سید مجاہد علی
صدر آصف زرداری نے 19 رکنی وفاقی کابینہ سے حلف لے لیا ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوئی لیکن وہ بدستور مسلم لیگ نون اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کی اقلیتی حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ آصف زرداری مسلم لیگ نون کی حمایت کی وجہ سے ہی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں لیکن بظاہر پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے مشکل فیصلوں میں حصہ دار بن کر اپنی عوامی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی۔یہ صورت حال مسلم لیگ نون ، وزیر اعظم شہباز شریف حتی کہ مملکت پاکستان کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ ملک کو عملی طور سے دیوالیہ پن کا سامنا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ سے نیا قرض لیے بغیر ملک چلانا ممکن نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف سے نیا مالی پیکیج لینے کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ پاکستان فوری طور سے مالی دباﺅ سے نکل آئے گا اور جن دوست ممالک نے سرمایہ داری کے وعدے کیے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ تعاون کی ابتدا ہو سکے گی۔ چین نے انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومت کے قیام کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی طرح پیپلز پارٹی بھی سی پیک معاہدوں کو ملکی معاشی ترقی کے لیے درست راستہ سمجھتی ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے نتیجہ میں سی پیک میں مزید سرمایہ داری کی توقع کر سکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان فوری معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے اور نیا مالی پیکیج لینے پر مجبور ہے۔ آئی ایم ایف بہر صورت سی پیک کے ذریعے آنے والی سرمایہ کاری، اس پر شرح سود اور ملکی معیشت پر اس کے بوجھ کے بارے میں تشویش کا اظہار کرے گا۔یوں تو آئی ایم ایک خود مختار مالی ادارہ ہے جو بحران میں گھرے غریب ممالک کو مختصر المدت قرض فراہم کر کے ان کی معیشت کو سہارا دینے کا کام کرتا ہے لیکن اس فنڈ میں امریکہ کو اپنی حصہ داری کی وجہ سے آئی ایم ایف کے فیصلوں پر گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ امریکہ نے شروع دن سے پاکستان میں سی پیک منصوبہ کی مخالفت کی ہے۔ بظاہر یہ مخالفت ملکی معیشت پر اس کے ناگوار مالی بوجھ کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ میں شامل دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں سی پیک کے نام سے کی جانے والی سرمایہ کاری میں مہنگے قرضے خفیہ شرائط کے ساتھ فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک پر چینی شکنجہ سخت ہوجاتا ہے اور وہاں انسانی حقوق اور جمہوری روایات کو نقصان پہنچتا ہے۔ آئی ایم ایف بھی امریکہ کی طرح چین سے ملنے والے قرضوں کے بارے میں تکنیکی سوال اٹھاتا رہا ہے اور سی پیک معاہدوں کے بارے میں زیادہ کھلی پالیسی اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان کی زوال پذیر معیشت پر مہنگے قرضوں کا بوجھ اپنی جگہ پر ایک قابل غور مسئلہ ہے لیکن امریکہ یا اس کے زیر اثر عالمی مالیاتی ادارے جب سی پیک منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کے سیاسی، اسٹریٹیجک اور سفارتی پہلوﺅں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان کثیر آبادی، شرح پیداوار میں سست روی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورت حال میں ہر قسم کے مالی تعاون کا محتاج ہے۔ آئی ایم ایف سے امداد لے کر ملکی معیشت کو متحرک کیا جاسکتا ہے جبکہ سی پیک اور اسی قسم کے دیگر سرمایہ کاری منصوبوں سے ملک میں طویل المدت پیداواری منصوبے شروع ہوسکتے ہیں جو روزگار کے مواقع فراہم کر کے ملکی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ نئی پاکستانی حکومت کو عالمی اداروں اور دوست ممالک سے معاملات طے کرتے ہوئے ان اختلافات سے بچ کر چلنا ہو گا جو تجارتی منڈیوں تک رسائی کے حوالے سے امریکہ اور چین کی لڑائی کی وجہ سے دیکھنے میں آرہے ہیں۔چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے ذریعے دنیا کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر پر ایک ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ داری کی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ بھی اسی بڑے چینی پراجیکٹ کا ہی حصہ ہے۔ دوسری طرف امریکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی کامیابی کو دنیا کی منڈیوں پر امریکی تسلط کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس منصوبہ کی مکمل کامیابی سے بحر جنوبی چین کے علاوہ پورے خطے میں چین کی بالادستی میں اضافہ ہو گا جس سے امریکی مفادات کو زک پہنچ سکتی ہے۔ اسی لیے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے مقابلے پر انڈیا، مڈل ایسٹ۔ یورپ اکنامک کوریڈور تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبہ کے خد و خال ابھی واضح نہیں ہو سکے لیکن امریکہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر اس منصوبہ میں کئی سو ارب ڈالر سرمایہ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔یہ دونوں منصوبے عالمی تجارت میں سہولت پیدا کرنے اور اس سے منسلک ممالک کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنا کر ان کی پیداواری صلاحیت بہتر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ ہو اور علاقائی ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے مالی وسائل فراہم ہوں اور تنازعات پر قابو پایا جا سکے۔ البتہ امریکہ جس طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے مقابلے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، اس سے مسابقت اور مثبت مقابلہ کے رجحان کی بجائے تجارتی اور سفارتی میدان میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کا ماحول پیدا ہو گا۔ اس چپقلش کا بوجھ چھوٹے اور غریب ممالک کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو نئے مالی معاہدے کرتے ہوئے امریکہ اور چین کے درمیان جاری اس مقابلے بازی پر نگاہ رکھنا ہوگی اور کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا پڑے گا کہ ایک ملک سے تعلقات استوار کرتے ہوئے دوسرے کو ناراض نہ کیا جائے۔ موجودہ مالی مشکلات میں پاکستان کے لیے امریکہ کی رضامندی اور چین کا تعاون یکساں طور سے اہم ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہباز شریف نے نواز شریف کے معتمد اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ نہیں بنایا لیکن بھائی کو راضی رکھنے کے لیے انہیں وزارت خارجہ سونپ دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم کے تحت بننے والی شہباز حکومت کے مختصر دور میں اسحاق ڈار کی قدامت پسندانہ اور عاقبت نا اندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان اور آئی ایم ایف میں دوریاں پیدا ہوئی تھیں۔ بالآخر تین ارب ڈالر کے عبوری مالی تعاون کے لیے وزیر اعظم کو خود آئی ایم ایف کی سربراہ سے بات چیت کر کے معاملات طے کرنا پڑے تھے۔ اس لیے یہ بعید از قیاس نہیں ہونا چاہیے کہ اسحاق ڈار کو شاید آئی ایم ایف کے ساتھ کسی نئے تنازعہ سے بچنے کے لیے وزیر خزانہ نہ بنایا گیا ہو۔ حالانکہ نواز شریف تو انہیں مالی معاملات کا نابغہ سمجھتے ہیں اور مسلم لیگ نون کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ملکی معیشت ٹھیک کرنا اسحاق ڈار کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن تبدیل ہوتے ہوئے معاشی طریقوں، ٹیکنالوجی کی ترقی اور عالمی سیاسی و سفارتی صورت حال سے مالی معاملات کے تعلق کی وجہ سے اسحاق ڈار جیسے قدامت پسند ماہرین درست فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔اس کے باوجود انہیں وزارت خارجہ کا اہم منصب دیا گیا ہے۔ کسی ملک کا وزیر خارجہ اگرچہ سفارتی معاملات کو دیکھتا ہے اور دوسرے ممالک سے تعلقات کے حوالے سے کردار ادا کرتا ہے لیکن خارجہ تعلقات اور معاشی مفادات کے تال میل کی وجہ سے ملکی معیشت پر وزیر خارجہ کے فیصلوں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بڑی تصویر میں دیکھا جائے تو اسحاق ڈار اس منصب کے اہل نہیں ہیں۔ شہباز شریف مسلسل ملکی معیشت بہتر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں وزارتیں تقسیم کرتے ہوئے قرابت داری، پسند ناپسند اور حلیف جماعتوں کی حصہ داری پر غور کرنے کی بجائے کسی متاثر کن شخصیت والے فرد کو وزارت خارجہ کے اہم منصب پر فائز کرنا چاہیے تھا جو عالمی لیڈروں اور حکومتوں سے بات چیت کے دوران میں پاکستان کے لیے سہولتیں اور رعائتیں حاصل کر سکتا۔ اسحاق ڈار تو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں ناکام رہے تھے، وہ ایک پیچیدہ عالمی سفارتی صورت حال میں پاکستان کا چہرہ بننے اور پاکستانی موقف کو موثر انداز میں پیش کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ بڑے مقاصد کا عزم کرتے ہوئے چھوٹے فیصلے کر کے شہباز شریف کی حکومت شروع سے ہی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔وفاقی کابینہ کے حوالے سے دوسرا افسوسناک فیصلہ محسن نقوی کی وزیر داخلہ کے طور پر تقرری ہے۔ وہ پندرہ ماہ تک پنجاب کے نگران وزیر اعلی رہے ہیں۔ ایک نگران سیٹ اپ میں اہم عہدے پر فائز کسی شخص کو اگر کوئی نئی حکومت ایک اہم وزارت سے نوازے گی تو اس سے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ متعلقہ شخص ایک خاص ایجنڈے کے تحت انتخابات کی نگرانی کے لیے ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی بنایا گیا تھا۔ یا پھر مستقبل میں نگران عہدوں پر کام کرنے والوں کو پیغام دیا جائے گا کہ اگر وہ بھی خدمت گزاری کا طریقہ اختیار کریں گے تو انہیں بھی نوازنے میں دیر نہیں کی جائے گی۔ محسن نقوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلی ہوتے ہوئے ہی پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا تھا۔ اب انہیں قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن نہ ہونے کے باوجود وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ حالانکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف پہلے دن سے محسن نقوی کی جانبداری پر سوال اٹھاتی رہی ہے۔ شہباز شریف کی طرف سے یہ دو تقرریاں ظاہر کرتی ہیں جیسے پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کا بڑا ملک نہ ہو بلکہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں ضروری صلاحیت والے لوگوں کا قحط ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس تاثر کو قوی کرنے والی حکومت ضرور غلطی پر ہے۔محسن نقوی کے وزیر داخلہ بننے سے ملک میں سیاسی مصالحت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ شہباز شریف نے نگران عہدے پر فائز ایک شخص کو یہ عہدہ دے کر ایک غلط اور افسوسناک روایت قائم کی ہے۔ اس تقرری سے دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے ہاتھ بندھے ہیں اور پاﺅں میں بیڑیاں ہیں۔ ایسی مجبور حکومت کیسے ملک کو بحران سے نکال سکے گی اور شہباز شریف کے الفاظ میں غریب ملک میں سبسڈیز لینے والی اشرافیہ کو کیسے قابو کیا جا سکے گا؟