امان بونجوی
گلگت بلتستان دریاﺅں کی سرزمین ہے، یہ دریا جہاں وادی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں وہیں ہزاروں لاکھوں افراد کے روزگار کا بھی ذریعہ ہیں، دریا سے روزگار حاصل کرنے والا ایک قبیلہ سونا وال کے نام سے جانا جاتا ہے، چونکہ یہ قبیلہ خانہ بدوش ہے اس لیے کسی ایک جگہ رہائش اختیار نہیں کرتا۔ اس قبیلے میں بھی کم عمری میں بچیوں کی شادیوں کا رواج ہے۔گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں دیگر معدنیات کے ساتھ سونے کے ذخائر بھی موجود ہیں، گرمیوں میں برف پگھلتی ہے اور پہاڑوں سے زیادہ پانی آتا ہے تو اپنے ساتھ سونے کے ذرات بھی بہا لاتا ہے، سردیوں میں پانی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور دریا کی ریت تک پہنچنا آسان ہوتا ہے تو اس وقت اس خانہ بدوش قبیلے کی خواتین، بچے اور بچیاں ریت سے سونا نکالنے کا کام کرتے ہیں، ریت سے سونا نکالنے کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے جو نسل در نسل اس قبیلے کے باسی اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں، یہ قبیلہ اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے لیکن سردی ہو یا گرمی ان کی رہائش دریا کے کنارے ہی ہوتی ہے، اس قبیلے میں بچوں کو پڑھانے کا رواج نہیں ہے، بچے جیسے ہی سمجھ دار ہوتے ہیں، دریا سے سونا نکالنے میں اپنے خاندان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور بچیاں جیسے ہی جسمانی طور پر بالغ ہوتی ہیں،ان کی شادی کردی جاتی ہے۔ بعض مردوں کی تو کئی کئی شادیاں کرا دی جاتی ہیں، ہماری جب کچھ لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے کم عمری کی شادی کی کئی وجوہات بتائیں، اول یہ کہ کسی ایک جگہ قیام نہ ہونے کے باعث اس قبیلے کے افراد جھگیوں یا خیموں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، خواتین کو رفع حاجت کے لیے کھلے میں جانا پڑتا ہے، جہاں ان بچیوں اور خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے، متعدد خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اس میں قبیلے کے مردوں سمیت آس پاس کے اوباش نوجوان بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں اپنے سے بڑی عمر کے مردوں یا لڑکوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں، اس سے بچنے کے لیے بچی کے بالغ ہوتے ہی شادی کردی جاتی ہے، قبیلے میں بچیوں کی شادیاں بڑی عمر کے افراد سے ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایک ہی شخص سے کئی کئی لڑکیوں کی شادی کروا دی جاتی ہے۔ بچیوں کی کم عمری کی شادی کی بیان کردہ وجوہات سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی اتفاق نہیں کرسکتا۔کم عمری کی شادی کے مسائل تقریبا ہر جگہ یکساں ہی ہوتے ہیں، جو خود بچی ہو وہ بچہ کیا سنبھالے گی، حاملہ ہونے کی صورت میں گھریلو ٹوٹکوں سے علاج معالجہ کیا جاتا ہے، حاملہ ہونے کے باوجود اب بچیوں کو دیگر خواتین کے ساتھ باقاعدگی سے آبائی پیشے میں ہاتھ بٹانا ہوتا ہے، جو مزید مسائل کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے حاملہ خواتین کی اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ اگر کسی طرح لڑکی تمام تر بدترین حالات کے باوجود بچ جائے تو اس بچی کے بچوں کی ایک قطار ہوتی ہے، بچوں اور ماں کو صحت کے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسپتال یا صحت کی دیگر سہولتیں انہیں میسر نہیں ہوتیں، کیونکہ ان کے رہائش شہری علاقوں سے دور پہاڑوں اور دریاﺅں کے آس پاس ہوتی ہے۔ پھر سونا نکالنے کا کام تو کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ روایتی طریقہ کار کے باعث اس کی بہت معمولی سی مقدار ہی ہاتھ لگتی ہے، اس لیے گزر بسر بھی مشکل ہوتی ہے، بعض اوقات قبیلے کے مردوں کو تلاش معاش میں شہروں کی طرف جانا پڑتا ہے، ریپ کے واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود پولیس کے لیے انہیں انصاف دلانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، قبیلہ اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے، خود ان کے لیے بھی کورٹ یا تھانہ کچہری جانا مشکل ہوتا ہے۔سونا وال خانہ بدوش قبیلے کے مسائل اپنی جگہ لیکن اہم بات یہ ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادیاں کروائی جاتی ہیں اور ان کے لیے متعدد جواز بھی گڑھ لیے جاتے ہیں، یہ سلسلہ کب رکے گا اور کون روکے گا، یہ سوال ہمیشہ سے زندہ ہے اور شاید آگے بھی زندہ رہے گا۔