عاشق فراز
تقریبا دو سال بعد سکردو سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا اور وجہ وہی آرتھرائٹس کا چیک اپ تھا۔ چار فروری کو بشارت ساقی کی کار میں اسلام آباد کے لئے عازم سفر ہوئے تو پاکستان میں الیکشن کی تیاریاں عروج پر تھیں کیونکہ آٹھ فروری کو الیکشن کا دن تھا۔ ہٹن کوہستان میں روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے کچھ توقف کرنا پڑا یہی ایک چائے خانے میں انجینئر سجاد باقی سے ملاقات ہوئی جو خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے کے لئے پرجوش تھا۔ انہوں نے زبردست چائے پلائی اور ان کی الیکشن مہم کے لئے نکلنے سے پہلے کچھ دیر کے لئے پرلطف گفتگو ہوئی۔ انجینئر سجاد کے والد بزرگوار مولانا باقی صاحب وزیر بھی رہے اور گلگت بلتستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی بہت مقبول تھے اور ہماری ان سے بھی اچھی سلام دعا تھی۔اسلام آباد میں چیک اپ کے علاہ صدر راولپنڈی اور اسلام آباد کی کتابوں کی دکانیں خاص طور پر اولڈ بکس شاپس ہی زیادہ تر ہماری جائے مسکن رہی کیونکہ یہ بیماری بڑی پرانی ہے۔صدر راولپنڈی میں ہی رازول کوہستانی، عبدالخالق تاج اور پروفیسر عبدالرزاق صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کے طفیل معلوم ہوا کہ 16سے لیکر 18 فروری تک پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں انڈس کلچرل فورم کے زیر اہتمام پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ منعقد ہونے والا ہے۔میلہ سے ایک دو دن پہلے فورم فار لنگویج انیشیٹیوز FLI جاکر اس ادارے کے ڈائریکٹر جناب فخرالدین اخونزادہ اور ان کے معاونین محمد زمان ساگر، امیر حیدر بگورو اور نسیم حیدر سے ملاقات کی۔ ان کے مطابق FLI نے بھی اس متذکرہ بالا میلے کے لئے کچھ تعاون کیا ہے ۔ فخرالدین اخونزادہ نے بڑی محبت سےاپنی تازہ تنصیف چترال کی زبانیں بطور تحفہ دیا جبکہ نسیم حیدر نے چترال کی شنا زبان جو وہاں پالولا کہلاتی ہے میں کی گئی شاعری اور زبان پر ان کی اپنی ریسرچ جو دو کتابوں شکل میں شائع ہوئی تھیں پیش کیا۔16 فروری کو میں اور ساقی صدر راولپنڈی سے میٹرو بس کے ذریعے سیدھے سیکرٹریٹ پہنچے جہاں سے چند قدم فاصلے پر گلگت بلتستان ہاﺅس کے سامنے PNCA کا دفتر اور آڈیٹوریم موجود ہے ۔افتتاحی تقریب مرکزی آڈیٹوریم میں تھی جس سے ڈی جی پی این سی اے اور چیئرمین انڈس کلچرل فورم نے خیر مقدمہ کلمات ادا کئے اور میلے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔اسی محفل میں مقامی زبانوں کا تحفظ کیوں ضروری؟ کے موضوع پر یونیسکو پاکستان کے نمائندے ، ڈاکٹر نجیبہ عارف چیئرپرسن اکادمی ادبیات اور چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے کلیدی خطاب کیئے۔اس کے بعد دوسرے کانفرنس رومز میں بیک وقت دو دو تقریبات منعقد ہوئیں۔ اب یہ اہل ذوق کی اپنی منشا و اختیار تھا کہ جس مباحثے یا محفل کو پسند کرے وہاں جا کر بیٹھے۔