ججز کا خط

عبدالواحد سجاد

مضبوط عدالتی نظام کسی بھی ملک کی ترقی کی ضمانت ہے۔ جس ریاست یا ملک کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگ جائے، وہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ عدلیہ کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے۔ کسی بھی فرد یا ادارے کو عدالتوں کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے اور عدالتوں کی بھی سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب عدالتیں اور عدالتی فیصلے عوامی سطح پر مثبت یا منفی طور پر زیربحث آنا شروع ہوجائیں، تب عدالتی سسٹم کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔عدالتوں کا بھرم ہی اسی میں ہوتا ہے کہ ان کا احترام عوام کے دلوں میں قائم رہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے ایک صحافی سے گفتگو میں کہا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے سیاسی کردار اور کارکردگی پر سر عام بحث شروع ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ ہمارا ادارہ خود ہے۔ لوگ اداروں سے ڈرتے نہیں بلکہ ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس احترام کے پیچھے بھرم ہوتا ہے وگرنہ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ بھرم ادارہ خود توڑتا ہے۔جب ادارے ایک حد سے زیادہ عوام یا کسی بھی طبقے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ردعمل آتا ہے اور اس ردعمل میں سارا بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔ جنرل حمید گل مرحوم نے مثال دی کہ ایک تھانے میں چالیس کے قریب لوگ، کئی ہزار لوگوں کے امن و امان کو یقینی بنا رہے ہوتے ہیں۔ ایک گاﺅں میں کانسٹیبل چلا جائے تو پورا گاﺅں اس بھرم کے باعث ایس ایچ او کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ لیکن اگر ایس ایچ او ہر معاملے میں مسلسل زیادتی جاری رکھے تو ایک دن پولیس کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے اور لوگ تھانے کو آگ لگا دیتے ہیں۔اسی لیے جب بھی کسی گاﺅں یا علاقے میں ایسی صورتحال پیدا ہو تو متعلقہ ایس ایچ او کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ تاکہ لوگوں کا اداروں پر اعتماد اور احترام بحال رہے۔ جب اداروں پر تنقید بڑھ جائے اور عوام اداروں کا احترام کرنے پر تیار نہ ہوں تو فوری ایکشن کر کے اداروں میں تبدیلی لا کر بھرم قائم رکھا جاتا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنا واضح کر رہا ہے کہ عدلیہ کا بھرم بھی قائم نہیں رہا۔مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں، عدل کے ایوانوں میں ہوئیں ۔ اس جملے کی صداقت پر جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے بھٹو کی پھانسی تک پاکستانی عدلیہ کا کردار مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جسٹس انوارالحق اور ان کے ساتھیوں کی اکثریت بھٹو سے اختلاف رکھتی اور کچھ خوف اور دباﺅ کا شکار تھے، اسی لئے بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں عدلیہ نے بھٹو کیس ری اوپن کر کے بھٹو کے جوڈیشل مرڈر کا اعتراف کیا۔ بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ بھی سیف الرحمن اور نواز شریف کے دباﺅ پر سنایا گیا، اسی وجہ سے جسٹس قیوم اور جسٹس راشد عزیز کو مستعفی ہونا پڑا۔ نواز شریف کے خلاف عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلے بھی زیر بحث ہیں۔ جے آئی ٹی کے مجوزہ نام، وٹس ایپ کروانے والے جج شیخ عظمت سعید نے گریڈ 19 کی ایک خاتون کی پروموشن کی سفارش کی۔ ان کا کام نہ ہوا تو انہوں نے ایک مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھڑی وزیر اعظم کے لئے خالی ہے۔ ان ریمارکس پر وزیراعظم کی طرف سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو احتجاجی خط لکھا گیا مگر اس کا جواب تک نہ دیا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ جسٹس شیخ نیب کے لئے کام کرتے تھے حمزہ شہباز کے خلاف ان کے ریمارکس آن ریکارڈ ہیں۔ شریف خاندان سے نفرت اور تعصب کے باعث نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا۔انہی ایام میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمہ زیر سماعت تھا تو ایک وزیر خفیہ ایک جج سے ملے تو انہوں نے کہا نواز شریف استعفی دیں ہم پر بہت دباﺅ ہے۔ اسی خواہش کا اظہار آئی ایس آئی سربراہ جنرل ظہیر الاسلام نے ملک ریاض کے ذریعے نواز شریف سے کیا تھا، گویا جنرل ظہیر اور جج کا موقف ایک ہی تھا، ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ ایک جج اپنی شراب نوشی کی فلم سے بلیک میل ہو رہے تھے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کے بڑے بھائی اتفاق گروپ میں ملازم تھے، نکال دیے گئے تو وہ شریف فیملی کے مخالف ہو گئے۔ وہی بھائی جدہ میں حسین نواز کی سٹیل ملز کا خفیہ دورہ کرتے ہوئے پکڑے گئے۔انہی کے متعلق شریف خاندان کے پاس جج ارشد ملک کا ویڈیو ریکارڈ موجود ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ ثاقب نثار نے انہیں ایک دن اپنے دفتر میں بلا کر پوچھا کہ نواز شریف کو کتنی سزا دینی ہے؟ ارشد ملک نے سزا کا بتایا تو انہوں نے گواہوں اور بحث کے حوالے سے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا۔ثاقب نثار اسلام آباد کے ایک بڑے پلازے کے لیگل ایڈوائزر تھے ان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لگا تو خود انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے بینچ میں بیٹھ گئے۔ نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والے باقی ججز کی اندرونی کہانیاں بھی اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو اور شریف خاندان کے پاس محفوظ ہیں، اس حوالے سے انصاف کے ایوانوں سے اب تک کوئی بڑا فیصلہ نہیں آیا۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انصاف وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بنا پرہی خاندان، قوم اور ملک متحد رہتے ہیں۔ اگر والدین بھی بچوں سے ناانصافی کریں تو بچے بغاوت کر کے ان سے الگ ہو جاتے ہیں۔عدلیہ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتیاں کیں، بے نظیر بھٹو مختلف عدالتوں میں انصاف کی بھیک مانگتی رہیں مگر متکبر ججز نے انہیں کبھی انصاف نہ دیا۔ نواز شریف مقتدرہ سے لڑے تو عدلیہ کے بھی مبغوض و معتوب ٹھہرے اور پھر اس وقت کے منصفوں نے نفرت بھرے فیصلے دیے۔

