عبداللہ کریم: بنجارہ ہوں مجھ کو جانا ہوگا

عاشق فراز

محترم صدر محفل ، مہمان خصوصی اور شرکائے محفل:السلام علیکم۔سب سے پہلے میں جناب کاچو افتخار حسین مقپون صدر نشین قدر دان فاﺅنڈیشن ، ان کے جملہ ارکان کا نہایت مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھ ناچیز کو آپ سب سے مخاطب ہونے کا اعزاز اور موقع فراہم کیا۔ قدر دان فاﺅنڈیشن نے اپنے قیام سے اب تک کے اس مختصر عرصے میں گراں قدر سرگرمیاں انجام دی ہیں ۔ان میں ادب و ثقافت کی خدمت کرنے والے افراد کے لئے علی شیر خان انچن ایوارڈکا اجرا ، ممتاز علمی اور سماجی شخصیات کی خدمات کا اعترافی سلسلہ اور یاد رفتگاں کے حوالے سے منعقدہ تقاریب نمایاں اور قابل ذکر ہیں۔ آج کی محفل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔میں کمشنر بلتستان جناب نجیب عالم، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر غلام علی اور ان کے رفقا کا بھی نہایت مشکور ہوں کہ انہوں نے گزشتہ سال سے علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ مکالماتی نشستوں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور یوں ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔مجھے قدر دان فاﺅنڈیشن کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میں عبداللہ کریم کے بارے میں کچھ کہوں گو کہ میں کسی صورت اس کا اہل نہیں ہوں کہ ان کی شخصیت کا کچھ احاطہ کرسکوں۔

سامعین کرام:میں عبداللہ کریم کو مرحوم نہیں کہوں گا کیونکہ توانائی سے بھرپور ایک ایسا شخص جو نگری نگری پھرا مسافر ہو وہ فنا نہیں ہوسکتا، رک نہیں سکتا ہاں وہ بنجارہ بن کر لمحہ موجود سے نکل کر کسی اور زمان و مکاں میں محو خرام ضرور ہوگا۔ برصغیر کے مشہور شاعر جاوید اختر کی نظم بنجارہ لگتا ہے کہ عبداللہ کریم کے لئے لکھی گئی ہے۔نظم کا کچھ حصہ یوں ہے۔