رازول کوہستانی اور عبدالخالق تاج صاحب کی صحبت نعمت سے کم نہیں تھی لہذا ان دونوں کے پہلو میں فروکش ہو کر ادبی میلہ کی ابتدائی تقریب کے مقررین کو سنا اور آخر میں مادری زبانوں کی موسیقی و رقص کا سواد ہی کچھ اور تھا۔انڈس کلچرل فورم ایک نجی غیر منافع بخش ادارہ ہے جو تہذیب وثقافت کے احیا کے لئے کئی سالوں سے سرگرم عمل ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے ادبی میلہ کا یہ نواں سال تھا جس میں بڑی تعداد میں علم و ادب سے شغف رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔اس ادبی میلہ کے لئے تین دن مختص تھے مگر مجھے اپنے چیک اپ کی وجہ سے صرف پہلے اور آخری دن شریک ہونے کا موقع ملا۔دوسرے دن کے موضوعات بھی بہت خاص تھے جس میں مادری زبانوں میں تراجم ، تاریخ پر متبادل بیانیہ ، ثقافتی ورثے کا تحفظ اور اکیسویں صدی میں پاکستان کی مادری زبانوں کے ادب کے نمایاں رحجانات تھے۔ نیز لوک ادب کے رنگ کے نام سے کتابوں پر گفتگو، پاکستان کی مادری زبانوں کے شعرا مزاحمت کی آواز اور ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات جیسے اہم عنوانات پر بھی گفتگو شامل تھی۔ہر سیشن کے موڈریٹر بھی خاص تھے۔ اس دن کے ایک سیشن میں طفیل عباس حیات کی شنا میں لکھی گئی ایک کتاب ”سجے جگو گٹمے چگائے“پر ہمارے دوست اور FLI کے کنسلٹنٹ امیر حیدر بگورو کی گفتگو بھی تھی۔دوسرے دن مجھے اپنے چیک اپ کی وجہ سے ادبی میلہ میں جانا نہیں ہوا تاہم ریکارڈنگ سے پتہ چلا کہ بلتستان کے نوجوان اور صاحب طرز بلتی شاعر یوسف کھسمن نے اپنا بلتی کلام سنا کر بڑا داد و تحسین وصول کی جس کا فی البدیہ اردو ترجمہ افضل روش نے ساتھ ساتھ کیا تھا۔تیسرے دن بھی نہایت اہم موضوعات پر سنجیدہ گفتگو ہوئی ان میں پاکستانی زبانوں میں فلم اور ڈرامے کا عروج اور زوال، مادری زبانوں میں شائع ہونے والے نئے ناول ، پاکستان میں لسانیات پر تحقیق افسانوں کا جہاں، مادری زبانوں میں سفر نامے اور آخر میں مادری زبانوں کے نابغہ روزگار شخصیات وغیرہ شامل تھے۔ہم نے مادری زبانوں پر لکھے گئے نئے ناول والے سیشن میں شرکت کی۔ اس سیشن میں دلچسپی اس لئے اور بھی بڑھ گئی تھی کہ گلگت بلتستان کے معروف شاعر اور ادیب افضل روش کا بلتی ناول شہ سر بھی اس میں شامل تھی۔ افضل روش کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے بلتی افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ سیشن میں ناول نگاروں نے اپنے اپنے ناولوں کے تھیمز اور پس منظر بیان کئے۔ افضل جب یہ ناول لکھ رہے تھے اس دوران سکردو کے ایک چائے خانے میں ملاقات رہتی تھی اس لئے مجھے ان کے اس کام سے کافی حد تک آگہی تھی۔میلے کے تیسرے دن کے ایک اور سیشن میں بیٹھنے کا موقع ملا جو پاکستان میں لسانیات پر تحقیق سے متعلق تھا۔ اس میں رازول کوہستانی اور عبدالخالق تاج صاحب بھی موجود تھے۔اس سیشن میں سرائیکی‘بلوچی، پشتو، داردی، بروہی زبانوں کی تاریخ اور اس پر موجودہ دور میں کئے جانے والے کام پر گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے پینل میں شریک محققین نے شرکا کو بتایا کہ یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے ان متذکرہ زبانوں کی تاریخ اور گرائمر پر ابتدائی اور بنیادی کام کیا۔