شاہد اقبال
یہ کہنا بالکل مبالغہ نہیں ہوگا کہ ارض گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان پاکستان کے سب سے تعلیم یافتہ خطوں میں سے ایک ہے یہاں کی شرح خواندگی اس بات پر دلالت بھی کرتی ہے۔ بلتستان کی محدود سی آبادی ہونے کے باجود جو کہ وسیع و عریض علاقے میں مختلف وادیوں اور چھوٹے اور تنگ نالوں میں پھیلی ہوئی ہے پھر بھی صبح کو دور دراز کے دیہاتی گاﺅں میں بھی تقریبا سو فیصد سکول کی عمر والے بچے بچیاں وردی بستہ کے ساتھ سکولوں کی طرف چلتے نظر آتی ہےں۔ بیشتر دیہات میں ہائی سکول تک تعلیم میسر ہے اسلئے یہاں کے دیہاتوں میں ان پڑھ تصور کرنے والے بھی ہائی سکول کے ڈگری یافتہ ضرور ہوتے ہیں۔ یہ دور دراز کے دیہاتوں کی صورت حال ہے جو جگہیں قدرے شہر ہیں ان کی تعلیمی حالت دیہاتوں سے کئی گنا بہتر ہے بلکہ ناقابل موازنہ ہے۔ اس قدر حصول علم کا ذوق و جنون اگرچہ خوش آئند بات ہے لیکن جدید ڈیجیٹل دور میں یہ روایتی طرز تعلیم اب ناکافی ہے بلکہ اسے اب ناقص شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سٹوڈنٹس کے کامیاب مستقبل کی ضامن نہیں بن سکتی۔ ہمارے سکول کالجوں میں اب بھی املا، خوشخط، حفظ کرنا، رٹے لگانا اور اول و دوئم پوزیشن کیلئے ایڑی چوٹی ایک کرنا اصول ِ علم بنا ہوا ہے اسی عمل کو ہی حصول علم و تعلیم گردانا ہوا ہے جو کبھی معقول تھا لیکن اب گلوبل ویلیج کا زمانہ ہے ڈیجیٹل دور ہے دنیا کی ہر مارکیٹ ہر فرد کی دسترس میں ہے مواقع تنگ ہےں مقابلہ سخت اور مقابلہ باز انگنت۔ آپ جہاں سے بھی ہو جہاں بھی بیٹھے ہو آپ انٹرنیٹ اور فری لانسنگ جیسے مارکیٹ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی عہدہ پر ملازمت کر سکتے ہےں بشرطیکہ آپ اسکے اہل ہوں۔ اسلئے اب مزید جدیدیت کیساتھ ہمارے تعلیمی اداروں کو سپیشللائزیشن اور جدید ہنر جیسے شعبوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ہمارا تعلیمی نظام اگرچہ نوآبادیاتی نظام تعلیم کے تابع ہے اس مسلط شدہ فرسودہ اصول و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے بھی ہمارے معیار تعلیم میں بہتری لانے کی پھر بھی گنجائش موجود ہے جسکا بہترین حوالہ 2000 سے 2020 کے درمیان کا شاندار تعلیمی انقلاب ہے۔ 1990 کی دہائی میں پہلا پبلک سکول بنتا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے پبلک سکولوں اور کالجوں کا جال بچھ جاتا ہے اور اس بیس پچیس سال کی قلیل مدت میں شاندار تعلیمی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ آج اس سے بھی قلیل مدت میں ایک اور شاندار انقلاب وقت کا تقاضا ہے۔ اور اب کی بار بھی جدید تعلیمی انقلاب کی توقع انہی پبلک سکولوں اور کالجوں سے پیوستہ ہے بیچارے سرکاری تعلیمی ادارے تو پاکستانی سرکار کی سرپرستی میں بس چلتے ہیں۔ البتہ اب ان میں بھی حیران کن حد تک بہتری آ رہی ہے۔اس جدید دور میں ہمیں اپنے تعلیمی نظام کی کمزوری اور وقت کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کیلئے تعلیم یافتہ طبقہ کی مشکلات کا اندازہ لگانا ہوگا یہ لوگ ہمارے تعلیمی اداروں کی پراڈکٹ ہیں جو بیروزگار پڑے ہوئے ہیں معاش کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔ چند سیٹوں کی پوسٹ کیلئے ہزاروں امیدوار بھگدڑ مچاتے آتے ہیں اور ناامید ہو کے لوٹ جاتے ہیں۔ موزون ترین کی بقا کی جنگ کے دور میں سب موزون ترین نہیں ہو سکتے البتہ سب ڈگری یافتہ ہونے کیوجہ سے امیدوار ضرور ہوتے ہیں۔ علاقے میں مقامی سطح پہ نجی یا سرکاری فیکٹری، انڈسٹری اور بڑے اداروں کی عدم موجودگی نے تعلیم یافتہ طبقہ کو اور بھی مشکلات کے کنوےں میں اتار دیا ہے ۔ اس طرح کے سخت مقابلے والے حالات تعلیمی اداروں پر مزید موزوں اور جدید تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔جدید تعلیم سے مراد ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھایا جائے۔ طلبا کو سکول کالجوں میں مختلف شعبوں، اداروں، کارخانوں، اور مارکیٹوں میں موجود معاشی مواقع سے روشناس کرائیں اور ان مواقع کو کیچ کرنے کیلئے ان کے اندر اس عہدے کے متعلق کی تمام اہلیت پیدا کرنے پر باقاعدہ کام بھی کریں۔ پاکستان میں نااہلیت تعلیم یافتہ لوگوں کی بیروزگاری کی اصل وجہ ہے۔ کارخانہ دار کا کہنا ہے ہمیں اعلی تعلیم یافتہ کی بجائے ہنرمند ورکرز کی تلاش ہے جو کمیاب ہیں۔ کمپنیوں کا بھی کہنا ہے ہمیں اپنے متعلقہ شعبہ میں مہارت رکھنے والے افراد ہزاروں میں سے چند گنے چنے ملتے ہیں۔ میٹرک کالج کے چار سال کے دورانیہ میں طلبا کو کسی ہنر میں مہارت حاصل کرنے کی مسلسل تلقین اور تربیت کر کے ان کے معاشی مستقبل کو محفوظ بناےا جا سکتا ہے ۔ جب تک طلبا کا معاشی مستقبل محفوظ نہیں ہوگا وہ آزادانہ علم اور معیاری تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ اسکول کی تعلیم معاشی آمدنی کی ضامن نہیں۔ معاشی ضرورتیں طلبا سے پڑھائی چھڑوا سکتی ہیں جس کا میڑک، کالج کے بعد طلبا کی ایک اچھی خاصی تعداد شکار بنے نظر آتی ہے ۔ اگر پڑھائی طلبا کے ذریعہ معاش کا ضامن بھی بنے تو پڑھائی ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بچتی۔ انہیں اعلی درجہ کی تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا بھی کم کرنا پڑے گا۔ لہذا جدید دور میں علم کے ساتھ جدید ہنر بھی برابر لازمی ہے۔ کیونکہ جس کے پاس علم و ہنر دونوں آ جائےں وہ اپنا شکار خود کرنا جان جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو جدید تعلیمی اداروں سے مقابلہ کرنے کیلئے اور طلبا کے روشن مستقبل کیلئے دونوں ذمہ داریوں کو برابر نبھانا ہوگا۔ اس ذمہ داری کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کرام کو اس حوالے سے ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔ اور کلاس روم کا ڈھانچہ، ٹائم ٹیبل اور سلیبس بھی کچھ اسطرح سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ جو معاشی مارکیٹ کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس پر مزید طلبا کو پرکھنے اور انعامات سے نوازنے کا معیار بھی بدلنا ہوگا۔ یہ اقدامات مشکل ضرور ہوں گے لیکن وقت کی ناگزیر ضرورت ہے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ اقوام کے جدید تعلیمی نظام کی تقلید کیے بغیر ہمارا من حیث القوم مستقبل محفوظ نہیں۔ ڈارون نے انسانوں کے ہم عصر باقی تمام جانوروں میں سے انسان کے سروائیو کر جانے کا واحد راز یہ دریافت کیا تھا کہ انسانوں نے بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا سیکھا تھا۔ یہ ہمارے لیے آج کا سبق ہے۔