میں بنجارہ

وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں لیکن

وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مڑ کے دیکھ رہا ہوں

سوچ رہا ہوں

تم سے میرا یہ ناتا بھی ٹوٹ رہا ہے 

وقت کا اب وہ شہر بھی مجھ سے چھوٹ رہا ہے

مجھ کو وداع کرنے آئے ہیں

اس نگری کے سارے باسی

نم آنکھوں سے

گم سم مجھ کو دیکھ رہے ہیں

مجھ کو ان کے دکھ کا پتا ہے

ان کو میرے غم کی خبر ہے

لیکن مجھ کو حکم سفر ہے

جانا ہوگا۔

عبداللہ کریم کی شخصیت کھلی ڈھلی اور عوامی انداز کی تھی جس میں نہ تو کذب و ریا کا دخل تھا اور نہ ہی یہ مصنوعی تقدس کے ہالے میں لپٹی ہوئی تھی۔ بس وہ ایک بے چین بنجارہ تھا جسے ہر دم سفر پر رہنا تھا۔ میانہ قد ، باہر کو جھانکتی بڑی آنکھیں اور آدھا سر بالوں سے خالی عبداللہ کریم کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔ سردی ہو کہ گرمی دن ہو کہ رات اس کے سر پر بلتستان کی مخصوص اونی ٹوپی ضرور ہوتی اور یہی ان کی خصوصی پہچان تھی اور علاقے کی ثقافت کا اظہار عامہ بھی۔گو کہ باقی زیر جامہ کے لئے انہوں نے اجتہاد کیا ہوا تھا اور وہ عموما فرنگیوں کی طرح کا ہوتا تھا۔ ہاں سردیوں کے موسم میں ان کے گلے میں ایک مقامی اون سے بنا مفلر ضرور ہوتا تھا جس کے دونوں کناروں پر سواستیکا جسے بلتی میں یونگ درونگ کہتے ہیں بنے ہوئے تھے۔ ماہرین کے مطابق سواستیکا دراصل دائرہ حیات کا نشان ہے جس کا کھلا حصہ اس کی تکمیل کی طرف گامزن ہونے کا اظہارِ ہے۔ شاید عبداللہ کریم اپنے تکمیل کی طرف اب گامزن ہوں۔عبداللہ کریم سے پہلے پہل تعارف بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے حوالے سے ہوا جب ہم نے غالبا 1990کی ابتدا میں اپنے محلے میں اس طلبا تنظیم کی ایک شاخ کا آفس کھولا تھا۔ عبداللہ کریم نے ہماری بڑی حوصلہ افزائی کی تھی جب کہ کئی حلقوں سے مخالفت کی بڑی آوازیں بلند ہوئیں تو ایسے میں صرف عبداللہ کریم اور سید حیدر شاہ رضوی نے کھل کر ساتھ دیا تھا۔ان سے دوسرا تعلق جو ان کے دام اجل کو لبیک کہنے تک برقرار رہا وہ غلام حسن حسنی کے توسط سے ہوا ۔ غلام حسن حسنی گلگت بلتستان کی علمی و ادبی دنیا کا بہت بڑا نام ہمارے بڑے مہربان تھے۔ انہوں نے موجودہ سٹار مارکیٹ نیا بازار جہاں سیاچن ہوٹل موجود ہے وہاں جب مارکیٹ صحیح طریقے سے بنی بھی نہیں تھی ایک چائے خانہ نما ہوٹل میں باقاعدہ طرحی مشاعروں کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ہوٹل کیا تھا تنگ و تاریک نچلی چھت والے دو کمرے جس میں سے ایک میں چائے ، ترکاری پکانے اور سٹیل کے برتن رکھنے کی جگہ تھی۔جب کہ دوسرا کمرہ چائے خانے کے ساتھ متصل اور اس کمرے کی درو دیوار میں آتش دان سے اٹھنے والے دھویں نے طرح طرح کے نقش و نگار بنانے تھے جسے ہم تجریدی آرٹ کا شہکار کہہ سکتے ہیں۔ اسی کمرے میں ہفتے میں ایک دن شیخ غلام حسین سحر، راجہ محمد علی شاہ صبا، شمیم بلتستانی، پروفیسر حشمت کمال الہامی، محمد عباس کھرگرونگ ، غلام حسین غمگین، اخون محمد حکیم اور دیگر کئی دوست احباب جمع ہوتے تھے۔جہاں کوئی شعر سناتا تو کوئی نثر کا کوئی ٹکڑا پیش کرتا تھا۔ عبداللہ کریم ان منعقدہ محفلوں کا اکلوتا سامع ہوتا تھا ہاں کبھی کبھار ترنگ میں آکر بانسری بجاتا یا کبھی کسی ڑگیاخلو کے کچھ مصرعے ضرور سنایا کرتا تھا۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ عبداللہ کریم زبانی کلامی یعنی صرف ٹوپی کی حد تک نہیں بلکہ نظریاتی اور عملی طور پر یہاں کی تہذیب وثقافت کا دلدادہ ہے۔ یہاں کی لوک داستانیں، کیسر کی رزمیہ کہانی اور تبت خورد و کلاں میں زندگی کی اولین پیدائش کے حوالے سے اس کا اپنا خاص نکتہ نظر تھا۔وہ کئی سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر رہے اور اس کمیشن کا مجلہ جہد حق کے بنڈل کندھوں پر لاد کر ایک ہاکر کی طرح گھوم پھر کر سب کو مفت بانٹتا پھرتا تھا۔ ان سے مختلف اوقات میں کی گئی گفتگو سے معلوم ہوا کہ ان کی دوستی اور شناسائی پاکستان کے بڑے بڑے پروگریسو رائٹرز اور صاحبان فکر کے ساتھ تھی۔ نظریاتی طور پر عبداللہ کریم بائیں بازو کی جماعتوں اور فکر کے حامی تھے۔وہ محنت کشوں کی عظمت اور بالادستی کا خواب دیکھنے والا تھا گو یہ ان کی حیات میں خواب ہی رہا اور نہ جانے کتنے زمانے اور بیت جائیں گے ان خوابوں کو حقیقت میں ڈھلنے کے لئے۔فیض نے کیا خوب کہا ہے۔

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

عبداللہ کریم نے زندگی کے آخری ایام زیادہ تر بلتستان کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ فاﺅنڈیشن کے ساتھ گزارا ہے۔ان سے ملنے اور گفتگو کرنے ان کے تمام دوست احباب جن میں محمد عباس کھرگرونگ، غلام حسین لوبسانگ، وزیر فیروز، وزیر شریف، غلام حسین بلغاری شامل تھے وہ سب شیر علی چوک میں BCDF کے ڈسپلے سنٹر میں جمع ہوتے تھے اس طرح یہ جگہ ایک قسم کا ادبی چوپال بن گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر وزیر شریف کی شئیر کئی گئی بعض تصاویر میں شیخ توحیدی، سید فخر عباس ، محمد علی PIA اور کئی دیگر شخصیات بھی اسی ڈسپلے سنٹر میں عبداللہ کریم کے دائیں بائیں بیٹھیں محو گفتگو نظر آئیں۔ان کا حلقہ احباب یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کی صحبت راجہ محمد علی صبا، شیخ غلام حسین سحر، راجہ تہور علی خان ، شمیم بلتستانی ، اخون محمد حکیم ، غلام حسن حسنی، پروفیسر حشمت کمال الہامی ، وزیر حمایت حسین، محمد حسن حسرت ، ابراہیم ثنائی، محمد ظہیر منڈوق، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر محمد رضا، ڈاکٹر اشتیاق حسین، ڈاکٹر حاجی کریم سمیت کئی دیگر اہل قلم اور صاحبان فکر سے تھیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لہذا اب آپ بتائیں گے کہ میں عبداللہ کریم کو کس خانے میں رکھوں۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے

آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔(20 اپریل2024کو ڈویژنل کمپلیکس کمشنر آفس سکردو میں عبداللہ کریم کی یاد میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)