شہباز شریف کی جی ایچ کیو آمد

 سید مجاہد علی

وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ جی ایچ کیو کا دورہ کیا ہے۔ یوں ملک میں ایک پیج کی سیاست کو ایک نئی بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ اس دورے کے ذریعے وزیر اعظم نے واضح کر دیا ہے کہ امور حکومت و مملکت کے معاملات میں فوج اہم پارٹنر ہے۔عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر قائم ہونے والی حکومت اور غیر منتخب عسکری قیادت کے درمیان اس ملاقات سے ملکی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ حکومت اور فوج نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا جو عزم کیا ہے، اسے کس حد تک قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہے کہ ان کی سیاست کی بنیاد اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی قبول کر لینے کے اصول پر استوار رہی ہے۔ فوج اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کے بارے میں ماضی قریب میں کیے گئے فیصلوں کے نتائج سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں اسے شہباز شریف جیسے قابل اعتبار سیاسی فریق کی ضرورت ہے عمران خان جیل میں ہیں اور ان پر متعدد سنگین الزامات عائد ہیں۔ بعض مقدمات میں انہیں طویل المدت سزائیں بھی دی گئی ہیں۔ ان مقدمات کی سماعت اور سزا سنانے کے عمل میں عجلت اور بعض قانونی نقائص کی وجہ سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ہائی کورٹ میں اپیلوں کے دوران میں عمران خان کے خلاف سزاﺅں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ البتہ ابھی کسی بھی سزا کے خلاف اپیل کا سلسلہ شروع نہیں ہوا لیکن تحریک انصاف احتجاج، بیان بازی اور ہر پلیٹ فارم پر اشتعال انگیزی کے ذریعے حکومت کو چیلنج ضرور کر رہی ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے اشتعال انگیز بیان دینے والے لیڈروں سے قطع نظر اب پارٹی کا معتدل چہرہ سمجھے جانے والے لیڈر بھی شدت پسندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ قومی اسمبلی میں عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر علی نے حکومت پر گولہ باری کی ہے تو پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد قیصر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے۔ ہماری پالیسی مفاہمت کی نہیں بلکہ تصادم کی ہے ۔ اسی اثنا میں ایک ٹی وی انٹرویو میں اسد قیصر کا کہنا تھا کہ جعلی حکومت ملک کے معاشی مسائل سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ حکومت کے بارے میں اس تند و تیز طرز عمل کے ساتھ ہی دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف مینڈیٹ چوری کا نعرہ تو لگا رہی ہے لیکن سیاسی اور قانونی محاذ پر پسپا ہونے کے بعد وہ اسمبلیوں میں متحرک ہونے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی رہنما خواہ کتنی ہی شدت سے یہ اعلان کریں کہ موجودہ حکومت جعلی ہے لیکن اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف اٹھا کر اور اس کی کارروائی میں حصہ لے کر وہ درحقیقت ان فورمز کی منتخب اور قانونی حیثیت کو تسلیم بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں مسلسل احتجاج کرنے اور حکومت کو جعلی قرار دینے سے کیا مقصد حاصل ہو گا؟شہباز شریف کے دورہ جی ایچ کیو کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو ملکی معیشت کی بحالی کے منصوبے میں فوج ایک اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آئی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر متعدد بار اعلان کرچکے ہیں کہ فوج ملکی معاشی بحالی کے کسی منصوبہ میں کھنڈت ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس ماہ کے شروع میں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی معیشت مستحکم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ایک طرف عالمی اداروں و دوست ممالک کے مالی تعاون کی ضرورت ہوگی تو دوسری طرف ملک میں وسیع تر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا بھی اہم ہو گا۔ شہباز شریف نے اس ہفتے کے دوران میں خیبر پختون خوا کے وزیر اعلی امین گنڈا پور کے ساتھ ملاقات کر کے تحریک انصاف کے ساتھ بالواسطہ مفاہمت کا اشارہ دیا تھا۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو یقین دلایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت صوبے کی بہبود کے لیے ہر قسم کا تعاون کرے گی اور صوبائی حکومت کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔امین گنڈا پور نے بھی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے ساتھ مثبت ملاقات کا اعتراف کیا اور سیاسی مکالمہ کی ضرورت پر زور دیا۔ امین گنڈا پور کو عام طور سے تحریک انصاف کا شدت پسند رہنما مانا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے متوازن بیان سامنے آنے کے باوجود سیاسی منظر نامہ پر تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مفاہمت کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امین گنڈا پور نے تو یہ اعلان بھی کیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو عمران خان کے ساتھ مواصلت کا مشورہ دیا ہے تاکہ مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔ البتہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی مسائل کے حوالے سے حکومت اور تحریک انصاف کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ حکومت سیاسی احتجاج کا سلسلہ بند کروانا چاہتی ہے تب ہی وہ بعض سیاسی معاملات مثلا خیبر پختون خوا حکومت کی سہولت کاری یا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لیڈروں کو مزید گنجائش دینے پر آمادہ ہوگی۔ جبکہ تحریک انصاف کے نزدیک سیاسی احتجاج بند کرنے کی کم از کم شرط عمران خان کی فوری رہائی ہے۔ اس کے علاوہ وہ پارٹی کے سب لیڈروں اور کارکنوں کو فوری طور سے چھوڑنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ البتہ یہ مطالبے کرتے ہوئے پارٹی کی طرف سے حکومت کو کوئی سہولت دینے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ فی الوقت ایسا ماحول بھی موجود نہیں ہے کہ کسی سطح پر حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان افہام و تفہیم کے مقصد سے مشترکہ اصول طے کرنے کے لیے کوئی مواصلت موجود ہو۔ حالانکہ دریں حالات ایسی مواصلت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔حکومت اس بد اعتمادی کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد کرتی ہے۔ اس کا اندازہ آج وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے آئی ایم ایف کو تحریک انصاف کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت سیاست کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہی ہے حالانکہ اسے قومی مفاد پر پہلے غور کرنا چاہیے۔ اس بیان کا ایک ہی مقصد ہے کہ تحریک انصاف ہمہ قسم احتجاج ترک کر کے ایک روایتی اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اگرچہ عمران خان جیل میں ہیں لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پارٹی لیڈر فوری طور سے عملیت پسندی کا مظاہرہ کریں گے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ ایسا سیاسی کردار عوام میں پارٹی کی مقبولیت کے لیے سود مند نہیں ہو گا۔ اسد قیصر کے بیان کو اسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔تاہم وزیر اعظم نے جی ایچ کیو کا دورہ کر کے اور فوجی قیادت کے ساتھ ہم آہنگی و اشتراک کا پیغام دے کر درحقیقت تحریک انصاف کو یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اگر اس نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس کی لڑائی صرف شہباز حکومت یا پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے ساتھ نہیں ہوگی۔ بلکہ فوج کی قیادت میں ریاست بھی حکومت کی پشت پر ہوگی۔ آئی ایس پی آر نے آج وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کے بارے میں اعلامیہ میں بتایا ہے کہ آرمی چیف نے اس موقع پر کہا کہ پاک فوج قوم کی توقعات پر پورا اترتی رہے گی اور پاکستان کو درپیش سےکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی بھرپور حمایت کرے گی۔ دورے کے اختتام پر سویلین اور عسکری قیادت نے قومی مفادات کو برقرار رکھنے، خوش حال اور محفوظ پاکستان کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔اس پس منظر میں اسد قیصر اور تحریک انصاف کے دیگر لیڈروں کا یہ اعلان کہ موجودہ حکومت چار پانچ ماہ بھی نہیں چل سکتی، سیاسی خام خیالی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس وقت فوج اور وفاقی حکومت کے اہداف مشترکہ ہیں۔ ان میں معیشت کی بحالی کے علاوہ تحریک انصاف کو سیاسی لحاظ سے کمزور کرنے کا ہدف سر فہرست ہے۔ جب تک ایسے اہم اہداف پر اتفاق رائے موجود رہے گا، فوج اور حکومت کے درمیان کوئی دراڑ ڈالنا ممکن نہیں ہو گا۔ ملکی سیاسی قیادت کسی بھی سطح پر فوج کے ساتھ براہ راست تصادم سے ہی گریز نہیں چاہتی بلکہ وہ قومی معاملات میں فوج کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہے۔ سیاسی قوتوں کی سب سے بڑی کمزوری ان کا باہمی عدم اعتماد ہے۔ یہ افتراق مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان تو دیکھا ہی جاسکتا ہے لیکن مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان بھی اختلافات کی خلیج بہت گہری ہے حالانکہ بظاہر یہ دونوں پارٹیاں موجودہ سیاسی اتحاد میں شامل ہیں۔ سب سیاسی فریق اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے کسی بھی طرح فوج سے تعاون کے خواہاں ہیں لیکن مل کر قومی معاملات میں فوج کے آئینی کردار کو واضح کرنے پر آمادہ نہیں۔ باہمی عدم اعتماد اور فوج پر اعتبار کے اسی رویہ کی وجہ سے معروضی سیاسی حقیقت آئیڈیل آئینی پوزیشن سے متصادم ہے۔ البتہ اس کمزوری کو دور کرنے کی کوئی سیاسی تحریک اس وقت ملک میں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے جی ایچ کیو جانا پڑا۔دوسری طرف تحریک انصاف احتجاج، جعلی مینڈیٹ اور عدم تعاون کی پالیسی جاری رکھنے کا اعلان تو کرتی ہے لیکن اس کی اپنی صفوں میں ہم آہنگی دیکھنے میں نہیں آتی۔ خاص طور سے سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی کی شمولیت کے حوالے سے متعدد متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ اس پر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کا ایکس پر بیان دلچسپ اور سیاسی منظر نامہ کی غیر واضح تصویر کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دوست اپنے معاملات گھر میں ہی حل کریں تو بہتر ہے۔ سنی اتحاد کونسل کا فیصلہ عمران خان نے کیا تھا، میری طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔ انتخابی نشان سے لے کر مخصوص نشستوں تک میرے پاس بتانے کو وہ کچھ ہے کہ اگر میں نے بھی ٹاک شوز میں بیٹھ کر کچھ بول دیا تو کئی لوگ شکل دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ میری کمٹمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ میں فضول میڈیا پبلسٹی کےلئے عمران خان کا برا نہیں سوچ سکتا، صرف اسی لئے خاموش ہوں۔ ہدایات لے کر پھوٹ مت ڈلوائیں ۔اس پر مستزاد یہ کہ اسد قیصر نے اب یہ شگوفہ چھوڑا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے نئے انٹرا پارٹی انتخاب کو قبول کر لیا تو تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل ایک دوسرے میں پی ٹی آئی کے نام سے ضم ہوجائیں گی۔ لگتا ہے اسد قیصر نے یہ بیان دیتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا کی ناراضی پر غور نہیں کیا۔