا اور پانی بہا لے جاتا ہے اور ان کے پاس پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو زندگی میں چےلنج کے سوائے اور کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ہے ایسے لوگ مسلسل سفر اور گردش میں رہتے ہیں کسی ایک جگہ ٹک کے کام کرنا ان کے لئے موت ہے۔ یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے میں لگے رہتے ہیں یہ چلتے تو پرانی راہ پہ ہوتے ہیں مگر ہمیشہ ان کی سوچ اور لگن نئی اور تبدیلی کی ہوتی ہے۔ یہ عملی زندگی کے حقیقی ہیروز ہوتے ہیں یہ ہر چیز کو مشکل بنا کے حاصل کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں یہ اپنی ذات میں رہنے کے بجائے اجتماعی اور گروہی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہیں یہ اپنے زندگی کے سب ہی پہلوﺅں کو عمدہ اور صاف طریقے سے چلانے کے عادی ہوتے ہیں ان ہی لوگوں کے لئے قرآن ”علم میں پختہ کار “کہہ کر پکارتا ہے ان کو سمجھنا کافی مشکل کام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سوچتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں اس لئے یہ مشکل راہوں کے راہی ہوتے ہیں یہ جب کام کرنے لگ جاتے ہیں تو ایک مقام تک پہنچا دیتے ہیں مگر ان کی چھٹی حس ہمیشہ کام کرتی رہتی ہے ۔اس لئے یہ دوسروں کی سمجھ اور سوچ سے باہر ہوتے ہیں مگر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اس لئے یہ لوگ اپنی ہر سطحی سوچ اور فکر کو اپنی ذات سے نکال دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے ان کے آگے ایک عظیم مقصد ہوتا ہے وہی ان کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ دولت اور عیش و عشرت ان کی زندگی کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اگر کوئی ان کی ذات پر حملہ بھی کرے یہ اس کو اہمیت نہیں دیتے کیونکہ یہ سوچ کے اس معیار پہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں ہرایک کے لےے مشکل ہوتی ہے ۔ یہ سوچ کے اس معیار پہ ہونے کے لئے ہر چھوٹی چیز سے دور رہتے ہیں ایک خاص بات ہر عظیم انسان کے اندر مشترکہ ہوتی ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ ہر وقت غصے پہ حاوی ہوتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں۔ جولوگ سماج یا معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ان کے اندر نفرت ،حسد،غصہ اور وہ محدود سوچ کے اندر رہنے کے عادی ہوتے ہیں جو لوگ اپنے غصے پہ کنٹرول نہیں رکھ سکتے وہ کبھی بھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے ‘وہ ہمیشہ اپنی ذات میں گم رہتے ہیں ۔