سیشن میں یہ بات زیادہ شدت سے کہی گئی کہ حکومتی سطح پر کبھی بھی مقامی اور چھوٹی زبانوں کے فروغ اور احیا کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی۔ اس لاپرواہی کا نتیجہ ان زبانوں کی معدومیت اور ان کے بولنے والوں میں احساس محرومی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔داردی زبانوں پر بات کرنے کے لئے زبیر توروالی کا نام تھا تاہم وہ نہیں آئے تھے لہذا داردی زبانوں پر بات نہ ہوسکی۔ میں نے اس سیشن میں کچھ گزارشات پیش کی کہ گلگت بلتستان زبانوں کے تنوع کے لحاظ سے سب سے زیادہ زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کی زبانوں پر بھی بنیادی کام بھی مستشرقین کا ہے جبکہ ملکی سطح پر تو مردم شماری کے خانے میں بھی ہماری زبانوں کو دیگر کے کالم میں ڈال کر گمنامی میں دھکیلا گیا ہے۔ میں نے سیشن میں موجود رازول کوہستانی اور عبدالخالق تاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ کوہستان اور گلگت بلتستان کی زبانوں ، تاریخ اور لغت سازی میں ان دونوں کی گراں قدر خدمات ہیں لیکن ایسے صاحب علم شخصیات کو گفتگو کے پینل میں شامل نہیں رکھا گیا ہے۔ اس بات کو منتظمین نے محسوس کیا اور یقین دہانی کرا دی کہ آئندہ اس حوالے سے خاص خیال رکھا جائے گا۔ادبی میلے کی آخری تقریب مرکزی آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں پہلے پہل لوک فنکاروں نے موسیقی اور علاقائی رقص پیش کیا۔ رباب، ڈھول، بانسری ، سانتو سے موسیقی کی لہریں نکل نکل کر شائقین کو محظوظ کرتی گئی۔ عبدالخالق تاج کی بے چینی دیکھنے کے لائق تھی وہ نشت پر بار بار پہلو بدل رہے تھے۔ وہ لوک موسیقی کے نہ صرف دلدادہ ہیں بلکہ سر سنگیت اور رقص کے نبض شناس بھی ییں لہذا وہ زیادہ لطف اٹھا رہے تھے۔ادبی میلے کی اختتامی تقریب مقامی زبانوں کی نابغہ روزگار شخصیات کے عنوان سے تھی.اس کے مہمان خصوصی جمال شاہ تھے وہ ان دنوں نگران وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت تھے ۔ ان کی گفتگو بڑی متوازن اور حسب حال تھیں۔ اس اختتامی تقریب کی ہمارے لئے خاص اہمیت تھی کیونکہ اس میں جناب رازول کوہستانی کو لائف اچیومینٹ ایوارڈ دیا گیا۔ انہیں کچھ اور بڑے محققین کے ساتھ ساتھ یہ ایوارڈ دیا گیا۔ رازول کوہستانی گزشتہ چار عشروں سے زبان، تاریخ ، لغت سازی اور قبائل کی سماجی مغائرت پر کام کر رہے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے ایک حال ہی میں ان کی سیرت پر کوہستانی شنا میں لکھی گئی ضخیم کتاب بھی شامل ہے۔ انہوں نے کئی مستشرقین کے ساتھ بھی کام کیا ہے لہذا وہ داد و تحسین کے بجا طور پر مستحق تھے۔ادبی میلے کے پہلے دن کی کارروائی کو توثیق حیدر نے بطور کمپیئر خوب صورت انداز میں آگے بڑھایا جبکہ اختتامی تقریب کو مشہور شاعر محبوب ظفر نے حرف و صوت سے مہکا دیا۔