چین 2012 میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 18 ویں قومی کانگریس کے بعد سے نئے دور میں ایک اعلی سطحی کھلے پن پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہے۔اس ضمن میں چینی صدر شی جن پھنگ واضح سمت کا تعین کر چکے ہیں کہ کھلے پن کے ذریعے اصلاحات اور ترقی کو فروغ دینا چین کے لئے جدیدکاری میں مسلسل کامیابیاں حاصل کرنے کا ایک اہم طریقہ ہے۔18 ویں سی پی سی قومی کانگریس کے بعد سے ، شی جن پھنگ کی مرکزی حیثیت سے سی پی سی کی مرکزی کمیٹی نے دنیا کے لئے وسیع تر کھلے پن کے ایجنڈے کے ساتھ اعلی سطح کی کھلی معیشت کو فروغ دینے کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں ، جس نے چینی جدیدکاری کی ترقیاتی گنجائش کو مزید وسعت دی ہے اور عالمی معیشت کی مشترکہ خوشحالی کو فروغ دیا ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں عالمی اقتصادی چیلنجوں اور اقتصادی گلوبلائزیشن کی سست روی کے پیش نظر شی جن پھنگ نے تخلیقی طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے ایک نئے ماڈل کے طور پر متعارف کرایا۔ آج ،یہ اقدام اعلی سطح کی کھلی معیشت کو فروغ دینے اور عالمی معیشت کی مشترکہ خوشحالی کو آگے بڑھانے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔چینی صدر یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ چین دنیا کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کرے گا بلکہ اپنے دروازے زیادہ سے زیادہ کھولے گا ۔ نومبر 2018 میں پہلی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اعلی سطح کے کھلے پن، کھلی عالمی معیشت کی تعمیر اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لیے اپنے اقدامات کو کبھی نہیں روکے گا۔اسی وژن کی روشنی میں چین نے آزاد تجارتی زونز اور آزاد تجارتی بندرگاہوں کے قیام کو اعلی معیار کے بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی قوانین کے ساتھ فعال طور پر ہم آہنگ کیا ہے ، اور قواعد و ضوابط ، انتظام اور معیارات میں ادارہ جاتی کھلے پن کو مسلسل بڑھایا ہے۔ تاحال ، اصلاحات کے 3500 سے زائد پائلٹ منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جن سے متعدد تاریخی اور نمایاں ادارہ جاتی اختراعات پیدا ہوئی ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری کے قانون اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے سے متعلق قواعد و ضوابط کو باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا ہے، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت کے لئے منفی فہرست کے انتظامی نظام کو مکمل طور پر نافذ کیا گیا ہے ، منفی فہرست کو 93 اشیا سے کم کرکے 31 اشیا کردیا گیا ہے۔چین نے خدمات میں سرحد پار تجارت کے لئے اپنی پہلی منفی فہرست بھی متعارف کرائی ہے ، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندیاں ہٹا دی ہیں اور بینکاری ، سیکورٹیز اور لائف انشورنس کے شعبوں میں غیر ملکی ملکیت کی حد یں ختم کردی ہیں۔اسی طرح چین نے اپنی مارکیٹ کو دنیا کے لیے کھولنے میں بھی پہل کی ہے۔چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو، درآمدات پر توجہ مرکوز کرنے والی دنیا کی پہلی قومی سطح کی نمائش کہلاتی ہے، اس نے اپنے آغاز کے بعد سے چھ سالوں میں 420 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کے معاہدے سامنے لائے ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے ذریعے چینی مارکیٹ عالمی مارکیٹ کے ساتھ زیادہ قریبی طور پر جڑی ہوئی ہے۔آج ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک اور تیس سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے ، اور تقریبا ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے ، جو تعاون کے لئے ایک انتہائی مقبول بین الاقوامی پلیٹ فارم بن گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کھلا چین عالمی ترقی کے لئے ایک اہم انجن ہے۔آج ، عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 2012 کے 11.4 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر 18 فیصد ہو گیا ہے اور عالمی اقتصادی ترقی میں اس کا حصہ سالوں سے تقریبا 30 فیصد رہا ہے۔چین نے اعلی معیار کے آزاد تجارتی زونز کا ایک عالمی نیٹ ورک تعمیر کیا ہے اور علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کو نافذ کیا ہے ، دستخط شدہ آزاد تجارتی معاہدوں کی تعداد 10 سے بڑھ کر 22 ہو چکی ہے۔چین نے ایشیئن انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک، برکس ممالک کے نئے ترقیاتی بینک کا آغاز بھی کیا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں کوٹہ اور گورننس اصلاحات کی سہولت فراہم کی ہے۔چین کی جانب سے تجویز کردہ دنیا کا پہلا کثیر الجہتی سرمایہ کاری معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت عالمی تجارتی تنظیم کے 120 سے زائد ارکان مشترکہ طور پر عالمی سرمایہ کاری کے بہائو کو فروغ دے سکتے ہیں۔وسیع تناظر میں ، 18ویں سی پی سی نیشنل کانگریس کے بعد سے چینی صدر شی جن پھنگ نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کا نیا تصور پیش کیا ، جو ایک عظیم وژن کا عکاس ہے اور اس میں چین کا کھلا پن عالمی ترقی کے لئے نئے مواقع فراہم کر رہا ہے۔یہ چین کے کھلے پن کو فروغ دینے سے لے کر دنیا کے تمام ممالک کے مشترکہ کھلے پن کو فروغ دینے تک ، ایک تاریخی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
