بچپن سے بڑھاپے تک کا سفر

 ماہ نور اشرف وٹو 


 کہتے ہیں انسان کی زندگی کا خوبصورت ترین دور اس کا بچپن ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس کے آگے پیچھے گھومتا ہے۔ اسے کچھ چاہیے ہو تو بس، ذرا سا رونا ہوتا ہے اور وہ چیز اس کے سامنے لا کر رکھ دی جاتی ہے۔میرا بچپن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی۔ عموما لڑکیوں کی پیدائش پر لوگ منہ بناتے ہیں لیکن میرے خاندان والے میری پیدائش پر بہت خوش تھے۔اس وقت، جب میری نانی اور دادی مجھے دیکھنے اسپتال پہنچیں تو اپنے ساتھ ڈھیروں غبارے اور کھلونے لائیں تھیں۔میری امی جان بتاتی ہیں کہ انہیں میری پیدائش پر میرے لیے اتنے کپڑے جوتے اور دیگر استعمال کی چیزیں ملی تھیں کہ انہیں ایک سال میرے لیے خریداری کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ مجھے تحفے میں کپڑے بہت ملے جس وجہ سے ان کو کچھ سال میری خریداری ہی نہ کرنا پڑی۔میں بہت ہنسنے کھیلنے والی نہیں تھی۔ کافی سنجیدہ رہتی تھی۔ بس اپنی دنیا میں گم کیونکہ کوئی بھی ذمہ داری نہیں، نہ کسی خوف و پریشانی کا احساس ہوتا تھا یوں سمجھ لیجیے کہ ایک آزاد پرندے کی مانند آزاد فضاﺅں میں جہاں جی چاہا اڑان بھر دیا جسے ہم بچپنا کے نام سے جانتے ہیں۔بچپن میں کسی چیز کی فکر نہ تھی کیونکہ معلوم تھا کہ والدین خیال رکھنے اور فکر کرنے کو موجود ہیں۔ بس پھر بچپن پلک جھپکتے گزر گیا۔پھر جوانی شروع ہو گئی۔ کب کیسے پتہ ہی نہیں چلا۔ کچھ نگاہیں تھیں جنہوں نے احساس دلایا کہ اب میں وہ نہیں رہی۔ پھر امی جان نے بھی دبے دبے الفاظ میں کچھ ہدایات دیں۔ دماغ نے ان ہدایات کو اچھی طرح ڈی کوڈ کر کے سمجھ لیا۔لیکن کہا جاتا ہے کہ جوانی بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی ہے رگوں میں دوڑتا تیز خون جوانی کو لے کر غرور و تکبر پر اتر آتا ہے۔اس ہی طرح سکول اور کالج سے فارغ ہوئی تو یونیورسٹی آن پہنچی۔ یہاں کا ماحول ہی بالکل الگ تھا۔ چار سال کی ڈگری۔ اس کے بعد یا تو شادی کرو اور پیا گھر جاﺅ۔ یا اپنے پیروں پر کھڑی ہو، پھر کوئی ایسا ملے جس کے ساتھ رہنے کا دل کرے تب گھر بساﺅ۔یہ صرف میں سوچ سکتی ہوں، میرے ساتھ کیا ہو گا یہ وقت آنے پر خود بخود طے ہو گا۔ مجھ سے شاید پوچھا بھی نہ جائے جیسے ہمارے ہاں کی زیادہ تر لڑکیوں سے پوچھا نہیں جاتا۔اس وقت مجھے کئی چیزوں پر فوکس رکھنا ہے۔ سب سے پہلے تو میری پڑھائی، پھر گھر کے کاموں کی ذمہ داری، ماں باپ کا دھیان رکھنا، دوستوں سے ملنا ملانا کیونکہ کچھ لوگ جوانی کے نشے میں مست ہو کر ماں باپ تک کو نہ بخشتے وہ جن کی بدولت یہ آج کاروان زندگی میں شامل ہے ان کو ہی بھول جاتے۔میں اپنے والدین کا آخری سہارا ہوں۔ کبھی کبھی میں اس بات پر ہنستی بھی ہوں کہ ابھی تو میں خود ان کے سہارے ہوں۔ میں آخر ان کا سہارا کیسے بنوں گی۔ لیکن وہ وقت بھی قریب ہے۔کچھ روشن خیال لوگ یہ بات بھی کرتے ہیں کہ والدین بچے کو اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں۔ ان کا بچے پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ وہ اس سے توقعات نہیں لگا سکتے۔اگر مغرب میں یہ بات ہو رہی پو تو کچھ سمجھ بھی آتی ہے وہاں والدین ایک مخصوص عمر کے بعد خود اپنے بچے کو گھر سے باہر نکال دیتے ہیں۔ بچے اپنی تعلیم کے لیے خود نوکری کرتے ہیں یا بنک سے قرضہ لیتے ہیں۔ اور نوکری ملنے کے بعد اسے اتارتے ہیں۔ان کا معاشرتی نظام ایسا ہے کہ کسی کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ جن کا روزگار نہ ہو، جو بوڑھے ہوں انہیں پینشن دیتی ہے۔ہمیں تو کوئی سخت گرمی میں مفت پانی بھی نہیں دیتا۔اس طرح ابھی بچپن سے لے کر جوانی تک کا سفر چند لمحوں کے لیے دماغ میں کسی فلم کی طرح تیز تیز چلنا شروع ہی ہوتا ہے کہ بڑھاپا آ پہنچتا ہے۔بڑھاپا انسانی زندگی کا سب سے کمزور حصہ ہے اس لیے اس کے لیے کام کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بوڑھے لوگوں کو معذور بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ اگر گھر میں دادی جان موجود ہیں تو اگر وہ اٹھ کر باورچی خانے میں جانے لگے تو ان کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو کیا چاہیے ہم آپ کو لا دیتے ہیں۔ دادی تھوڑا بہت چلیں گی تو ان کا جسم طاقت ور ہو گا ورنہ تو وہ بستر کی ہی ہو کر رہ جائیں گی۔اس لیے ان مشکلات سے بچنے کے لیے انسان کو اپنے بڑھاپے کے لیے کام کرنا ہو گا، زندگی کے اس سفر کو خوبصورت بنانا ہو گا اور ایک مضبوط و باہمت انسان بننا ہو گا۔