مصلحت سب کا تھا ایمان، بھری بستی میں

سارے دانا تھے کوئی بات نہ سچی کہتا

تاریخ کے کٹہرے میں ماضی کے ججز غلط اور بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف درست ٹھہرے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا خط اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ماضی کی عدلیہ کے یہ فیصلے لوح حافظہ پر دستک دیتے ہیں۔ آج کے ججز خوش قسمت ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس میں ان کے خط پر غور کیا گیا۔ خط لکھنے والوں میں سینئر جج جسٹس محسن کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس ارباب طاہر، جسٹس اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت شامل تھے۔ خط میں ججز نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کا ذکر کیا اور لکھا کہ تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے کاش جسٹس صدیقی کے وقت بھی ان ججز کا ضمیر جاگتا۔ ججز کا خط ایک غیرمعمولی واقعہ تو ہے مگر یہ جوڈیشری میں بیٹھے لوگوں بارے سنجیدہ قسم کے سوالات بھی اٹھاتا ہے۔خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا اور شکایت آئی ایس آئی کی ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے علاوہ کسی کا احتساب کر سکتی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جو شکایات ہیں ان پر ایکشن لینے کا اختیار تو خود ان محترم ججز کے پاس ہے وہ ایسے لوگوں کو توہین عدالت میں بلائیں اور سزا سنا دیں جیسے ڈی سی راولپنڈی کو سنائی تھی۔ وزیر اعظم، چیف جسٹس ملاقات سے یوں لگتا ہے کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اس کے لیے خصوصی انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا گیا جس کی سربراہی ریٹائرڈ جج کرے گا۔بظاہر الزامات کو ثابت کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے کیونکہ ان الزامات کے ثبوت ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ مثلا ایک جج کے گھر کیمرے لگانے کا الزام ہے ‘کیمرہ ضرور ہو گا مگر ججز کا کہنا ہے کہ یہ آئی ایس آئی نے لگائے ہیں یہ کس طرح ثابت ہو گا؟ اسی طرح ایک جج کے برادر نسبتی کو پکڑنے کا الزام ہے وہ کس نے پکڑا، کیوں پکڑا، یہ کون ثابت کرے گا؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ الزامات صرف تین ججز کے ہیں تو باقی تین ججز کا پارٹی بننا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اللہ کرے یہ خط عدلیہ اور اداروں کو حدود و قیود کا پابند بنانے کا ذریعہ بنے۔