عابدہ علی شیر
حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایک سکینڈل منظر عام پر آیا جس میں طلبا و طالبات کو غلط کاموں کے لئے استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا۔ بعد میں جب مختلف لوگوں نے اس کی تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر کیسز بلیک میلنگ کے تھے۔ اسی طرح کے سکینڈل اور بلیک میلنگ کے کیسز آئے روز میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اس کے پیچھے وجہ کیا ہے۔پاکستان کے تقریبا نوے فیصد والدین چاہے وہ امیر ہوں، غریب یا مڈل کلاس، بچوں پر اعتماد اور اعتبار کے حوالے سے ایک جیسا رویہ رکھتے ہیں اور یہ منفی رویہ ہے یعنی انہیں اپنے بچے پر اعتبار نہیں ہے۔ اور یہ ان کی سوشل لائف سے لے کر ان کے کیریئر اور شادی تک کے فیصلوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔نتیجتا بچے ان کو کچھ بھی بتانے سے ڈرتے ہیں اور بلیک میلنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں متاثر ہوتے ہیں۔لڑکوں میں کیرئیر کا انتخاب کرنے اور شادی کے فیصلوں وغیرہ میں والدین ان کی مرضی شامل کیے بغیر فیصلے لیتے ہیں جس سے وہ ذہنی مسائل کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے بچنے کے لئے چور دروازے ڈھونڈتے ہیں جہاں وہ فراڈ اور بلیک میلنگ کا شکار ہوتے ہیں۔لڑکیوں کے معاملے میں دیکھا جائے تو شادی اور کیرئیر کے انتخاب کے علاوہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں مثلا سوشل میڈیا کا استعمال، کسی لڑکے سے بات چیت وغیرہ پر نظر رکھی جاتی ہے اور ہمیشہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ غلط کر رہی ہیں۔ بلاوجہ کی سختی اور تنقید سے تنگ آ کر وہ بھی دوسرے راستے تلاش کرتی ہیں اور نتیجتا بلیک میل ہوتی ہیں۔اس میں سب سے بڑا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی اصلی یا ایڈٹ شدہ تصویر، وائس میسج یا ایک فیک چیٹ کے سکرین شاٹ سے انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے کہ تمہارے والدین کو دکھا دیں گے۔ اب چونکہ بچوں کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ والدین ان کی بات نہیں سنیں گے تو وہ ڈر جاتے ہیں اور ہر غلط کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔اسی طرح تعلیمی اداروں میں دیکھا جائے تو لڑکوں اور لڑکیوں کو اس بات سے بلیک میل کیا جاتا ہے کہ تمہیں فیل کر دیا جائے گا۔ اب وہ بچے جو مجبورا پہلے ہی والدین کی پسند کے مضامین پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ اس ڈر سے کہ والدین سمجھیں گے جان بوجھ کر نہیں پڑھا اور فیل ہو گئے اور نتیجتا پڑھائی چھوڑنی پڑے گی، ہر غلط کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور جب ایک دفعہ وہ اس راستے پر چل پڑیں تو بلیک میلر کو خود بخود مواد مل جاتا ہے۔آن لائن ٹرولنگ اور بلیک میلنگ میں بھی اسی طرح کا مواد استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہاں بہت سے حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایسا کام کیا ہی کیوں جائے جس سے آپ کو بلیک میل کیا جا سکے۔ تو بات یہ ہے کہ پندرہ سے پچےس سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں اتنے سمجھ دار نہیں ہوتے اور سونے پر سہاگہ جب وہ گھر میں ہر وقت والدین کا سخت رویہ برداشت کرتے ہیں تو وہ دوستی اور محبت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ زیادہ تر سوشل میڈیا پر دوست بناتے ہیں اور سکرین کے پیچھے بیٹھے شخص پر اعتبار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ بھی جوابا ان پر اعتبار کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب وہ باہر کی دنیا کا سامنا کرتے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ انہیں دھوکہ نہ ملے۔ ہمارا بھی اس عمر میں کہیں نہ کہیں اس سے واسطہ پڑا ہو گا۔ تیسری بات یہ کہ آج کل ہیکنگ بہت آسان ہے اور کوئی بھی آپ کے موبائل فون کو ہیک کر کے اس میں سے آپ کا ڈیٹا لے سکتا ہے جس سے بعد میں آپ کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔نوجوانوں کو بڑھتی ہوئی بلیک میلنگ سے کیسے بچایا جائے؟
اس میں سب سے اہم کردار والدین کو ادا کرنا ہے۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ چند اہم چیزوں پر توجہ دیں۔
1۔ اپنے بچوں کے ساتھ دوستی کا رویہ اپنائیں اور سختی سے گریز کریں۔
2۔ انہیں اس بات کا یقین دلائیں کے آپ ان پر اعتبار کرتے ہیں تا کہ کچھ بھی ہو وہ آپ کو بتاتے ہوئے ڈر محسوس نہ کریں۔
3۔ ان کو اپنی مرضی سے کیرئیر کا انتخاب کرنے دیں تاکہ وہ دل لگا کر محنت کریں اور غلط طریقوں سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے ان میں اعتماد بڑھے گا اور وہ دنیا کا زیادہ اچھے طریقے سے سامنا کرنے کے قابل ہوں گے۔