مختلف ممالک کے ماہرین اور اسکالرز نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران اصلاحات کو وسیع پیمانے پر آگے بڑھانے اور کھلے پن میں چین کی متاثر کن کوششوں اور کامیابیوں کو سراہا ہے جس نے پیچیدہ عالمی جغرافیائی اقتصادی منظر نامے کے تناظر میں چین کی اعلی معیار کی ترقی کی حمایت کی ہے۔چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ الگ الگ انٹرویوز میں ، انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ چین نے تاریخی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے اور انسانیت کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے قیمتی بصیرت اور طاقت کا کردار ادا کیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار چائنا امریکہ اسٹڈیز کے ایک ممتاز فیلو ڈینس سائمن نے کہا کہ وہ چین کے مستقبل کے بارے میں کافی پرامید ہیں۔ سائمن کے نزدیک انہوں نے چین کی اصلاحات اور بیرونی دنیا کے لئے کھلے پن کے چالیس سال سے زائد عرصے کا مشاہدہ کیا ہے ، اور اس نے انہیں ایک بہت ہی دلچسپ نقطہ نظر دیا ہے لہذا جب وہ آج چین آتے ہیں تو واقعی سمجھتے ہیں کہ چین اپنی اقتصادی ترقی اور معاشی ترقی کے معاملے میں کس حد تک پہنچ چکا ہے۔ چین جدت طرازی پر مبنی معیشت بننے جا رہا ہے اور حالیہ قومی سائنس و ٹیکنالوجی کانفرنس، جس سے صدر شی جن پھنگ نے بھی خطاب کیا، انہوں نے چین کے مستقل عالمی کردار کے بارے میں بات کی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے چین کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں زیادہ مضبوط اور زیادہ قابل بننے کے بارے میں بھی بات کی۔ سائمن کے خیال میں چاہے چین کی ای گاڑیوں کو دیکھیں یا چین کے خلائی پروگرام کو دیکھیں، یا چین کی بائیوٹیک کو دیکھیں، ہر اعتبار سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔اس کا تعلق ملک کے کھلے پن، چین میں غیر ملکی اسکالرز کی واپسی اور تحقیقی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لئے وضع کردہ نئی پالیسیوں سے ہے۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے میڈیکل اسکول کے پروفیسر تھامس رابی نے چین کی صحت کی دیکھ بھال کی حالیہ پیش رفت اور عالمی سطح پر صحت عامہ کی کوششوں کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ چینی صدر کی قیادت میں چینی عوام نے حالیہ برسوں میں صحت مند اور پائیدار ماحول حاصل کیا ہے۔ چین نے صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ اصلاحات میں متاثر کن پیش رفت کی ہے ، جن میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی ، طبی ٹیکنالوجی کی جدت طرازی ، اور عوامی صحت کے نظام میں بہتری ، شامل ہیں۔ عالمی صحت عامہ تعاون کے شعبے میں چین نے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر شی جن پھنگ کا انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا تصور اشتراک اور تعاون کی وکالت کرتا ہے۔ تھامس رابی کہتے ہیں کہ وہ بے تابی سے چین کی صحت کی دیکھ بھال کی صنعت میں مزید ترقی کے منتظر ہیں۔زیمبیا میں یونائیٹڈ پارٹی فار نیشنل ڈیولپمنٹ کے کنسلٹنٹ مارک سموے نے پیغام رسانی، سوشل میڈیا اور موبائل ادائیگی کی خدمات پیش کرنے والی کثیر الجہتی چینی ایپ وی چیٹ کی وسیع صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تکنیکی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لئے چین کے مشترکہ نقطہ نظر پر روشنی ڈالی۔ سموے کے خیال میں وی چیٹ استعمال کرتے ہوئے آپ ہوائی ٹکٹ خرید سکتے ہیں، آپ کپڑے خرید سکتے ہیں، آپ کار ہیلنگ سروس حاصل کرسکتے ہیں، آپ ہوائی جہاز پر جا سکتے ہیں، تیز رفتار ٹرین، میٹرو پر جا سکتے ہیں، آپ کھانا خرید سکتے ہیں صرف ایک کیو آر کوڈ اسکین کریں اور آپ کا کام پورا ہو گیا۔چین تکنیکی ترقی کے ثمرات سے اکیلا مستفید نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کا اشتراک کر رہا ہے۔زیمبیا میں بھی ایسے کئی منصوبہ جات ہیں، جن کے بارے میں آپ بات کر سکتے ہیں۔زیمبیا میں ہائیڈرو پاور اسٹیشنز اور صنعتی پارک جیسے شعبہ جات میں ، چین زیمبیا کی ترقی میں مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ مشترکہ مستقبل کی علامت یا مظاہرہ ہے جس کے بارے میں آپ بات کر سکتے ہیں۔پاناما سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادیات رچرڈ مورالس نے کہا کہ چین کا ترقیاتی ماڈل دیگر معیشتوں بالخصوص ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ چین کی گہری سطح کی اصلاحات اور اعلی سطحی کھلے پن سے چین کے لیے ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ دنیا کو وسیع تر منڈیاں فراہم ہوں گی۔ماہرین کے نزدیک چینی معیشت کے پیمانے اور اس کے ترقیاتی رجحان کی وجہ سے عالمی اقتصادی انضمام کے عمل میں چین کی اصلاحات اور کھلا پن بہت اہم ہے۔ چینی معیشت پیداواری صلاحیت کو فروغ دینے، تکنیکی جدت طرازی کو یکجا کرنے، سماجی ترقی کو فروغ دینے اور سماجی پالیسیوں کو بہتر بنانے کی جانب مرکوز ہے۔