خالق عظیم

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

جب بھی کو ئی مجھ سے یہ سوال کر تا ہے کہ کیا واقعی خدا ہے اور ہم موت کے بعد پھر ایک بار زندہ ہونگے تو یقین مانیے اس کی عقل پر ما تم کر نے کو دل کر تا ہے کیونکہ اگر ایک بار وہ غور سے صرف خود کو ہی دیکھ لے تو فوری طو رپر خدا پر ایما ن لے آئے گا۔ ہماری کا ئنات کا ہر منظر خد اکی گوا ہی دیتا ہے ہر منظر کی دل کشی اس کے خالق کی طرف متو جہ کر تی ہے کیو نکہ فطرت کا ہر منظر نہا یت دل کش رنگین اورسحر انگیز ہے کہ اگر ہم اِن منا ظر کے با رے میں لکھنا شروع کر یں تو یقنا سمندروں کا پانی ختم ہو جا ئے اور خدا ئے بزرگ و بر تر کی بڑائی ختم نہ ہو۔ ہمارے چاروں طرف کرو ڑوں منا ظر خا لق کی خالقیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جب بھی ہم اِن مناظر کی ترتیب تنو ع اور پر فیکشن کو دیکھتے ہیں تو عظیم آرٹسٹ اور خالق کے وجود کو ماننا پڑتا ہے آپ کے اطراف ہزاروں رنگ برنگے خوبصورت پرندے نظر آتے ہیں اِن کی ساخت اور رنگوں پر اگر ہم غو ر کریں تو جبیں خالق کے حضور سجدے میں گر جا تی ہے آپ بغور دیکھیں ہر پرندے کو اس کی ضرورت کے مطا بق تخلیق کیا گیا ہے دانہ چگنے والے پرندوں کو چھوٹی چونچ ملی‘ ہدہد کو دیکھیں جو درختوں کی چھال میں کیڑے بھی تلاش کرتا ہے‘ قدرت نے ہد ہد کو لمبی اور نو کیلی چونچ عطا کی ہے با غات میں پھلوں کو کا ٹنے والے پرندوں کو موٹی تیز اور سخت چونچ عطا کی گئی ہے۔ خو شگوار حیرت اس وقت ہو تی ہے جب آپ مر غا بی اور بطخ کو دیکھتے ہیں یہ دونوں پا نی سے غذا حاصل کر تے ہیں اِس لیے انہیں کڑچھا نما چونچ سے نوازا گیا اور اگر آپ مختلف شکاری پرندوں کے پنجوں کو غور سے دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ ان کے پنجے سخت نوکیلے اور بڑے ہو تے ہیں باقی پرندوں کو چھو ٹے اور مضبوط پنجے دئیے جا تے ہیں تا کہ وہ شاخوں کو پکڑ سکیں کیونکہ مرغابی درختوں پر نہیں بیٹھتی۔ اِس لیے اسے جھلی والے چوڑے پنجے دئیے گئے ہیں چیونٹیاں کھانے والے جا نور چیونٹیوں کے بل میں اپنی لمبی زبان ڈال کر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اور جب اس کی زبان سے بہت ساری چیونٹیاں چمٹ جاتی ہیں تو وہ زبان کھینچ کر زبان سے لگی چیونٹیوں کو ہڑپ کر جا تا ہے خالق عظیم کی ہر تخلیق اپنا ہی حسن رکھتی ہے ۔ہر جاندار کو اس کی پہچان اور خو بصورتی کے لیے کو ئی نہ کو ئی آواز عطا کی ہے‘ پرندوں کو ایسی سریلی سحر انگیز مستی اشاری والی آوازیں دی ہیں مثلا کوئل ، مور چکور کو نج چڑیاں فطرت کے اِن سریلے گلو کا روں کی آواز کا کمال ملا حظہ فرمائیں کہ یہ پرندے ایک ہی آواز کو بار بار لگا تار دہراتے ہیں لیکن سننے والا بور نہیں ہوتا بلکہ خوب انجوائے کرتا ہے اور جب آپ مختلف پرندوں کی جسامت رنگ اور خوبصورتی پر غور کر تے ہیں تو اش اش کر اٹھتے ہیں کائنات میں ہزاروں پرندے ہیں اِن کے ہزاروں رنگ بھی ہیں پرندوں کو ہزاروں رنگ دینے کے بھی مقاصد ہیں اول تو کا ئنات کے حسن میں اضافے کے لیے دوم اِن رنگوں سے پرندوں کی حفا ظت کا کام بھی ہوتا ہے باغوں میں طوطوں کا رنگ سبز تیتر چکور سسی بٹیر کو زمینی رنگ عطا کیا گیا تا کہ وہ دور سے نظر نہ آئیں۔ باغوں اور بیلوں میں رہنے والے پرندوں کو پھولوں پتوں اور شگوفوں کا رنگ عطا کیا گیا جنگلی کبوتر کو نیلا رنگ اِس لیے تا کہ وہ نیلگوں فضاﺅں میں نظر نہ آئے آپ حیران ہو تے ہیں جب گھریلوکبوتروں کو دیکھیں کہ اِن کے رنگ جنگلی کبوتروں سے کتنے مختلف ہو تے ہیں اِن کے خوبصورت رنگوں کی وجہ یہ ہے کہ اِن کے رنگوں سے انسان لطف اٹھا سکیں ۔ آپ جب اِن پرندوں کے گھونسلوں کو دیکھتے ہیں تو اِن کی عقل پر حیران ہو جا تے ہیں بعض درختوں کے اندر سوراخ کر تے ہیں یا سوراخوں میں قیام کر تے ہیں بعض پرندے تنکوں سے گھونسلے بناتے ہیں بعض پروں سے، چیل عقاب شاخوں سے اور اس وقت آپ کی حیرت آخری حدوں کو کراس کر جاتی ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ بعض پرندوں نے گھونسلوں کے باطن کو کیچڑ سے لیپ کیا ہو تا ہے حفاظت کا اچھوتا انداز ہمیں یو رپ کی فاختہ میں نظر آتا ہے جب وہ خرگوشوں کے پرانے بل میں تقریبا 15 سے 20فٹ اندر جا کر انڈے دیتی ہے قدرت کا شاہکار نظارہ یہ ہوتا ہے جب آپ غو طہ خو ر پرندوں کے گھو نسلے عموما پانی پر تیرتے ہوئے دیکھتے ہیں ایک پرندہ ایسا بھی ہے جو کیچڑ اور بالوں سے تین فٹ لمبی سرنگ بناتا ہے اور آخر میں ایک چھو ٹا سا سوراخ رکھتا ہے جس سے وہ داخل ہو کر انڈے دیتا ہے، انڈے دینے کے منا ظر دیکھ کر بھی خدا کی خدائی واضح نظر آتی ہے جو پرندہ جس ماحول میں رہا ئش رکھتا ہے وہ اسی سے ملتے جلتے انڈے دیتا ہے تاکہ اس کے انڈے دور سے نظر نہ آئیں۔ افزائش نسل اور حفاظت نسل کا جذبہ بھی قدرت نے اِن پرندوں میں رکھا ہوتا ہے جن پرندوں کے انڈے حضرت انسان زیادہ کھا تے ہیں وہ بہت زیادہ دیتے ہیں تا کہ انسانوں سے اگر بچ جائیں تو ان کی نسل آگے بڑھ سکے حیرانی والی بات اس وقت سامنے آتی ہے جب آپ انڈے کے اندر موجود بچے کے سر پر آپ یا چونچ پر چھوٹا سا سینگ دیکھتے ہیں اس سینگ کے بل بوتے پر بچہ انڈا توڑ کر با ہر آجاتا ہے یہ سینگ صرف انڈے سے باہر آنے کے لیے قدرت نے لگاےا ہوتا ہے اب باہر آنے کے بعد کیو نکہ اس سینگ کی ضرورت نہیں ہو تی تو وہ سینگ خود ہی غائب ہو جا تا ہے جب بچے نکلتے ہیں تو ایک ایک من بھاری پرندے نہ جانے کہاں سے آتے ہیں اِن بچوں کو اٹھا کر اپنے گھونسلوں میں لے جا تے ہیں۔ پینگوئن کی ایک اور قسم جس کا وزن ایک من سے زیادہ ہو تا ہے برف پر انڈا دیتی ہے اور پھر فورا اسے اپنے جسم کی تھیلی میں ڈال لیتی ہے اور پھر یہ بچہ اِسی تھیلی میں رہتا ہے ۔ مرغابی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جب اس کے بچے تیرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو وہ نقل مکانی کے لیے انہیں اپنی پیٹھ پر بٹھا کر پانی کی طرف لے جاتی ہے دوران پرواز بچے اس کے بالوں کو چونچ سے پکڑے رکھتے ہیں۔ مادہ مگرمچھ کا نظارہ بھی خدائی کا واضح ثبو ت ہو تا ہے ما دہ مگر مچھ ریت میں ایک خندق کھود کر اس کے بیچ میں انڈے دے دیتی ہے اور پھر ان کے انڈوں پر ریت ڈال دیتی ہے اور جب تین ماہ کے بعد پیدائش کا وقت قریب آتا ہے تو ماں کو اپنی طرف متوجہ کر نے کے لیے انڈوں کے اندر اِن بچوں کو ہچکی لگ جاتی ہے ان کی حرکت اور لرزش سے زمین میں جو لرزہ طا ری ہو تا ہے اس سے ماں ان انڈوں تک پہنچ کر ریت ہٹا دیتی ہے تا کہ پیدائش کے عمل میں آسانی ہو سکے ۔یہ عقل بھی تو خدا نے ہی دی ہے، ہا رن بل کی مادہ انڈوں کو سیتے ہوئے ہفتوں ان پر بیٹھی رہتی ہے باہر نہیں جا تی اس دوران نر باہر سے مادہ کے لیے روزانہ خو راک لا کر ما دہ کو کھلاتا ہے۔ برفیلے موسم میں جب پانی جم جاتا ہے تو پرندے بر فیلے علا قوں سے دوسرے علا قوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں ان کی یہ ہجرت دوسرے ممالک بلکہ ہزاروں میل پر محیط ہو تی ہے ۔پلودر نامی پرندہ ایک ہی پرواز میں دو ہزار میل پرواز کرتا ہے خد اکی کا ئنات میں توازن سے انسان بھی اس کو خراب کر نے کی کو شش کرتا ہے تو اس کو خدا کی دانش پر یقین آتا ہے۔ چین میں ماﺅزے تنگ کی ہدایت پر چڑیاں مارنے کا دن منا یا گیا تمام چڑیاں ما ر دی گئیں۔ چڑیوں کے بعد حشرات نے ان کی فصلوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا تو دوبارہ چڑیوں کو واپس لایا گیا تا کہ وہ نقصان دہ حشرات کو کھا سکیں اِس کائنات کے چپے چپے میں خدا کی فکر و دانش ملتی ہے اِس لیے ہم اِس کا ئنات کے مالک کو خدا ماننے پر مجبور ہیں ۔