4۔ شادی کے معاملات میں بھی انہیں اپنی مرضی کا ساتھی منتخب کرنے کی اجازت دیں کیونکہ زندگی آپ نے نہیں انہوں نے گزارنی ہے۔
5۔ بہت سے والدین بچوں خاص طور پر لڑکیوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کی بجائے ان کو سوشل میڈیا استعمال کرنے دیں۔ سوشل میڈیا پر ان سے دوستی کریں، انہیں فالو کریں اور اگر وہ غلط راستے کی طرف جا رہے ہیں تو انہیں سمجھائیں۔ ایک ذمہ دار اور باشعور سوشل میڈیا یوزر بننے میں ان کی مدد کریں۔
6۔ ان سے ان کی پسند کے موضوع پر بات چیت کریں اور جہاں مناسب ہو ان کی بات کو سراہیں۔ انہیں یقین دلائیں کہ وہ بھی رائے عامہ کا حصہ ہیں۔
7۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی اور بات چیت پر ہنگامہ کھڑا کرنے کی بجائے انہیں سنیں اور نظر رکھیں۔ اگر یہ دوستی کسی غلط طرف جاتی دکھائی دے تو انہیں سمجھائیں۔ ورنہ ایک معاشرے میں جہاں وہ دونوں ایک ساتھ پڑھتے اور کام کرتے ہیں، ان کا ایک دوسرے سے بات کرنا عام بات ہے۔
8۔ ان کی نوکری یا کاروبار شروع ہونے تک ان کی تعلیم کے اور دیگر اخراجات خود اٹھانے کی بجائے کچھ ذمہ داری ان پر بھی ڈالیں۔ انہیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ سکلز سیکھنے اور فری لانسنگ کی طرف توجہ دلائیں۔ اس سے ان میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ آپ ان پر اعتبار کرتے ہیں۔
9۔ اگر کوئی بار بار آپ کے بچوں کو تنگ کر رہا ہے تو متعلقہ اتھارٹی یا پولیس کو رپورٹ کریں۔ اس میں آپ کی بے عزتی نہیں بلکہ آپ کی اور دوسروں کی عزت اور تحفظ ہے۔
نوجوانوں کو بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟نوجوانوں کو بھی کچھ اہم چیزوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے :
1۔ کسی سے بھی دوستی کرنے سے پہلے اس کے بارے میں کافی حد تک معلومات حاصل کریں۔
2۔ کوئی بھی آپ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرے تو ڈرنے اور چھپانے کی بجائے اپنے والدین اور دوستوں کو بتائیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔
3۔ جیسا کہ موبائل کا دور ہے تو اس کا صحیح استعمال سیکھیں اور اگر کوئی بار بار آپ کو تنگ کرے تو ثبوت ریکارڈ کر کے پولیس کو رپورٹ کریں۔
4۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی فیک آئی ڈی والے یا ایسے شخص سے جسے آپ جانتے نہ ہوں یا ایسا شخص جس کی پروفائل پرائیویٹ ہو، سے دوستی مت کریں۔
5۔ اپنی سوشل میڈیا پروفائل کو کوشش کریں کہ پبلک رکھیں تاکہ لوگ آپ کے بارے میں مشکوک نہ ہوں۔
6۔ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے گریز کریں بھلے آپ کا اکاﺅنٹ پرائیویٹ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اسے ہیک کر کے آپ کی تصاویر لینا ہیکر کے لئے مشکل نہیں۔
7۔ اپنی اہم معلومات، ڈاکومنٹس اور تصاویر وغیرہ کسی کو سینڈ مت کریں جب تک آپ اس کے بارے میں یہ جان نہ لیں کہ وہ ان کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ اور جب وہ انہیں مطلوبہ کام کے لیے استعمال کر لے تو انہیں ڈےلیٹ کر دیں۔
8۔ فری لانسنگ یا کوئی بھی آن لائن کام کرتے ہوئے مطلوبہ پلیٹ فارم کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں اور ڈائریکٹ معلومات دینے کی بجائے کسی ایسے شخص کے ذریعے بھیجیں جو اس پلیٹ فارم کے بارے میں جانتا ہو۔
9۔ موبائل میں کسی بھی طرح کا قابل اعتراض مواد رکھنے سے گریز کریں۔
10۔ تعلیمی اداروں میں اگر کوئی سٹاف ممبر آپ کو بلیک میل کرے تو فورا کلاس فیلوز، دوستوں اور والدین کو بتائیں اور متعلقہ اتھارٹی کو رپورٹ کریں۔
نوجوانوں کو بلیک میلنگ سے بچانے میں میڈیا کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟میڈیا کو چاہیے کہ روایتی نوک جھونک اور سیاست دانوں کو لڑانے والے کلچر سے باہر نکلیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے متعلق خطرات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ والدین سے زیادہ سے زیادہ مخاطب ہوں اور انہیں بتائیں کہ کس طرح فیک مواد کے ذریعے ان کے بچوں کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور انہیں اپنے بچوں کی بات سننی چاہیے لیکن شاید ہمارے میڈیا میں موجود لوگوں کو خود شاید ابھی اس کے جاننے کی ضرورت ہے ۔
فلم، ڈرامہ انڈسٹری اور رائٹرز کا کردار:کسی بھی ڈرامہ یا فلم کی بنیاد اس لکھاری کا ہوتا ہے۔ ہمارے ڈرامہ اور فلم سکرپٹ رائٹرز کو گھسے پٹے ساس بہو والے کرداروں سے باہر نکلنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔نیز عزت لٹ گئی ۔ برباد ہو گئے ۔ والدین کی ناک کٹوا دی جیسے فضول قسم کے الفاظ اور تھمب نیلز سے نکل کر والدین کے مثبت رویے اور بچوں سے دوستی کی طرف جانا چاہیے تا کہ نام نہاد عزت کے نام پر شدت پسندی کا خاتمہ ہو۔ نیز والدین اپنے بچوں کو منفی سوچ سے پرکھنے کی بجائے مثبت رویہ اپنائیں اور بچوں پر اعتبار اور دوستی سے انہیں خطر ناک ڈیجیٹل دنیا میں رہنا سکھائیں۔